سجاد عباسی
گیارہواں حصہ
ہم چوہدری غلام محمد کے نام سے تو واقف تھے کہ ان کا نام کبھی کبھی بیانات کی صورت میں اخبارات میں نظر سے گزرتا تھا۔ لیکن کبھی ان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے اس بات کی خوشی ہوئی کہ ان سے مل بھی لیں گے اور یہ اہم مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ ہم نے اس کا ذکر اپنے ساتھی طالب علم شفیع محمد اور دوست بشیر سے کیا اور ان کو ساتھ چلنے پر آمادہ کر لیا۔ چنانچہ اس دن ہم نے مغرب کی نماز جامع مسجد آرام باغ میں ادا کی اور نمازکے بعد ہم چاروں یعنی ہم، واسطی صاحب، بشیر بھائی اور شفیع محمد جماعت اسلامی کرچی کے دفتر صادق منزل آرام باغ پہنچ گئے۔ یہ دفتر ایک رہائشی فلیٹ میں تھا۔ جس کے ایک کمرے میں امیر جماعت اور دوسرے کمرے میں ان کے مختصر سے عملے کیلئے سلیقے سے میز کرسیاں لگا کر دفتر بنایا گیا تھا۔ چوہدری غلام محمد صاحب نے ہم سب سے بڑی دلآویز مسکراہٹ کے مصافحہ کیا اور سامنے بچھی کرسیوں پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے ہماری آمد کا سبب جاننے کیلئے پوچھا ’’واسطی صاحب فرمائیے، کیسے آنا ہوا؟ آپ ٹھیک تو ہیں نا‘‘۔ ہمارا خیال ہے کہ انہوں نے یہ سوال اس لئے کیا تھا کہ واسطی صاحب ضروری کام ہی سے امیر جماعت سے ملنے آتے ہوں گے۔ صاف ستھرے، سفید لباس میں سرخ و سفید اور خوب صورت چہرے والے واسطی صاحب بڑی خوب صورت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ یو کے اسلامی مشن کے سابق صدر تنظیم واسطی کے ماموں تھے۔ ریلوے کی ملازمت سے سبک دوشی کے بعد وہ اپنے بیٹے کے پاس جدہ چلے گئے تھے۔ جب ہم 1976ء میں اپنے والد کے ساتھ حج کو گئے تو ایک جمعہ کو حرم مکی میں رکن یمانی کے سامنے موذن کے چبوترے کے نیچے ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس زمانے میں تحریکی احباب کی حرم میں باہمی ملاقات کیلئے یہی جگہ مقرر تھی۔
واسطی صاحب نے امیر جماعت اسلامی چودھری غلام محمد سے ہم تینوں کا باری باری طالب علم کے طور پر تعارف کرایا اور ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ عارف صاحب نے آج صبح ان کی توجہ ایک اہم معاملے کی طرف توجہ دلائی ہے‘‘۔ انہوں نے پورے واقعہ کی تفصیل بھی بیان کردی۔ ہماری چودھری صاحب سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ چوہدری صاحب ہماری فکرمندی اور اس مسئلے کی سنگینی کے احساس سے بڑے متاثر ہوئے۔ انہوں فیصلہ کرنے میں ذرا دیر نہیں لگائی۔ جو ایک بیدار مغز قائد کی نشانی تھی۔ انہوں نے اس معاملے کی نزاکت کو محسوس کیا اور ہم تینوں کی طرف متوجہ ہوئے اور پیار بھری ڈانٹ پلائی ’’تم لوگ طالب علم ہو کر جماعت اسلامی میں کیا کر رہے ہو؟ تمہارے لئے کام کرنے کا پلیٹ فارم تو اسلامی جمعیت طلبہ ہے۔ اس میں جاؤ اور جماعت اسلامی کے کارکن کی حیثیت سے اپنا ناتا توڑ دو‘‘۔ واسطی صاحب نے جب اپنے بارے میں پوچھا تو امیر جماعت کی طرف سے ان کو واضح جواب ملا ’’آپ فوراً جماعت اسلامی سے استعفیٰ دیں‘‘۔ انہوں نے وہیں اپنا استعفی دے دیا۔ اس طرح جہاں میاں طفیل محمد کا بیان غلط ثابت ہونے کی ہماری تشویش ختم ہوئی۔ وہیں ہماری تینوں دوستوں کی جماعت اسلامی سے اسلامی جمعیت طلبہ میں سفر کی راہ ہم ہموار ہو گئی۔ چوہدری صاحب نے ہمیں جمیعت کے دفتر کا پتہ بھی سمجھایا۔ جو 23 اسٹریچن روڈ پر واقع تھا۔ اس سڑک کا نام اب سندھ کی ایک بڑی علمی شخصیت محمد دین وفائی کے نام پر ہے۔
چوہدری غلام محمد نے رخصت ہوتے ہوئے ہمیں ہدایت کی تھی کہ کبھی کبھی ان سے مل لیا کریں۔ ان کی اس بات میں اپنائیت اور شفقت پدری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ہمیں پہلی بار محسوس ہوا تھا کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں چوہدری صاحب کی شکل میں ایک بڑی شخصیت کی ہمیں سرپرستی حاصل ہوگئی ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اب ہمیں کچھ زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب ہمیں پردیس میں احساس تنہائی ختم ہوتا ہوا نظر آرہا تھا۔ بعد میں پیش آنے والے واقعات نے ہماری اس سوچ کو صیحیح ثابت کر دیا۔ امیر جماعت کی اس بات سے ہمیں ایک نیا حوصلہ ملا تھا۔ یکے بعد دیگرے واقعات بڑی ترتیب کے ساتھ ظہور پذیر ہو رہے تھے۔ جس کا اس وقت تو زیادہ احساس نہیں تھا۔ لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالی کی طرف سے ہمارے مستقبل کی منصوبہ بندی کے مراحل تھے۔ جن سے ہمیں گزارا جارہا تھا۔ ان مراحل کی تفصیل انشاء اللہ آگے آئے گی۔
ہمیں اب مہینہ اور دن تو یاد نہیں۔ لیکن سال اچھی طرح یاد ہے جب ہم تین دوست چوہدری غلام محمد کی پیار بھری ڈانٹ کے بعد جماعت اسلامی سے وقتی حالات کے مطابق کاغذی ناتا توڑ کر اسلامی جمیعت طلبہ میں شامل ہونے ان کے بتائے گئے پتے پر جمیعت کے دفتر گئے تھے۔ یہ 1964ء کا کوئی خوبصورت دن تھا۔ ہمارا تعارف اسلامی جمعیت طلبہ کی صورت میں ایک نئی برادری اور خونی رشتوں سے بھی زیادہ گہرے بندھن سے ہورہا تھا۔ جس کا اس وقت احساس کم تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس رشتے اور تعلق کی افادیت اور خوبصورتی میں بتدریج اضافہ ہی ہوتا رہا۔ اس وقت ہم اردو کالج میں انٹر آرٹس کے طالب علم تھے۔ تین چار بجے سہ پہر کا وقت تھا۔ کالج میں ہماری کلاسیں ختم ہو چکی تھیں۔ اب پروگرام کے مطابق ہمیں جمیعت کے دفتر جانا تھا۔ جس کا ہمیں بے چینی سے انتظار تھا۔ ہم کالج سے پیدل ہی چل پڑے۔ ڈاؤ میڈیکل کالج کے سامنے بابائے اردو روڈ اور آرام باغ سے گزرتے ہوئے ہی بے چینی کے ساتھ اردو کالج سے جمیعت کے دفتر 23 اسٹریچن روڈ پہنچ گئے۔ اس کے پتے اور راستے کی رہنمائی چوہدری صاحب نے پہلے ہی کر دی تھی۔ دفتر میں اس وقت چند طالب علم دکھائی دیئے جو یقینی طور پر جمیعت کے کارکن اور ذمہ دار تھے۔ ہم نے ان سے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا اور بتایا کہ ہم طالب علم ہیں اور جمیعت میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ تو وہ تو سراپا محبت بن کر ایسے ملے جیسے ہم ایک دوسروں پہلے سے جانتے ہیں اور جیسے بچھڑے عزیز عرصے بعد مل رہے ہوں۔ ہم حیران تھے کہ محبت کا یہ والہانہ پن کیوں تھا؟ اس کی سمجھ اس وقت تو نہیں تھی۔ تاہم بعد میں اس کا علم ہو گیا کہ کسی کو جمیعت میں شامل کرنے کیلئے کارکنوں کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔ کئی کئی دنوں اور مہینوں کی مسلسل جدوجہد اور محبت کے بعد ہی کوئی طالبعلم متاثر ہوتا تھا۔ لیکن یہاں تو ایک نہیں بلکہ تین تین طالب علم خود آکر جمیعت میں شامل ہونے کی پیشکش کر رہے تھے۔ جمیعت کے کارکنو ں کیلئے تو یہ بڑی خوشی کی اور اچھی خبر تھی۔
یہ کارکن ہمیں ناظم کراچی سے ملاقات کرانے دفتر کے اندر لے گئے۔ خوشی کے آثار ان کے چہروں سے ظاہر تھے۔ دفتر میں داخل ہوئے تو ناظم کی کرسی پر ایک دبلا پتلا اور نہایت خوبرو نوجوان بیٹھا ہوا دیکھا۔ جس کے چہرے پر چھوٹی داڑھی خوب جچ رہی تھی۔ کارکنوں نے ان سے ہمارا تعارف کرایا کہ ’’یہ تینوں اردو کالج کے طالب علم ہیں اور جمیعت میں شامل ہونا چاہتے ہیں‘‘۔ اب خوش ہونے کی باری ناظم صاحب کی تھی۔ انہوں نے اپنی کرسی سے اٹھ کر ہم تینوں کو باری باری گلے لگا لیا۔ اس معانقے کی گرم جوشی کا احساس آج تک ہے۔ یہ ناظم کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے سید منور حسن تھے۔ چوہدری غلام محمد کے بعد تحریک اسلامی کے یہ دوسرے رہنما تھے، جن سے ہماری ملاقات ہو رہی تھی۔ انہوں نے ہماری آمد اور جمیعت میں شامل ہونے پر خوشی کا اظہار کیا اور اردو کالج میں طلبہ سیاست پر تبادلہ خیال کیا۔ ہم نے انہیں بتایا کہ سینئر طلبہ کے بقول ایک دور میں اردو کالج جمیعت کا گڑھ تھا۔ لیکن اب تو وہاں اس کا وجود بھی نہیں۔ اس پر ان کا کہنا تھا کہ اب وہاں جمیعت کا یونٹ قائم ہوگا اور اگر آپ لوگوں نے محنت کی تو یہ کالج دوبارہ اس کا گڑھ بن جائے گا۔ یہ منور بھائی سے ہماری پہلی ملاقات کا مختصر احوال تھا۔
