حکومت ترامیم کرکے بل کو اسلامی قوانین کے مطابق منظورکرے-فائل فوٹو
 حکومت ترامیم کرکے بل کو اسلامی قوانین کے مطابق منظورکرے-فائل فوٹو

قانونی ماہرین نے بھی ٹرانس جینڈر ایکٹ کی مخالفت کردی

سید علی حسن:
قانونی ماہرین نے بھی ٹرانس جینڈر ایکٹ کو اسلام کے منافی قرار دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی قانون اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا۔ جب تک اس کے لوازمات اور ریکوائرمنٹ پوری نہ کی جائیں۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ پر عمل درآمد سے قبل میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جانا بہت ضروری ہے۔ جو متعلقہ فرد کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد اپنی سفارشات لکھے اور ان ہی سفارشات کی بنیاد پر متعلقہ فرد کی شناخت تبدیل کی جائے۔ نادرا کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ میڈیکل بورڈ کی ڈیکلیئریشن کے بغیر کسی بھی فرد کی شناخت تبدیل نہ کرے۔ ایکٹ میں 18 سال سے کم عمر کے فرد کے لئے میڈیکل آفیسر سے معائنے کا کہا گیا ہے۔ تاہم 18 برس سے زائد عمر کے افراد کے لئے واضح نہیں کیا گیا۔ سندھ حکومت ٹرانس جینڈر ایکٹ میں ترمیم کرکے اسے اسلامی قوانین کے مطابق منظور کرے۔
وائس چیئرمین سندھ بار کونسل ذوالفقار علی جلبانی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک میڈیکل بورڈ تشکیل نہیں دیا جاتا۔ کیونکہ بغیر میڈیکل بورڈ کے کوئی بھی شخص باآسانی نادرا سے رجوع کرکے اپنا شناخت تبدیل کراسکتا ہے اور اس سے ہم جنس پرستی کو فروغ حاصل ہوسکتا ہے۔ اس لئے جب تک میڈیکل بورڈ کی تشکیل نہیں ہوتی۔ یہ ایکٹ ادھورا ہے۔ میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جانا چاہیے۔ جو شناخت تبدیل کرانے والے فرد کا پہلے باقاعدہ طور پر پراپر معائنہ کرے۔ تمام پہلو ؤں کو دیکھے اور میڈیکل بورڈ کی ڈیکلیئریشن کے بعد ہی شناخت تبدیلی کا پراسس آگے بڑھایا جائے۔ لہذا جب تک میڈیکل بورڈ کی تصدیق نہیں ملتی۔ تب تک نادرا کو بھی کسی فرد کی شناخت تبدیلی کا اختیار نہ ہو۔
سابق صدر سندھ ہائی کورٹ بار سلیم منگریو ایڈووکیٹ نے کہا کہ کوئی بھی قانون اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس کے لوازمات اور ریکوائرمنٹ پوری نہ کی جائیں۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ کی بھی جب تک ریکوائرمنٹ مکمل نہیں ہوتی۔ اس وقت تک یہ قانون غیر مؤثر رہے گا۔ کسی بھی شخص کو اس کی صوابدید پر شناخت تبدیل کرانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جو قدرتی طور پر خواجہ سرا ہیں۔ محض انہی کے حقوق کے لئے یہ ایکٹ لاگو کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ پر عمل درآمد سے قبل میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جانا بہت ضروری ہے۔ جو متعلقہ فرد کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد اپنی سفارشات لکھے اور ان ہی سفارشات کی بنیاد پر متعلقہ فرد کی شناخت تبدیل کی جائے۔
