میگزین رپورٹ:
فیصل آباد کے ایک پسماندہ گائوں سے تعلق رکھنے والی ثنا فاطمہ دھوبیوں کے خاندان سے بیاہ کر موچیوں کے پاس آئی تھی۔ بچپن تو غربت کی نذر ہوا ہی مگر شادی کے بعد شوہر کے گھر بھی غربت نے اس کا استقبال کیا۔ سکھ بھری زندگی کے ہزاروں سپنے اس کی آنکھوں میں سجے تھے، جن کی تعبیر تو کبھی نہ مل سکی البتہ شادی کے بعد شوہر بھی اس کے سپنوں میں شریک ہوگیا۔ دن رات جوتے گانٹھنے کے بعد بھی جب ہاتھ دراز ہونے کے بجائے تنگ ہوتا گیا تو دونوں میاں بیوی نے کالے جادو کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا۔ کالے جادو سے کسی کی قسمت بنتے آج تک نہیں دیکھی گئی مگر اس چکر میں پڑ کر تباہ ہونے والوں کی کہانیاں ہر جگہ بکھری پڑی ہیں۔
یہی کچھ ندیم موچی اور اس کی بیوی ثنا فاطمہ کے ساتھ ہوا۔ دونوں ایک ایسے شیطان کے چیلے بن گئے، جس نے انہیں بھی شیطان بنا دیا۔ ثنا کو شادی سے قبل کبھی اپنے گائوں سے باہر نکلنا نصیب نہیں ہوا تھا۔ البتہ اس کا شوہر ندیم فیصل آباد اور لاہور میں مزدوری کر چکا تھا۔ شادی کے بعد دونوں اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے ایک شہر سے دوسرے شہر چکراتے رہے۔ ثنا کے کچھ رشتہ دار کراچی میں مقیم ہیں، ان تک ہماری رسائی اس پولیس افسر کے ذریعے ہوئی جو ندیم اور ثنا کے معاملے کی تفتیش کرتا رہا تھا۔ البتہ ندیم موچی کا کوئی رشتے دار کراچی میں نہیں رہتا، اس لیے اس کے کسی رشتے دار سے ہماری ملاقات نہیں ہو سکی۔
ثنا اور ندیم 11 جنوری 2010ء کو کورنگی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوئے تھے۔ اس وت تک دونوں اپنی ایک بیٹی کی بلَی چڑھا چکے تھے۔ جبکہ دوسری بچالی گئی۔ اس وقت پولیس کا خیال تھا کہ کسی جادو ٹونے کے چکر میں دونوں نے چلہ کاٹتے ہوئے اپنی بچی کی بھینٹ چڑھائی ہوگی، مگر حقیقت اس سے بہت زیادہ خوفناک تھی۔ کراچی آنے سے قبل ندیم اور اس کی بیوی ثنا حب چوکی میں کئی سال رہے تھے۔ وہاں سے دونوں ہنگلاج کئی بار گئے۔ گوکہ اس بارے میں پوری طرح معلوم نہیں ہو سکا کہ بچی کی بھینٹ ان کی طرف سے پہلی بلَی تھی یا اس سے قبل بھی وہ کسی انسان کو قربان کر چکے تھے۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ دونوں کالے جادو میں نوآموز نہیں تھے بلکہ کئی برس کی ریاضت کے بعد کئی مدارج طے کر چکے تھے۔ اس بات کی تصدیق کئی ہندو بھگتوں نے بھی کی کہ انسانی قربانی کا مرحلہ کالے جادو میں نویں نمبر پر جاکر آتا ہے اور یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جس میں انسانی قربانی دے کر ’’بیر‘‘ قابو کیا جاتا ہے۔
’’بیر‘‘ کو کچھ لوگ مؤکل بھی کہتے ہیں، جبکہ ہندو اور کالے جادو والے میاں بیوی ہر حال میں مال دار بننا چاہتے تھے۔ مال، جائیداد کے سلسلے میں ندیم کا اپنے سسرالیوں سے کئی بر جھگڑا بھی ہوا تھا، جس میں اس کی بیوی بھی اپنے شوہر کا ساتھ دیتی تھی۔ پھر وہ سٹے کا نمبر پوچھنے کے لیے جوگیوں اور ملنگوں کے پیچھے پڑا رہتا تھا۔ کالے جادو سے ان کا تعلق جوگیوں کے ذریعے ہی شروع ہوا تھا، یہی تعلق اسے ہنگلاج کے مندر تک لے گیا۔ ’ہنگلاج ماتا‘ اصل میں سانپوں کے زہر کی دیوی کہلاتی ہے۔ پاکستان بھر کے جوگی سال میں ایک بار لازماً یہاں آتے ہیں یا پھر وہ لوگ جو سانپ اور دیگر زہریلے کیڑوں کا توڑ کرنے کے لیے منتر وغیرہ پڑھتے ہیں، وہ بھی یہاں آکر جاپ ضرور کرتے ہیں۔