ہمارا جمیعت کے دفتر میں پہلا دن تھا۔ ہمارے دونوں کلاس فیلو چلے گئے تھے۔ لیکن ہمارا دل جانے کیوں دفتر ہی میں اٹک کر رہ گیا تھا۔ عصر کا وقت ہوگیا تو منور بھائی اور دوسرے کارکنوں کے ساتھ ہم نے بھی نماز قریبی مسجد میں ادا کی۔ نماز سے فارغ ہوئے تو مسجد کے دوسرے ساتھیوں کے انتظار میں کھڑے ہوگئے اور ایک دوسرے سے مصافحہ کے دوران ان کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ یہ دراصل جمیعت ہی کے وہ کارکن تھے جو دوسرے کالجز سے کلاسیں لینے کے بعد دفتر آرہے تھے اور اس مسجد میں نماز پڑھی تھی۔ ان کے ذمہ الگ الگ کام تھے اور وہ روزانہ اسی طرح ان کاموں کی پابندی کے ساتھ انجام دہی کرتے تھے۔ تعارف کے دوران ہماری ملاقات آصف صدیقی سے ہوئی۔ جن کی سنجیدہ اور پروقار شخصیت نے پہلے ہی دن ہمیں بڑا متاثر کیا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ آصف بھائی کراچی جمیعت کے معتمد یعنی سیکریٹری جنرل ہیں اور وہ منور بھائی سے پہلے کراچی جمیعت کے ناظم تھے اور وہی منور بھائی کو این ایس ایف سے جمیعت میں لائے تھے۔ ان کے ہاتھ میں چمڑے کا ایک خوبصورت بیگ تھا۔ جس کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ان کا چلتا پھرتا دفتر ہے۔ جس میں کراچی جمیعت کے بارے میں ساری معلومات اور کام کی منصوبہ بندی اور مختلف کارکنوں کو دیئے گئے کاموں کی پوری فہرست ہے۔ دفتر آئے تو آصف بھائی نے ہمارا پورا انٹر ویو لیا۔ بڑے پیار سے ایک ایک بات پوچھی۔ اس طرح وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ ہم سے جمیعت کا کون سا کام بہتر طور پر لیا جا سکتا ہے۔ سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے شاید یہ ان کی ذمہ داری بھی تھی۔ اب ہماری توجہ کا مرکز جمعیت کراچی کا دفتر تھا۔ یہ دفتربرنس روڈ کے قریب اس وقت کے این ای ڈی انجینئرنگ کالج کے سامنے دو کمروں پر مشتمل تھا۔ اس کے باہر ایک کھلا صحن تھا۔ یہی دفتر بعد کے دنوں میں کراچی میں اپنی رہائش گاہ کے علاوہ ہمارا دوسرا ٹھکانا بنا۔ اس دفتر میں ہم نے 1968ء میں جمیعت سے فراغت تک کا کافی وقت گزارا۔ یہ ہمارے لئے محض طلبہ کی ایک تنظیم کا دو کمروں کا دفتر ہی نہیں تھا۔ بلکہ اس کی حیثیت اسکول، کالج، مدرسہ، دارالعلوم یا یونیورسٹی کی طرح ایک درسگاہ کی بھی تھی۔ جہاں طلبہ کی اسلامی تعلیمات اور اصولوں کے مطابق کردار سازی ہو رہی تھی۔ اس عملی تربیت سے ہزاروں طلبہ کو فائدہ پہنچا۔ اس وقت جمیعت کی یہی شہرت تھی۔ دینی رجحان اور سید مودودیؒ کی فکر رکھنے والے والدین اپنے بچوں کو دفتر میں اسی غرض کیلئے لاتے اور جمیعت سے متعارف کراتے۔ ہم نے یہ مناظر خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ ہم اپنے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس درسگاہ کی عملی تربیت نے ہی در اصل ہمیں دین کا صیحیح فہم دیا۔ جس کے گہرے اثرات ہماری آئندہ کی زندگی پر پڑے۔ اس عملی درسگاہ تک پہنچنے میں ماضی کے بہت سے واقعات کا تعلق ہے۔ جن سے کبھی ہم خوش ہوئے اور کبھی ہمیں شدید مایوسی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان واقعات اور حادثات کا ذکر ہم مختلف مقامات پر کرتے آئے ہیں اور ممکن ہے کچھ کا بیان بعد میں بھی ہو۔ ہماری سمجھ اور خیال میں ان واقعات کے ذریعہ اللہ تعالی کو درحقیقت ہمیں اس جگہ پہنچانا مقصود تھا۔ جہاں سے تربیت پا کر ہمیں ابلاغ عامہ کے پیشے سے منسلک ہونا تھا۔
