سید علی حسن:
صارفین کے لئے قائم کیے گئے کورٹ عوام کیلیے ریلیف کا بڑا ذریعہ بن گئے۔ کمپنیوں و دکانداروں کی جانب سے ٹھگنے پر قانونی چارہ جوئی آسان ہوگئی ہے۔ کراچی کے بڑے نجی اسپتالوں، نجی ایئرلائنز، سوئی سدرن گیس، واٹر بورڈ، گاڑیاں بنانے والی اور دیگر کمپنیوں کے خلاف سینکڑوں شہریوں نے ہرجانے کے دعوے دائر کردیئے ہیں۔ رواں برس صارف عدالتوں نے درجنوں شہریوں کی درخواستوں پر گاڑی کمپنیوں سمیت دیگر پر لاکھوں روپے جرمانہ بھی عائد کیے۔ تاہم شہریوں میں کنزیومر حقوق سے متعلق آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے فراڈ کا شکار ہزاروں افراد عدالتوں سے رجوع کرنے سے محروم ہیں۔ کراچی میں قائم 7 صارف عدالتوں میں اب بھی 230 کے قریب کیسز زیر سماعت ہیں۔ تاہم ان چند عدالتوں میں ہزاروں کرمنل اور سول کیسز بھی زیر سماعت ہونے کی وجہ سے ان پر مقدمات کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔
سٹی کورٹ اور ملیر کورٹ میں ہر اضلاع کیلئے مجموعی طور پر 7 صارف عدالتیں قائم ہیں۔ جہاں صارفین کسی بھی کمپنی یا دکاندار کے خلاف شکایت درج کراسکتے ہیں۔ ضلع جنوبی، شرقی، غربی، وسطی اور ملیر کی صارف عدالتوں میں سینکڑوں شہریوں کی جانب سے اپنی شکایات درج کروائی گئی ہیں۔ جن میں زائد پیسے وصولی، وارنٹی ہونے کے باوجود کلیم نہ کرنے، پیسے وصولی کے باوجود یوٹیلیٹی سہولت کی عدم فراہمی سمیت دیگر مسائل شامل ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ 130 سے زائد مقدمات ضلع جنوبی اور شرقی کی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
کنزیومر پروٹیکشن کورٹس کے قیام کے بعد ٹھگے جانے والے شہریوں کیلئے انصاف ملنا آسان ہوگیا ہے۔ صارفین کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکلا کے بقول شہر میں ہزاروں افراد کو کمپنیوں اور دکانداروں کی جانب سے مختلف مد میں ٹھگا جاتا ہے۔ موبائل میں خرابی آنے پر کمپنی وارنٹی ہونے کے باوجود چارہ جوئی نہ کرے۔ یوٹیلیٹی کمپنی پیسے وصولی کے باوجود سہولت نہ دے۔ اسپتالوں میں ضرورت سے زائد پیسے اینٹھ لئے جائیں۔ تو ان کے خلاف عدالت میں شکایت درج کروائی جاسکتی ہے۔ کراچی کے بڑے نجی اسپتالوں، نجی ایئرلائنز، سوئی سدرن گیس، واٹر بورڈ سمیت نجی کمپنیوں کے خلاف اب تک سینکڑوں شہریوں نے ہرجانے کے دعویٰ دائر کیے ہیں۔ جن پر کمپنیوں و دکانداروں پر لاکھوں روپے جرمانے بھی کیے جا چکے ہیں۔
صارف عدالتوں سے رجوع کرنے والوں میں امریکا میں رہائش پذیر پاکستانی ماں بیٹے فرح شاہ اور سید فردین شاہ کی جانب سے اپنے وکیل فراز فہیم ایڈووکیٹ کے توسط سے کنزیومر پروٹیکشن کورٹ جنوبی میں ہرجانے کا دعویٰ نمبر 6/2022 داخل کیا گیا۔ دعوے میں ترک ایئرلائن کو فریق بنایا گیا۔ دعویٰ میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ وہ پاکستانی اور امریکی شہریت رکھتے ہیں اورامریکا سے پاکستان اپنے عزیز کی میت میں آئے تھے۔ انہیں 9 نومبر 2021ء کو کراچی سے استنبول اور پھر وہاں سے امریکا جانا تھا۔ جس کیلئے ترکش ایئرلائن کا ٹکٹ نمبر 0534960 اور کسٹمر نمبر 2801006157 بک کرایا گیا۔ سفر پر روانگی سے قبل ہی انہوں نے اپنی تیاریاں مکمل کرلی تھیں۔ 9 نومبر 2021 کو ایئر پورٹ پہنچنے سے قبل انہوں نے سفر سے متعلق آئن لائن چیک بھی کیا۔ جس میں تمام چیزیں معمول کے مطابق بتائی گئیں۔ مگر جیسی ہی وہ ترکش ایئرلائن کے کاؤنٹر پر پہنچے تو وہاں موجود عملے نے انہیں بورڈنگ کارڈ جاری کرنے سے انکار کردیا۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ فردین شاہ کے قومی شناختی کارڈ فار اوورسیز پاکستانی (NICOP) ایکسپائر ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں بورڈنگ کارڈ جاری نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ فردین شاہ امریکی پاسپورٹ نمبر 567338135 پر سفر کر رہا تھا اور انہوں نے نادرا سے آن لائن رجوع بھی کر رکھا تھا۔ جس کا ٹریکنگ نمبر 770002506358 ہے۔ جو شہریت ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔ مگر انہوں نے بورڈنگ کارڈ جاری کرنے سے منع کردیا۔
ایئرلائن انتظامیہ کے غیر قانونی مطالبے کی وجہ سے انہیں ذہنی اذیت اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ دوسرے ٹکٹ کے لیے اضافی رقم ادا کرنی پڑی۔ کھانا، ایئرپورٹ تک آمدورفت کیلئے ٹرانسپورٹ کا انتظام بھی کرنا پڑا۔ جبکہ انہیں اپنی ملازمت اور تعلیم جوائن کرنے میں بھی تاخیر ہوئی۔ 26 نومبر 2021ء کو ایئرلائن کو کنزیومر پروٹیکشن قوانین کے تحت لیگل نوٹس بھی بھیجا گیا تھا۔ تاہم اس کا جواب نہیں دیا گیا۔ لہذا استدعا ہے کہ درخواست گزاروں کو ترکش ایئر لائن سے 44 لاکھ روپے بطور ہرجانہ دلوایا جائے۔ اسی طرح ایک شہری کی جانب سے پانی کی لائن منقطع کرنے پر کراچی واٹر اینڈ سیورج بورڈ کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا گیا۔ شہری نے موقف اختیار کیا کہ واٹر بورڈ نے بغیر کسی نوٹس کے پانی کا کنکشن کاٹ دیا ہے۔ جبکہ وہ تمام بل وقت پر ادا کرتا رہا ہے۔ بغیر کسی اطلاع اور نوٹس کے پانی کی لائن بند کرنا غیر قانونی ہے۔ واٹر بورڈ گزشتہ تین سال سے میٹھا پانی تک فراہم نہیں کر سکا۔ لائن بند ہونے سے ماہانہ 30 ہزار کا پانی ٹینکرز کے ذریعے خریدنا پڑ رہا ہے۔
’’امت‘‘ کو حاصل معلومات کے مطابق صرف دو دن مریض کو رکھنے پر ایک لاکھ 74 سے زائد فیس وصول کرنے کے خلاف شہری نے ایک بڑی نجی اسپتال کے خلاف بھی شکایت درج کرائی تھی۔ درخواست گزار کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ اس کے والد کو ایمرجنسی میں اسپتال داخل کیا۔ اسپتال والوں نے داخلے کے وقت 22 سو روپے فیس لی۔ والد کو ایمرجنسی وارڈ میں داخل کرنے کے بعد 80 ہزار مزید لیے گئے۔ رقم ادا کرنے کے بعد کہا گیا کہ مریض کو آئی سی یو میں داخل کر رہے ہیں۔ آئی سی یو میں داخل کرنے کیلئے مزید 19 ہزار لیے گئے۔ ایک دن بعد بتایا گیا کہ مریض انتقال کر گیا ہے۔ جب وہ کاغذی کارروائی مکمل کرنے اکاؤنٹ آفس گیا تو مزید 92 ہزار 179 روپے ادا کرنے کا کہا گیا۔ اتنی رقم کے بل کی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔ میت وصولی کیلیے مجبوراً رقم ادا کرنی پڑی۔ اسپتال ایک غیر منافع بخش اسپتال ہے۔ اس کے باوجود اتنی رقم کیوں لی گئی؟۔ اسپتال پر 6 لاکھ 92 ہزار 179 روپے جرمانہ عائد کیا جائے۔ متعلقہ اسپتال درخواست گزار کو معاوضہ ادا کرے۔
