میگزین رپورٹ:
عود کو اگر دنیائے خوشبویات کا تاجدارکہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ عود کی لکڑی زمانہ قدیم ہی سے انتہائی بیش قیمت رہی ہے۔ اس وقت عالمی منڈی میں عود کی لکڑی کے ریٹ تیس ہزار ڈالر فی کلوگرام تک پہنچ چکے ہیں۔ پاکیزگی و لطافت کا احساس جگاتی ہوئی اس خوشبو کو غلاف کعبہ کی زینت بننے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ حرم مکی میں عود کی دھونی کا اہتمام بھی خاص اوقات میں کیا جاتا ہے۔ یہ دھونی بخور میں ایک مخصوص لکڑی میں موجود ریزش کے سلگنے سے اْٹھتی ہے۔ عود کو’’اگر‘‘ (Agar) بھی کہا جاتا ہے۔ بر صغیر اور مشرق بعید میں بھی ماحول کو مہکانے کیلئے ’’اگر بتی‘‘ زمانہ قدیم سے استعمال ہورہی ہے۔ اس کو اگر بتی اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بانس کی باریک تیلیوں پر عود کی لکڑی کے برادے کو چپکا کر اسے سلگایا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عود مہنگے سے مہنگا ہوتا گیا اور اس کی جگہ اگر بتی کی تیلی پر دوسرے سستے خوشبودار مسالے بھی استعمال کئے جانے لگے۔
عود کی کئی اقسام ہوتی ہیں جن میں سیاہ، زرد، زمردی اور سفید شامل ہیں۔ عمدہ قسم کا عود پانی میں ڈوب جاتا ہے، اس لئے اس کو عود غرقی بھی کہا جاتا ہے۔ عود کی لکڑی ایک خاص قسم کے سدا بہار درخت ایکولیریا (Aquilaria) سے حاصل کی جاتی ہے جو صرف جنوب مشرقی ایشیا کے چند مخصوص ممالک میں پایا جاتا ہے۔ اس کی لکڑی میں ایک خاص قسم کا گوند پایا جاتا ہے جس کے سلگنے سے خوشبو پیدا ہوتی ہے۔
ایکولیریا کے ہر درخت میں عود نہیں ہوتا، لیکن جب یہ درخت ایک خاص قسم کی پھپھوندی (Mould) سے متاثر ہوتا ہے تو اس میں عود پیدا ہوجاتا ہے۔ عام عود کے درخت میں کسی قسم کی خوشبو نہیں ہوتی لیکن اس پھپھوند سے متاثر ہونے کے بعد اس میں سرخی مائل گوند پیدا ہوجاتا ہے جسے عود یا ’اگر‘ کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اور برادہ اگردانوں یا بخور دانوں میں سلگا کر دھونی دی جاتی ہے۔ عرب باشندے عود کی دھونی کے انتہائی شوقین ہیں اور عود کی دھونی لینا ان کی تہذیب و روایات میں شامل ہے۔ قدیم تاریخ کے مطابق عود کے درختوں کی پیداوار ویتنام سے شروع ہوئی تھی۔ عود کی لکڑی سے تیل نکال کر اس سے عطر اور پرفیومز تیار کئے جاتے ہیں جو دنیا کے سب سے مہنگے پرفیوم مانے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ ’اگر‘ کی جس لکڑی سے تیار کئے جاتے ہیں وہ سونے سے بھی زیادہ مہنگی ہے۔ قدیم آیور ویدک اور چینی طریقہ علاج میں اگر کے تیل کو بطور دوا استعمال کیا جاتا تھا جس کے بیش بہا طبی فوائد بیان کئے جاتے ہیں۔ یہ دماغ اور اعصاب کو سکون بخشتا ہے، خواب آور ہے۔ ہڈی اور جوڑوں کے درد کے خاتمے میں مفید ہے۔ مختلف اقسام کی الرجی میں نافع ہے۔ ہاضمے کی خرابی دور کرتا ہے۔ مختلف اقسام کے کینسر اور جِلدی امراض کی روک تھام کرتا ہے۔جو لوگ مراقبہ یا اس قسم کی ذہنی مشقیں کرتے ہیں یا پاکیزگی نفس کے خواہش مند ہیں، انھیں بخورات عود و عنبر بہت فائدہ دیتے ہیں۔ عود کے پانچ ملی لیٹر آئل کی قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں چار سو ڈالر ہے۔