کراچی بھر سے ہر اتوار کی صبح 8 بجے جمعیت کے کارکن اس دفتر میں جمع ہوتے۔ جس کو ’’اجتماع عام‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوتا۔ پھر مربّی قرآن کا درس دیتے۔ خبروں پر تبصرہ کیا جاتا اور مختلف شعبوں کے اجلاس ہوتے۔ تقریری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کیلئے قائم کمیٹی کا بھی اجلاس ہوتا۔ اخبارات کیلئے خبریں تیار کرنے کی تربیت ہوتی اور جمعیت کے پیغام کو عام کرنے کیلئے مختلف تجاویز پر غور ہوتا۔ جہاں تک ہمیں یاد ہے خبروں پر تبصرے اکثر مسلم سجاد اور سید محمود احمد مدنی پیش کرتے۔ جبکہ درس قرآن بھی جمعیت سے وابستہ ذمہ داران اور کچھ ممتاز علمائے کرام دیتے۔ جن میں محبوب علی شیخ، ان کے بھائی مقصود علی اور کبھی کبھی کوئی عالم دین یا کالج اور یونیورسٹی کے پروفیسر درس قرآن کیلئے مدعو کیے جاتے۔ یہ وہ تربیتی نظام تھا جو ہر ہفتے جاری رہتا اور اس کے نتیجے میں ہر شعبے میں باصلاحیت طلبا نمایاں ہوکر سامنے آتے اور جمعیت کے مختلف مناصب پر تعینات کیے جاتے۔ اسلامی لٹریچر کے بامقصد مطالعے کیلئے اسٹڈی سرکلز اور تربیت گاہوں کا الگ سے ایک نظام تھا۔ جو کراچی اور اس کے علاقائی اور تعلیمی اداروں کی سطح پر الگ سے جاری رہتا۔ اسلامی لٹریچر صرف سید مودودیؒ کی تفسیر اور کتب تک محدود نہیں تھا۔ بلکہ اس میں اس وقت کے بڑے بڑے جیّد علما کی کتب بھی شامل تھیں۔ ان بڑے اسکالرز میں شبلی نعمانی، مولانا منظور نعمانی، عبدالماجد دریا آبادی، سید ابوالحسن علی ندوی، سید سلیمان ندوی، اعلیٰ حضرت احمد رضا بریلوی کے نام یاد رہ گئے ہیں۔ اس لٹریچر کے کیلئے دفتر کے ایک حصے کو لائبریری بنایا گیا تھا۔ جس سے طلبہ استفادہ کرتے رہتے تھے۔
یہ تھا وہ نصاب تعلیم جو ہمیں 23 اسٹریچن روڈ کی درسگاہ میں پڑھایا جاتا۔ چونکہ ہمارا رجحان لکھنے لکھانے کی طرف تھا۔ اس لئے آصف صدیقی سے بات چیت کے دوران ہی انہیں اس سے آگاہ کردیا تھا۔ اس لیے ہم نے تھوڑے عرصہ بعد اپنے آپ کو شعبہ نشر و اشاعت کیلئے پیش کردیا۔ ظہور نیازی بھی شعبہ نشر و اشاعت کے مرکزی سیکریٹری تھے۔ بعد ازاں 1967ء میں ہمیں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں ان کا کلاس فیلو ہونے کا اعزاز بھی رہا۔ وہ جمیعت کے نہائت سرگرم کارکن تھے۔ ان کا رجحان اور کام بھی لکھنے لکھانے سے تھا۔ اس لئے ہمیں ان کے ساتھ تعاون کی ہدایت کی گئی۔ اس طرح ہمیں ان کے ساتھ کام کرنے کے بڑے مواقع ملے۔ کراچی جمعیت کے ناظم نشر و اشاعت مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے نذیر نام کے ایک رکن تھے۔ وہ تعلیم مکمل ہونے پر واپس ڈھاکا چلے گئے تھے۔ ان سے سولہ سال بعد ڈھاکا میں اس وقت ملاقات ہوئی جب 1984ء میں ہمیں اسلامی وزرائے خارجہ کانفرنس کی کوریج کیلئے وہاں جانے کا موقع ملا تھا۔ نذیر بھائی کے ڈھاکا چلے جانے کے بعد ان کی جگہ کراچی جمیعت میں نشر و اشاعت کی ذمہ داری ہمیں سونپی گئی۔