منتروں وغیرہ کے ذریعے زہر کا توڑ کرنا کالے جادو یا کالے علم کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ ’نرٹھ‘ کہلاتا ہے۔ اس میں انسان کے پاس چھوٹے موٹے شعبدے تو آجاتے ہیں مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ مثلاً سانپ اور بچھو وغیرہ ایسے لوگوں کو نہیں ڈستے، زہر ان پر اثر نہیں کرتا۔ مگر اس کے لیے بہت بھاری قربانی دینا پڑتی ہے۔ انسانی اور حیوانی گندگی غذا میں شامل کر کے جسم میں اتارنا پڑتی ہے تب ہی ’’نرٹھ‘‘ کا جاپ مکمل ہو سکتا ہے۔ ہندو مت کے ان مراحل کے بارے میں ہمیں کافی معلومات کشور سے بھی ملیں۔ ہمارا خیال تھا کہ وہ ہمیں ہنگلاج تک لے جانے کے علاوہ ایسے لوگوں سے بھی ملاقات کرا دے گا جو وہاں جاتے رہے ہیں مگر سوئیپر کشور کی معلومات ’’لونا چماری‘‘ سے لے کر ’’ماتا کالی‘‘ تک حیران کن تھیں۔
انسانی قربانی ویسے تو کئی ’’ویداسوں‘‘ یعنی ہندو مت کے علوم کی شاخوں میں دی جاتی ہے۔ مگر ان میں سب سے شیطانی، کالا جادو ہے۔ اکثر لوگ اپنی منت کو پورا کرنے کے بجائے ’’بیروں‘‘ یعنی مؤکلوں یا جنات کو قابو کرنے کے لیے انسانی قربانی دیتے ہیں، مگر اس کا مرحلہ بہت بعد میں آتا ہے۔ اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے عمر کھپانا پڑتی ہے۔ کالے جادو کا سب سے پہلا مرحلہ ’’نرٹھ‘‘ کہلاتا ہے۔ اس میں آدمی چھوٹے موٹے جھاڑ پھونک میں مہارت حاصل کر لیتا ہے۔ مخصوص تنتر جو اس مرحلے میں پڑھا جاتا ہے، وہ گلی محلے میں پھرنے والے سپیرے بھی بتا دیتے ہیں، اسے نرٹھ جاپ کہتے ہیں۔ اس کے بعد کا مرحلہ بھی انسانی قربانی سے بہت دور ہوتا ہے۔ اسے ’سگنت جاپ‘ کہتے ہیں، اس درجے کو پار کرنے والے چھوٹے موٹے شعبدے دکھا لیتے ہیں مگر ان کے پاس کسی قسم کے جنات وغیرہ نہیں ہوتے۔ نا تو یہ لوگ دولت کما سکتے ہیں اور نا ہی اپنی خواہشات پوری کر سکتے ہیں۔ ان مرحلوں سے گزرنے والا نا تو جادوگر ہوتا ہے اور نا ہی کسی مذہب سے اس کا کوئی تعلق باقی رہتا ہے۔ یہ کل 7 مراحل ہوتے ہیں جن میں کسی انسانی بھینٹ کی ضرورت نہیں پڑتی۔
اکثر سپیرے، جادو کا تماشا دکھانے والے اور جعلی پیر یا پروفیسر بنگالی جیسے افراد انہیں سات مراحل میں ہوتے ہیں۔ ان مراحل کو ’’کنٹھا‘‘ کہا جاتا ہے۔ کنٹھا سے آگے بڑھنے والا شخص انسانیت کے دائرے سے نکل کر ’’لونا چماری‘‘ کے خاندان میں شامل ہو جاتا ہے اور پہلی انسانی بھینٹ بھی اسی کو دی جاتی ہے۔ ہندو بھگتوں کا دعویٰ ہے کہ ’لونا چماری‘ بھی ہندو مت میں ’ماتا کالی‘ کی طرح ایک دیوی ہے مگر اس کا درجہ ’ماتا کالی‘ سے کم ہے۔ اس بیر سے کچھ بھی کرایا جا سکتا ہے۔ یہ دولت بھی لا سکتا ہے اور کسی کو مار کر بھی آسکتا ہے۔ محبوب کو قدموں میں جھکانے کا کام صرف وہی شخص کر سکتا ہے، جو لونا چماری کو انسانی بھینٹ دے کر ایک عدد بیر کا مالک بن چکا ہو۔ مگر بیر کے ذریعے کسی کو قابو کرنے کا انجام بہت دردناک ہوتا ہے۔ کیونکہ بیر اگر کسی پر مسلط ہو جائے تو پھر زندگی بھر اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور اولاد تک کو برباد کر دیتا ہے۔