دنیا میں عود کا سب سے زیادہ استعمال عرب ممالک اور مشرق وسطی میں کیا جاتا ہے۔ عرب لوگ نہ صرف عود کا عطر استعمال کرتے ہیں بلکہ گاہے بگاہے اس کی دھونی بھی لیتے رہتے ہیں، جس کے لئے ایک مخصوص ساخت کے بخور دان استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ مختلف علاقوں کے عود کی خوشبو بھی مختلف ہوتی ہے۔ مغربی ممالک کے پرفیوم ساز ادارے تو کافی عرصہ سے عود کی خوشبو پر مشتمل پرفیومز اور کلونز تیار کررہے ہیں۔ لیکن اب کچھ عرصہ سے چین کے سرمایہ کاروں نے بھی عود کی مصنوعات تیار کرنا شروع کردی ہیں، جس نے عود کی قیمت کو آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ دن بدن خالص عود کی دستیابی مشکل ترین ہوتی جارہی ہے۔
سعودی عرب کے کچھ تاجر ایسے بھی ہیں جن کا آبا و اجداد سے خاندانی پیشہ عود کی خرید و فروخت ہے۔ یہ لوگ عود کی پہچان کے اس قدر ماہر ہیں کہ محض عودی لکڑی کی آواز سن کر یا اس کو دانتوں تلے دبا کر ذائقہ محسوس کر کے عود کی کوالٹی بتا سکتے ہیں۔ بلکہ اس کا کس ملک یا علاقے سے تعلق ہے؟ یہ بھی بتادیتے ہیں۔
عود کی لکڑی جس درخت سے حاصل کی جاتی ہے اس کا مشہور عام نام ایکیولیریا ہے۔ دن بدن ’اگر‘ کی بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے اس درخت کی کٹائی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے یہ درخت معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ جنوبی ایشیا ے کے ممالک نے اس درخت کی کٹائی پر پابندی عائد کررکھی ہے۔ عود برآمد کرنے والے ممالک انڈونیشیا، ملائشیا اور میانمار نے اس کی برآمد کا ایک کوٹا مقرر کررکھا ہے۔ جبکہ اس کی کھپت اور طلب میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ عود کے بیش و بہا ہونے کی وجہ اس کی کمیابی ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ایکیولیریا کے ہر درخت میں عود موجود نہیں ہوتا بلکہ بمشکل دو فیصد درختوں سے عود دستیاب ہوتا ہے۔ عود کی لکڑی کے جنگلات میں ہر دس میں سے ایک درخت میں یہ نایاب جوہر ملتا ہے۔
عود کے درخت کی لکڑی میں بیرونی طور پر ایسی کوئی شناخت نہیں ہوتی جس سے پتا چل سکے کہ اس میں عود موجود ہوگا۔ اگر کچھ معمولی سی علامت مل بھی جائے تو بھی اس درخت کو کاٹے بغیر یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ اس میں عود کی کتنی مقدار شامل ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ایکولیریا کے درخت بنا سوچے سمجھے کاٹے جارہے ہیں۔ اس درخت کو ’’ کنونشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ ان ڈینجرڈ اسپیشز آف وائلڈ فوانا اینڈ فلورا’’ (CITES) کی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے، جس کے تحت کچھ ممالک میں اس درخت کی کٹائی پر مکمل پابندی ہے۔ جبکہ کچھ ممالک کو اس کو کاٹنے کے لئے CITES کا سرٹیفکیٹ پیش کرنا پڑتا ہے۔
کچھ عشروں قبل تک بھارتی ریاست آسام میں عود کے کافی جنگلات تھے۔ لیکن اندھا دھند کٹائی نے آسام میں اس درخت کو معدومیت کے خطرے سے دوچار کردیا اور اب بھارت میں اس درخت کی کٹائی پر مکمل پابندی عائد ہے۔ جو ملک کبھی عود کا برآمد کنندہ تھا وہ اب اپنی ضروریات کے لئے خود عود درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ کئی ممالک میں بڑے پیمانے پر اس درخت کی شجر کاری کی جارہی ہے۔ لیکن بڑھتی ہوئی طلب پر اس کے کوئی اثرات نظر نہیں آتے۔ آسام کے بغل میں ہی ایک اور ریاست ہے جس کا نام ’اگرتلہ‘ ہے۔ وہاں عود کی اتنی پیداوار ہے کہ پوری ریاست کا نام ہی اگرتلہ پڑ گیا۔ ریاست آسام میں کریم گنج، سلہٹ اور سلچار وغیرہ عود کیلئے بہترین علاقے ہے جہاں عود کے ساتھ ساتھ پہاڑوں پر چائے کی پتیاں بھی کاشت کی جاتی ہیں۔ اس وقت تمام مشہور و معروف پرفیوم ساز کمپنیاں اپنی بیشتر مصنوعات میں عود پر انحصار کرتی ہیں۔ ایک مارکیٹ ریسرچ کمپنی NPD گروپ کے مطابق خوشبویات کی بیش قدر مارکیٹ میں عود سے تیار عطریات کی فروخت میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ یہ مارکیٹ عالمی سطح پر تین ارب ڈالر مالیت کا کاروبار کرتی ہے۔ 2013ء کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ عود سے بنی خوشبویات کی فروخت میں 68 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ فرانس کی ایک مشہور پرفیوم کمپنی ’’ہنری جیکس‘‘ گزشتہ 30 سال سے عود پر مبنی خوشبویات تیار کررہی ہے اور یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب مغرب میں عود کو اتنی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ کمپنی کے بانی ہنری جیکس کی صاحبزادی اور ماہر عطریات این لیزکریمونا، کا یہ کہنا ہے کہ اچانک ہر ایک کو عود کی خوبیوں کا پتہ چل گیا اور وہ اس کے سحر میں مبتلا ہوگیا ہے۔ ٹام فورڈ نامی ادارے کے عود ووڈ پرفیوم کی قیمت 230 ڈالر یعنی تقریباً 30 ہزار پاکستانی روپے ہے۔
کہا جاتا ہے کہ زمانہ قدیم میں سب سے پہلے چینی تاجر عود لے کر بذریعہ شاہراہ ریشم مشرق وسطی پہنچے تھے۔ آج بھی چینی تاجر عود کی تجارت پر چھائے ہوے ہیں۔ بلکہ گزشتہ پندرہ سال سے تو چینی عود کی تجارت میں انتہائی سرگرم ہیں اور ان کی جانب سے عود کی بڑھتی طلب نے ہی عود کی قیمت کو آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ چینی لوگ اس کو ادویات میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس وقت عود کی خریداری کا بڑا مرکز بنکاک کی عرب اسٹریٹ بھی ہے جہاں کمبوڈیا، ویتنام، سری لنکا اور برما سے عود منگوائے جاتے ہیں۔ یہ سارا جنگلی عود ’بلیک مارکیٹ عود‘ کہلاتا ہے۔ کیونکہ یہ ان ممالک سے لایا جاتا ہے جہاں عود کے درختوں کی کٹائی پر مکمل پابندی عائد ہے۔ جبکہ تھائی لینڈ اور جنوب مشرقی ایشیا کے بعض ممالک میں عود کی شجرکاری زور شور سے جاری ہے۔ ان درختوں کے تنوں اور شاخوں میں سوراخ کرکے ایک خاص کیمیکل داخل کیا جاتا ہے تاکہ یہ درخت اپنا ’گندہ بیروزہ‘ تیار کرسکے۔ اس گندے بیروزے سے ہی عود حاصل کیا جاتا ہے۔ عام طور پر عود کے درخت کو دس سال تک بڑھنے دیا جاتا ہے، جس کے بعد وہ عود حاصل کرنے کے قابل بنتا ہے۔ لیکن بہترین قسم کا عود حاصل کرنے کے لئے ان درختوں کو سو سال تک بڑھنے دیا جاتا ہے، جس کے بعد ہی عمدہ ترین عود کا حصول ممکن ہے۔
’’اگر‘‘ کی لکڑیوں کے معیار کے لحاظ سے کئی درجے ہیں۔ ماہرین کے مطابق سب سے نایاب قسم کی عود کی لکڑی کو کینام (Kynam) کہتے ہیں۔ یہ ٹیٹانیم، یورینیم اور پلاٹینیم جیسی دھاتوں بلکہ ہیرے سے بھی زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔ اس کی خوشبو ’’اگر‘‘ کی تمام قسموں میں سب سے زیادہ مسحور کن بتائی جاتی ہے۔ ایک تاجر نے اپنے کسی خریدار کے لئے اب تک سب سے زیادہ مقدار میں جو کینام حاصل کیا، وہ 16کلوگرام تھی۔ ’اگر‘ کی یہ لکڑی 600 سال پرانے درخت سے حاصل کی گئی تھی جس کیلئے دو کروڑ ڈالر ادا کیے گئے تھے۔