ماہر قانون خرم شہزاد ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈر بل اسلامی قوانین کے منافی ہے۔ حکومت کو ایکٹ منظوری سے قبل اس کی شقوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے تھی اور باقاعدہ طور پر ایک میڈیکل بورڈ بھی تشکیل دیا جانا چاہیے۔ جبکہ ایکٹ میں بھی اس بات کو شامل کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ یو کے میں اس قسم کا جو قانون پاس ہوا تو انہوں نے بھی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا اور وہاں میڈیکل بورڈ کی اجازت کے بغیر کسی بھی شخص کی شناخت تبدیل نہیں کی جاتی۔ اسی طرح پاکستان میں جو ٹرانس جینڈر ایکٹ ہے۔ اس کے ساتھ میڈیکل بورڈ کی تشکیل کو بھی جوڑا جائے۔ جو یہ دیکھے کہ شناخت تبدیل کرانے کے خواہشمند فرد میں قدرتی طور پر جنسی تبدیل رونما ہو رہی یا نہیں۔ اس کے علاوہ میڈیکل بورڈ مکمل طور پر معائنہ کرکے ڈیکلیئریشن دے۔ پھر جاکر اس شخص کو نادرا سے شناخت تبدیلی کی اجازت دی جائے۔ اگر میڈیکل بورڈ تشکیل نہ دیا گیا تو اس سے ہم جنس پرستی کو فروغ حاصل ہوگا۔ کیونکہ اس طرح تو کوئی بھی مرد شناختی کارڈ حاصل کرکے خود کو عورت ظاہر کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ جو شخص اپنی شناخت تبدیل کروانا چاہتا ہے۔ اس کو عورت یا مرد کے نام سے نہیں، بلکہ ٹرانس جینڈر کے نام سے شناختی کارڈ جاری کیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کی تمام شقوں پر نظر ثانی کرے۔ ایکٹ کی تمام شقوں کا جائزہ لیا جائے اور اس میں ترامیم کرکے اسلامی قوانین کے مطابق ٹرانس جینڈر ایکٹ کو پاس کرکے لاگو کیا جائے۔
ماہر قانون عثمان فاروق ایڈووکیٹ نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ اس ایکٹ کے نام میں ہی ابہام ہے۔ جس سے فتنہ کھڑا ہوگیا ہے۔ ٹرانس جینڈر سے کیا مراد ہے، یہ بات واضح ہی نہیں کی گئی اور اس قانون میں سقم ہے۔ مرد عورت بن جائے یا عورت مرد۔ یہ تو خود ایک فتنہ ہے۔ اگر خواجہ سرا کے حقوق کے لئے قانون بنایا گیا ہے تو اس میں واضح کیا جائے۔ خواجہ سرا کی تعلیم اور ملازمت کے بارے میں تو کہا گیا ہے۔ مگر ان کیلئے ملازمت کا کوٹہ نہیں بتایا گیا۔ اس کے علاوہ ایکٹ کے سیکشن 3 میں یہ بات تو کہی گئی ہے کہ تبدیلی اس بنیاد پر ہوگی جب وہ وضاحت پیش کرسکے گا۔ جبکہ شناخت کی تبدیلی کو متعلقہ قوانین اور نادرا قوانین کے ساتھ بھی جوڑا گیا ہے۔ نادرا کی ایس او پیز بالکل واضح ہے کہ مرد سے عورت یا عورت سے مرد شناخت تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ پھر سیکشن 7 میں بھی واضح طور پر نہیں بتایا گیا کہ اس میں کہا گیا ہے کہ 18 سال سے کم عمر فرد کی شناخت تبدیلی سے قبل میڈیکل آفیسر معائنہ کرے گا۔ لیکن 18 سال سے زائد عمر کے ایسے افراد کا واضح نہیں کیا گیا کہ آیا ان کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ وہ شناخت تبدیل کروا سکتا ہے یا نہیں۔ اگر کسی فرد میں 18 سال کی عمر کے بعد خواجہ سرا والی علامات آتی ہیں تو اس کے لئے کیا قانون ہے۔ اس کے علاوہ شناخت تبدیل کرانے والے کیلیے میڈیکل بورڈ بہت ضروری ہے۔ تاکہ کوئی دوسرا فرد اس ایکٹ سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