اسی طرح نسلی کتے کے نام پر عام کتا فروخت کرنے کے خلاف بھی شہری کی جانب سے رجوع کیا گیا۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پیٹ سٹی ڈیفنس سے 80 ہزار میں شی ٹزو نسل کا کتا خریدا۔ جیسے ہی کتے کو گھر لے کر گیا تو اس کی نسل پر شک ہوا۔ عدالت دھوکہ دہی پر پیٹ سٹی کے خلاف کارروائی کا حکم دے۔ اس شکایت پر عدالت کی جانب سے جانوروں کے ماہر ڈاکٹر سے رپورٹ بھی طلب کی گئی۔ جس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ کتا شی ٹزو نسل کا نہیں۔ علاوہ ازیں وارنٹی والی بیٹری خراب ہونے پر شہری کی جانب سے دکان مالک کے خلاف ہرجانے کی درخواست بھی جمع کرائی گئی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ اس نے 15 مئی 2022ء کو خداداد کالونی میں قائم ثریا لیوبریکینٹ سے بیٹری 5 ہزار 8 سو میں خریدی۔ جس کی ایک سال کی وارنٹی تھی۔ 3 ماہ بعد بیٹری خراب ہونے کی صورت میں متعلقہ دکان پر لے گیا۔ دکاندار نے کہا کہ بیٹری کا سیل جل گیا ہے۔ نئی بیٹری کا مطالبہ کیا تو ڈبل پیسے مانگے گئے۔ دکاندار سے 5 لاکھ ہرجانہ دلوایا جائے۔
صارف عدالتوں سے رجوع کرنے پر درجنوں شہریوں کو انصاف بھی مل چکا ہے۔ رواں سال شہری کی درخواست پر کار ڈیلر پر 2 لاکھ 50 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔ جبکہ درخواست گزار کو کار کے اصل کاغذات بھی فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔ درخواست گزار محمد اکبر کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ اس نے 25 لاکھ روپے میں استعمال شدہ ٹیوٹا گاڑی خریدی۔ رقم ادا کرنے پرگاڑی تو فراہم کی گئی لیکن اصل کاغذات نہیں دیئے گئے۔ کار ڈیلر شیخ ہانی صبور کو بار بار درخواست کرنے پر بھی فائل نہیں دی گئی۔ کار ڈیلر ایسوسی ایشن سے بھی رجوع کیا۔ لیکن کوئی مثبت جواب نہ ملا۔ کار ڈیلر پر ایک کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا جائے اور فراڈ کرنے پر جیل بھیجا جائے۔ اسی طرح بکنگ کے باوجود گاڑی فراہم نہ کرنے پر گاڑیاں بنانے والی ایک بڑی کمپنی پر ساڑھے پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔ عدالت نے کمپنی کو درخواست گزار کو گاڑی دینے یا رقم واپس کرنے کا حکم بھی دے دیا ہے۔
صارفین کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکلا سے بات کی گئی تو فراز فہیم ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ کنزیومر پروٹیکشن کورٹس کے قیام سے کسی بھی صارف کیلئے انصاف ملنا آسان ہوگیا ہے۔ کوئی بھی صارف ٹھگے جانے پر عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ کی سیکشن 31 ڈی کے تحت عدالتوں کو درخواست داخل ہونے کے 30 دن میں کیس کا فیصلہ سنایا جانا ہوتا ہے۔ مگر اس وقت ضلع جنوبی اور شرقی کی عدالتوں میں کرمنل اور سول کیسز بھی زیر سماعت ہونے کی وجہ سے ان عدالتوں میں مقدمات کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے کنزیومر کیسز نمٹنے میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ شہریوں میں ان کے کنزیومر حقوق کی آگاہی نہیں ہے۔
اسی سے متعلق خرم شہزاد ایڈووکیٹ نے بتایا کہ اس وقت سب زیادہ کیسز ضلع جنوبی اور ضلع شرقی کی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ ان مقدمات میں اکثر یہ بھی دیکھا گیا کہ عدالت سے رجوع کرنے پر فریقین کے درمیان صلح ہوجاتی ہے۔ کیونکہ جب صارف کسی کمپنی کے خلاف شکایت درج کراتا ہے تو وہ کمپنی صارف کو اس کے نقصان کا ازالہ کرنے کا کہتے ہوئے شکایت واپس لینے پر زور دیتی ہے۔ صارف اپنا نقصان پورا ہوتے دیکھ کر صلح بھی کرلیتا ہے۔