ندیم اور ثنا کا معاملہ اس کے رشتے داروں کی باتوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وہ ’’کنٹھا‘‘ کے سات مراحل طے کر چکے تھے۔ مگر ظاہر ہے کہ اس دوران انہیں کچھ حاصل ہونے کے بجائے جو کچھ تھا، اس سے بھی ہاتھ دھونا پڑا تھا لہٰذا اب وہ انسانی بھینٹ دے کر بیر کو قابو کرنے کی ترکیب کررہے تھے۔ حب چوکی میں رہائش کے دوران انہوں نے ہنگلاج کی مٹی حاصل کی ہو گی اور کراچی میں اپنا ٹھکانا بنا کر کام شروع کر دیا۔ مگر قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور وہ پولیس کے ہاتھوں پکڑے گئے۔
پولیس حراست میں ندیم کا کہنا تھا کہ اپنے ہی بچوں کی بلَی دینے کا فیصلہ اس نے اس لیے کیا تھا کہ کسی اور کو لاکر بلَی چڑھانا ناممکن تھا۔ دونوں میاں بیوی اکیس دن کا چلہ کاٹنے اپنے گھر میں ہی بیٹھے تھے مگر ان کی پراسرار گمشدگی پر دسویں روز ہی محلے والے پولیس کی مدد سے گھر میں گھس گئے اور انہیں گرفتار کر لیا، جس کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ وہ ایک بچی کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں۔ کالے جادو کی جاپوں والی کتابوں اور ڈائری پر لکھے تنتروں نے تمام حقیقت کھول دی۔
حیرت انگیز بات یہ تھی کہ شروع میں کوئی بھی اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا کہ کوئی اپنے بچوں کی بلَی بھی چڑھا سکتا ہے۔ پاکستان میں ایسے واقعات بہت ہی کم ہوتے ہیں اور پھر اسلام میں ایسا کوئی تصور بھی نہیں ہے۔ لہٰذا پولیس سمیت تمام لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ ندیم اور ثنا شاید پاگل پن میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ گرفتاری کے بعد پولیس نے جب ان کے کمرے کو کھود کر بچی کی کچلی ہوئی لاش برآمد کر لی تو ندیم اور اس کی بیوی نے یہ قبول کیا کہ بچی کو انہوں نے بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے رہے کہ انہیں ایسا کرنے کا حکم ملا تھا۔ پولیس نے دونوں میاں بیوی کا دماغی معائنہ کرانے کا فیصلہ کیا تاکہ یہ پتا چلایا جا سکے کہ وہ پاگل پن کا شکار تو نہیں ہیں۔ تاہم آج تک ندیم کے ’گرو‘ کا پتا نہیں چل سکا جو یہ سب کچھ کرا رہا تھا۔
لونا چماری کے خاندان میں شامل ہونے کے لیے یہ لازمی ہے کہ جاپ کرنے والے کا کوئی گرو ہو، جو اسے عمل کرائے۔ انسانی قربانی کا مرحلہ چونکہ کافی خطرناک ہوتا ہے اور اس کے بعد حاصل ہونے والی شیطانی طاقتیں بھی خطرناک ہوتی ہیں۔ لہٰذا کم از کم ’’پورن بھگت‘‘ کے درجے کا کوئی جادوگر ہوتا ہے۔ اپنے چیلوں میں اضافے کا مقصد ہی یہ ہوتا کہ گرو خود بھی اگلے درجے میں داخل ہو سکے۔ یہ بات نہایت اہم تھی کہ ندیم اور ثنا کا گرو کون تھا جو انہیں یہ عمل کرا رہا تھا؟ کیونکہ یہ بات تو یقینی ہے کہ ندیم کی ناکامی کے بعد وہ ایسا کوئی اور ڈھونڈے گا جو اس کے کام آسکے۔ ندیم اور ثنا نے حب چوکی سے کراچی آنے کے بعد کورنگی میں مکان حاصل کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا گرو بھی کورنگی میں ہی کہیں ہوگا۔