جمیعت کا کام اب بتدریج پاکستان کے کونے کونے کے تعلیمی اداروں میں پھیل رہا تھا۔ اس کے یونٹ جگہ جگہ قائم ہو رہے تھے۔ 1966ء میں سید منور حسن ملتان کے قاسم باغ میں جمیعت کے سالانہ اجتماع میں ناظم اعلی منتخب ہو گئے تھے۔ جمیعت کا مرکزی دفتر کراچی ہی میں تھا۔ انہوں نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ جمیعت کا کوئی سرکاری نیوز لیٹر ہو۔ جس میں پورے ملک کی جمیعت کی سرگرمیوں کی خبریں، ناظم اعلی کی ہدایات، صوبوں کے ناظمین، مقامی ناظمین کے پیغامات اور آئندہ کے پروگراموں کی اطلاعات بھی ہوں۔ منور بھائی کے مشورے سے اس نیوز لیٹر کا نام ہمقدم تجویز ہوا اور اس کا آغاز ظہور نیازی اور ہم نے کیا۔ ظہور ہم سے سینئر اور باقاعدہ رکن تھے۔ ان کی ذمہ داریاں زیادہ تھیں۔ ہم تو ان کے معاون کے طور ان سے سیکھ رہے تھے۔ جہاں تک ہمیں یاد ہے ہمقدم چار صفحات پر مشتمل دو ورقہ نیوز لیٹر تھا۔ جس کو اسی سائز کے اسٹینل پر اس کے مخصوص قلم سے بڑی احتیاط کے ساتھ لکھا جاتا تھا۔ لکھائی کا یہ کام بھی ظہور اور ہم تقسیم کر کے خود ہی کرتے تھے اور اسٹینل مشین پر اسے پرنٹ کرتے تھے۔ جمعیت سے ہمارا تعلق اور دلچسپی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ ظہور نیازی اور ہم دونوں زیادہ مصروفیات کے دنوں میں دفتر میں دن کے علاوہ رات کو کام کرتے اور اکثر دفتر ہی میں سو بھی جاتے اور پھر اگلے دن اٹھ کر دوبارہ کام شروع کردیتے۔ اس طرح کام مقررہ وقت پر مکمل کر لیتے۔ یہ سلسلہ کافی عرصے تک جاری رہا۔
سید منور حسن بھائی، جو اپنے کارکنوں اور متاثرین کیلئے محبت ہی محبت ہوں۔ سب کا بھائیوں سے بڑھ کر خیال رکھتے ہوں۔ اس قافلے میں جو بھی شامل ہو۔ اس کا والہانہ استقبال کرتے ہوں اور ہر ایک کے دکھ درد اور خوشی میں شریک ہوتے ہوں۔ ایسے ناظم کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے تو کون نا شکرا ہوگا۔ جس کو ان کے ساتھ دن رات کام کرنے میں مزا نہ آئے۔ ہم اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں کہ ہمیں سید منور حسن جیسا ناظم اور مربّی ملا۔ جو کچھ عرصہ پہلے جمیعت کی مخالف طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا مقامی لیڈر تھا اور جمیعت کے نظریات اور اس کے لیڈروں کو چیلنج کرتا تھا۔ وہ این ایس ایف کے سوشلسٹ نظریات کا نہ صرف حامی بلکہ طلبہ کو سوشلزم اختیار کرنے کی دعوت بھی دیتا تھا۔ لیکن وہ سید مودودیؒ کی ایک دو کتابیں پڑھ کر ان کی محبت کا اسیر بن گیا تھا اور اپنے آپ کو جمیعت کے سپرد کردیا تھا۔ اپنی سحر انگیز شخصیت اور قائدانہ اور بہترین تقریری صلاحیت والے اس خوبصورت نوجوان کو جمیعت نے ہاتھوں ہاتھ لیا تھا اور تربیت کے مراحل سے گزار کر ان کو کراچی کا ناظم منتخب کر لیا تھا۔ اس پس منظر میں آپ تصور کریں کہ سید منور حسن پر تحریک اسلامی کا کتنا گہرا رنگ چڑا ہوگا؟ وہ کیسے داعی ہوں گے؟ اور ان کے اندر اپنے ساتھیوں کیلئے محبت اور اخوت کے کیسے جذبات ہوں گے؟ ہمیں ایسے متحرک محب ناظم کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ یہ ہماری زندگی کے بہترین دن تھے۔ سید منور حسن اس دور کے طلبہ لیڈروں میں اپنی شعلہ بیانی اور سیاسی سوجھ بوجھ کی وجہ سے سر فہرست تھے۔ وہ طلبہ سیاست کے رموز و اسرار سے بخوبی واقف تھے۔ دوسرے طلبہ رہنماؤں میں معراج محمد خان، ڈاکٹر رشید الحسن، امیر حیدر کاظمی، رانا اظہر علی خان، ضیا عباس، شہنشاہ حسین، علی مختار رضوی اور محمود خان مودی سے بھی ان کے دوستانہ تعلقات تھے۔ سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود طلبہ لیڈروں اور کارکنوں میں باہمی احترام کا رشتہ تھا۔ دن بھر کالجوں اور یونیورسٹی میں ایک دوسرے کے خلاف حالات کیسے بھی ہوں۔ لیکن شام کو صدر میں کیفے کوالٹی اور میٹرو پول ہوٹل کے سامنے کیفے ایم پیز میں اکٹھے چائے پی رہے ہوتے تھے۔
ان کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھنے والی شخصیت مولانا عبدالغفار کی تھی۔ جو پولیس کے خفیہ ادارے میں ڈپٹی ڈائریکٹر (ایس پی) تھے۔ سیاسی اور طلبہ جماعتوں کے رہنما، سیاسی یا نظریاتی اختلاف رکھنے کے باوجود ان کا دل سے احترام کرتے تھے اور ان کی بات توجہ سے سنتے تھے۔ وہ سب کے ہمدرد تھے۔ ان کی ذات سے کبھی بھی کسی لیڈر کو حکومت کی طرف سے بلاوجہ کوئی گزند نہیں پہنچتا تھا۔ پاکستان اور اسلام سے ان کی محبت مثالی تھی۔ وہ ان دونوں کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتے تھے اور طالب علم لیڈروں کو بھی یہی تلقین کرتے رہتے تھے کہ تعلیمی اداروں میں سیاست ضرور کرو۔ چاہو کوئی بھی نظریہ اپناؤ۔ تعلیم مکمل کرو۔ ملک میں تخریب کاری اور توڑ پھوڑ مت کرو۔ تعلیمی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہ ڈالو اور تشدد کا راستہ مت اختیار کرو۔ لیکن پاکستان اور اسلام کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کی جائے گی۔ وہ ان لیڈروں کو چائے بھی پلاتے اور نصیحتیں بھی کرتے۔ اب یہ ان لیڈروں پر منحصر ہوتا کہ وہ اپنی اپنی جماعتوں کی پالیسی کے مطابق ان کی ان میں سے کتنی نصیحتوں پر عمل کرتے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭٭