ناظم آباد کا علاقہ ہمارے لئے سعد ثابت ہوا

‎چودھواُں حصہ

‎اب ہمارے حالات دن بہ دن بہتری کی طرف جا رہے تھے۔ بے یقینی کی کیفیت ختم ہوگئی تھی۔ ہم تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ چکے تھے۔ بی اے کے بعد ایم اے میں داخلہ لے چکے تھے۔ اچھی بات یہ تھی کہ صحافت کی نظری تعلیم کے ساتھ ایک صحافی کے طور پر عملی صحافت کا موقع بھی مل گیا تھا۔ پاکستان کے سب سے بڑے اخبار میں باقاعدہ ملازمت مل گئی تھی۔ ہمیں اور کیا چاہیے تھا؟ ہم تنہا کراچی آئے تھے، ہمارے دوست کے خاندان کے سِوا اِس بھرے شہر میں اور کوئی دوست، رشتے دار اور جان پہچان والا نہیں تھا۔ اسلامی جمعیت طلبا میں شمولیت کے نتیجے میں مخلص اور اچھے لوگوں سے رابطہ ہوگیا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہم پر بڑا مہربان ہے اس لئے ہر وقت اُس کا شکر ادا کرتے رہتے تھے۔یہ اصل میں ایک نیا خاندان بن رہا تھا۔
‎ان بہتر حالات میں ہم نے بی ہائنڈ جیکب لائنز سے کسی اچھی جگہ رہائش اختیار کرنے کی کوشش شروع کردی۔ جمعیت کے ساتھیوں سے ذکر کیا اور جلد ہی ہمیں حیدرآباد کالونی میں پہلے سے بہتر رہائش مل گئی۔اس جگہ حیدرآباد، دکن (بھارت) سے آنے والے مہاجر زیادہ تھے، یہ پڑھے لکھوں کی بستی کے طور پر مشہور تھی۔یہ جگہ کراچی کی سنٹرل جیل کے بلکل سامنے تھی۔ کراچی کا ایک مشہور اسکول ”بہادر یار جنگ“ بھی اسی جگہ تھا۔ یہاں کے زیادہ تر رہنے والے ملازمت پیشہ تھے۔ اس بستی میں ایک لائبریری بھی تھی جس سے پتا چلتا تھا کہ اس جگہ کے رہنے والے کتب بینی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بہادریارجنگ اسکول کی ایک وجۂ شہرت اُس کے دو اساتذہ، معروف ڈراما نگار خواجہ معین الدین اور ہیڈ ماسٹر نثار حسین تھے۔ پی ٹی وی سے ٹیلی کاسٹ ہونے والے دو مقبول ترین ڈرامے ”مرزاغالب بندر روڈ پر“ اور ”تعلیم بالغاں“ خواجہ معین الدین ہی کے قلم کا شاہ کار ہیں۔ نثار حسین جمعیت کراچی کے سابق ناظم اور جماعت اسلامی کراچی کے سیکریٹری نصراللہ شجیع شہید کے والد تھے جو چند سال قبل عثمان پبلک اسکول کے بچوں کے ساتھ شمالی علاقوں کے تفریحی دورے پر تھے کہ اپنے ایک شاگرد کو ڈوبنے سے بچاتے ہوئے دریائے سوات کی تند و تیز لہروں کی نذر ہو کر شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئے۔ حیدر آباد کالونی ہی میں پہلی بار حافظ نصیر احمد سلیمی بھی ہمارے روم میٹ بنے جو، اب روزنامہ پاکستان، لاہور کے خصوصی نامہ نگار اور کراچی کے نائب مدیر ہیں، وہ جمعیت میں شامل ہو چکے تھے۔ نصیر حافظ قرآن تھے۔ اُن کا خاندان حفظِ قرآن اور تجوید و قرات میں پورے ہندوستان میں مشہور تھا۔ اُن کے نانا قاری فتح محمد پانی پتی کا شمار قرات اور تجوید کے آئمہ میں ہوتا ہے۔ نصیر سلیمی کچھ عرصہ گُرومندر کے قریب ایک مسجد میں تراویح بھی پڑھاتے رہے۔ اُسی زمانے میں ممتاز احمد اور اُن کے کزن سعید قاضی بھی ہمارے ساتھ آ شامل ہوئے۔ممتاز احمد بعد میں پاکستان کے ایک بڑے اسکالر اور مصنف بنے اور امریکہ کی مشہور شکاگو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔اور امریکہ کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھایاوہ اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ڈائریکٹر جنرل اور علامہ اقبال چیئر کے سربراہ بھی رہے افسوس ان کا چند سال پہلے انتقال ہوگیا۔سعید قاضی ان کے کشن تھے۔ان کا بھی ایک سال پہلے امریکہ میں انتقال ہوا۔اور ہمیں یاد ہے، رمضان کا مہینہ تھا اور سحری میں پہلی بار پھینی اور کھجلہ وہیں کھائے تھے جو نصیر سلیمی لائے تھے۔
‎ممتاز احمد ہمارے ساتھیوں میں سب کے محبوب تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن میں ہر ایک کا محبوب بننے کی ساری علامتوں کا وافر ذخیرہ مہیا کر رکھا تھا۔ کسی کو ناراض کرنا جانتے ہی نہیں تھے۔ وہ پیدائشی طور پر ذہین تھے انٹر کر کے کراچی آئے تھے اور اسلامی اکیڈمی میں ریسرچ فیلو کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ اِس کے ساتھ ساتھ ماہ نامہ ”نقوش“ میں بھی لکھ رہے تھے اور تین ہٹی کے ایک ہوٹل میں سلیم احمد کی ادبی محفلوں میں بھی شریک ہوتے تھے۔ ممتاز نے پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے کراچی یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان دیا اور پہلی پوزیشن لی۔ یہ ریکارڈ آج تک قائم ہے۔ پھر ایم اے پولیٹیکل سائنس کیا۔ نیپا میں انسٹرکٹر/ لیکچرار مقرر ہوئے۔ اسکالرشپ پر بیروت کی مشہور امریکی یونیورسٹی سے ماسٹرز اور یونیورسٹی آف شکاگو سے پی ایچ ڈی کیا۔ امریکا ہی میں رچمنڈ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہوئے۔کچھ عرصے کے بعد ہم سب نے اپنی رہائش کے لئے پی آئی بی کالونی کا انتخاب کیا۔ اُس زمانے میں یہ کراچی کے پڑھے لکھے لوگوں کا علاقہ تھا۔ یہاں ملک کے نام ور دانش ور، اساتذہ کرام، صحافی، شاعر، ادیب، ڈراما نگار، سرکاری ملازم اور اعلیٰ بیوروکریٹ رہتے تھے۔ ان علمی شخصیات کی صحبت اور فیض کی بدولت ہمارے شعور اور علمی وژن میں کافی اضافہ ہوا۔ یہاں قیام کے دور میں ہمیں دو گھرانوں سے بڑی محبت ملی۔ یہ دونوں خاندان تحریک اسلامی کے گھرانے تھے۔ ہماری مراد پی آئی بی کالونی کے آخری کنارے پر خرم جاہ مراد، مسلم سجاد اور شیخ محبوب علی، محمود علی اور پروفیسر مقصود علی کے گھر ہیں۔ ہمارا معمول ہوتا کہ یونیورسٹی اور دفتر سے جب بھی وقت ملتا، اُن میں سے کسی بھی ایک گھر میں حاضرہو جاتے اور جمعیت کے بارے میں باتیں کرتے رہتے۔ خرم بھائی کا گھر تو جمعیت کا دوسرا دفتر تھا۔ ارکان اور شوریٰ کے اجلاس بھی اکثر وہیں ہوتے۔ اصل میں خرم بھائی کی والدہ، وہ قوت تھیں جنہوں نے اپنے گھر کو جمعیت کے ساتھیوں کا دوسرا گھر بنائرکھا تھا۔ کوئی کارکن، کسی بھی وقت آتا، اُس کی کھانے اور چائے سے تواضع کی جاتی۔ یہی حال محبوب علی شیخ کے گھرانے کا تھا۔ جب جی چاہا، پہنچ گئے اور تھوڑی سی گپ شپ کے بعد چائے یا شربت آجاتا۔ اِس مستقل مہمان نوازی سے استفادہ کرنے والے ہم اکیلے نہ تھے بلکہ اس کالونی میں رہنے والے سبھی کارکن تھے۔ جماعت اسلامی کے مقامی رہنما حکیم اقبال حُسین اور اردو کالج میں ہمارے استاد پروفیسر عبدالوحید نظمی بھی وہیں رہتے تھے۔


‎پیر الٰہی بخش کالونی سے ہماری اگلی منزل ناظم آباد کا علاقہ بنا۔ پہلے ہم ناظم آباد، بڑا میدان کے پاس ایک مکان میں منتقل ہوئے پھر کچھ عرصے بعد ناظم آباد نمبر ایک میں عزیزیہ مسجد کے قریب ایک مکان لے لیا جہاں ہمارا قیام کافی عرصے رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے گھر کے قریب ہی اسلامی ریسرچ اکیڈمی کا دفتر تھا۔ ممتازاحمد، اُن کے کزن سعید قاضی اور محبوب بلوچ اس میں کام کرتے تھے۔ ہم بھی فارغ اوقات میں زیادہ تر وقت وہیں اخبارات اور کتب کے مطالعے میں صرف کرتے تھے۔ یہی زمانہ ہے جب ہمیں بھرپور تعلیمی ماحول میسّر آیا۔ صبح سے دوپہر دوبجے تک یونیورسٹی جانا، تین چار بجے واپسی اور پھر گھر پر پڑھائی، روز کا معمول تھا۔ اتفاق سے سارے روم میٹ بھی ایسے ہی محنتی اور لائق تھے۔ یہ ”چھڑوں“ کا ایک گھرانا تھا۔ آج بھی کبھی کبھی خیال ہی خیال میں اُس گھر کا نقشہ اور ماحول کسی فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔
‎ڈاکٹر ممتاز کی تیسری برسی پر ہم نے اُس گھر کے ماحول کے بارے میں لکھا تھا:
‎”ڈاکٹر ممتاز احمد کو ہم سے بچھڑے تین سال ہوگئے ہیں۔ وقت کتنی جلدی گزرتا ہے، آج کل اِس کا پتا ہی نہیں چلتا۔ ہم اور ممتاز 1965 سے 1970 تک حیدرآباد کالونی، پیر الٰہی بخش کالونی، ناظم آباد نمبر ایک، بڑا میدان (ناظم آباد) اور فیڈرل بی ایریا بلاک 21 میں چار پانچ برس ایک ساتھ رہتے رہے۔ کہنے کو تو یہ 54/55 برس بنتے ہیں لیکن ذرا ماضی کی طرف مڑ کر دیکھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ ممتاز، اُن کے چھوٹے بھائی شیراز، کزن سعید قاضی، پیر اختر گیلانی، نصیر سلیمی، حشمت حبیب اور محبوب بلوچ، سب ہی موجود ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ہلکی پھلکی ’سرحدی جھڑپیں‘ اور ہنسی مذاق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان پیارے دوستوں سے وابستہ یادیں یک دم تازہ ہو جاتی ہیں۔“
‎چھَڑوں کے اِس گھرانے کی یادیں اکثر ماضی کے اُسی دَور میں لے جاتی ہیں۔ ہم نے کھانا پکانے کے لئے ایک ضعیف العمر خاتون رکھ لی تھی۔ وہ روزانہ طے شدہ پروگرام کے مطابق دن میں کھانا تیار کر کے اپنے گھر چلی جاتی تھی۔ اِس طرح ہم ہوٹل کے کھانوں سے بچے رہتے تھے۔ یہ بات جہاں صحت کے لئے اچھی تھی، وہیں ہم سب کی مالی بچت کا ذریعہ بھی تھی۔ تاہم، کبھی کبھی ذائقہ بدلنے کی خاطر، ہوٹل کے کھانوں کی ”عیاشی“ بھی کر لیتے تھے۔ ہماری رہائش کے نزدیک اچھے کھانوں کے لئے دو ہوٹل مشہور تھے۔ ایک پاپوش نگر ناظم آباد نمبر پانچ میں چاندنی چوک کے قریب ”نعمت کدہ“ اور دوسرا ناظم آباد نمبر ایک میں ریلکس سینما کے قریب ”کیفے الحسن“۔ نعمت کدہ“ کے کھانوں کی شہرت دُور دُور تک تھی۔ اُس میں قسم قسم کے کھانے گھر سے پکا کر لائے جاتے تھے جن کا ذائقہ بہت ہی عمدہ ہوتا تھا۔ وہاں کھانا کھانے لوگ دُور دُور سے آتے تھے۔ اُس کا مالک دہلی کا کوئی خاندان تھا۔ دہلی والے بہترین کھانے پکانے کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں۔ ہمیں اِس کا عملی تجربہ 1970 میں دہلی کے ایک گھرانے میں اپنی شادی کے بعد ہوا۔
‎کیفے الحسن ایک طرح سے اُس علاقے کا تہذیبی مرکز تھا، جہاں اکثر شام کے اوقات میں علاقے کے تعلیم یافتہ نوجوان طلبا اور طالبات، ادیب، شاعر اور صحافی چائے کی چسکیاں لیتے مل جاتے تھے۔ مشہور شاعر عبیداللہ علیم مرحوم سے میری پہلی ملاقات وہیں ہوئی تھی۔ یہ کیفے کھانوں کے ساتھ ساتھ اچھی چائے، پیٹیز اور بسکٹوں وغیرہ کی وجہ سے معروف تھا۔ اس کے ساتھ ہی کراچی کے مشہور ”آغا جوس“ کی شاپ بھی تھی۔ اُسی آغا جوس کی بعد میں کراچی کے مختلف مقامات پر شاخیں بھی قائم ہوئیں۔ جن کا اس آغا جوس سے کوئی تعلق نہیں تھا وہ صرف اس کی شہرت کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔
‎اُس گھرانے کے حشمت علی حبیب، اب سپریم کورٹ کے مشہور وکیل جو امت اخبار کے قانونی مشیر بھی ہیں، کراچی یونیورسٹی میں ہمارے کلاس فیلو تھے۔ صحافت میں ایم اے کرنے کے بعد کئی سال مختلف اردو اخبارات، حریت اور جسارت میں کام کیا۔ کام یابی کے ساتھ رپورٹنگ میں عدالتی مقدمات میں اپنی شناخت بنائی۔ عدالتوں، وکلا اور عدالتی کارروائیوں سے گہری دلچسپی نے اُنہیں صحافت چھوڑ کر وکالت کا پیشہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ باقاعدہ لاکالج میں داخلہ لے کر ایل ایل بی کیا۔ ممتاز وکیل راجہ حق نواز ایڈووکیٹ کی فرم میں وکالت کی عملی تربیت لی اور اب اُن کا شمار سپریم کورٹ کے مشہور وکلا میں ہوتا ہے۔
‎ممتاز احمد کے چھوٹے بھائی شیراز نے نیوی کی ملازمت اختیار کی اور اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ہوئے، آج کل کراچی میں مقیم ہیں۔ اُن کے کزن سعید احمد قاضی واپس گجر خان چلے گئے تھے پھر بعد میں اپنی بیٹی کے پاس امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر Freemont آ گئے اور اب وہیں رہائش پپذیر تھے۔ان کا ایک سال پہلے انتقال ہوگیا۔اللہ تعالی ان کی مغفرت کتے۔ وہ مشہور دانش ور، کالم نگار اور ٹی وی اینکر خورشید ندیم کے بہنوئی تھے۔
‎حافظ نصیر احمد سلیمی بڑی باغ وبہار شخصیت کے مالک اور دوستوں کے دوست ہیں۔ دوستی نباہنے کا فن کوئی اُن سے سیکھے۔ بڑے مہمان نواز ہیں، اُن کی دعوتیں مشہور ہیں۔ اُنہوں نے بھی کچھ عرصے کاروبار کے بعد صحافت کے پیشے کو ترجیح دی۔ ہفت روزہ ”تکبیر“ ،ہفت روزہ ”زندگی“ اور روزنامہ ”پاکستان“ ، لاہور میں کالم نگاری کی۔ آج کل کراچی میں مقیم ہیں
‎جمال دین، والی رحیم یار خان کے پیر سیّد اختر گیلانی بھی ہمارے روم میٹ تھے۔ بڑی نفیس طبیعت پائی تھی۔ صفائی ستھرائی کا بڑا دھیان رکھتے اور ہم سب کو اپنا مرید سمجھ کر اس کی تلقین بھی کرتے۔ یہ تلقین جب حد سے کچھ زیادہ ہو جاتی تو دوسرے ساتھی اس کی چِڑ بنا لیتے لیکن اُنہوں نے کبھی امن وامان کا مسئلہ پیدا نہیں ہونے دیا۔ اُن کی خدمت کرنے باری باری ایک دو مرید آتے رہتے۔ اُن کے مرید طرح طرح کے کھانے بھی ٹفن کیریئر میں لاتے جس سے گھرانے کے سارے افراد ہی استفادہ کرتے۔ آموں کے موسم میں آموں کی پیٹیاں بھی آتیں، جنہیں جمعیت کے دوسرے ساتھیوں کے گھروں کے ریفریجریٹرز یا بالٹی میں برف سے خوب ٹھنڈا کر کے مزے مزے سے کھاتے۔ سچی بات یہ ہے کہ اختر گیلانی کی پیری سے ہم ”مریدوں“ کو بڑے فائدے ہوئے۔ وہ رشتے میں پیر پگارا ہفتم شاہ مردان شاہ کے ہم زلف اور بہاول پور کے مخدوم زادہ حَسن محمود مرحوم کے بہنوئی ہیں۔ آج کل ملتان میں رہائش پذیر ہیں۔ ہم نے پیر پگارا کو پہلی دفعہ اُن ہی کے توسط سے مخدوم ہاؤس، نشتر روڈ، لسبیلہ میں ایک تقریب میں قریب سے دیکھا تھا۔


‎محبوب بلوچ اپنے آبائی شہر میانوالی چلے گئے تھے اور وہاں دواسازی کی فیکٹری اور دواخانہ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں بھی نام پیدا کیا۔ میانوالی میں اُن کی شہرت ایک مخیّر اور سماجی رہنما کی رہی۔ چند سال قبل اُن کا انتقال ہوا۔ اللہ تعالیٰ اُن کو جنت الفردوس میں جگہ دے،آمین۔
‎ساجد افضل اور شاہد افضل، دو بھائی بھی ہمارے روم میٹ تھے۔ ساجد افضل نے تعلیم کی تکمیل پر نیوی میں کمیشن لے لیا تھا اور کمانڈر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ برسوں بقائی کیڈٹ کالج کے پرنسپل رہے۔ اب اسلام آباد میں ہیں۔ شاہد افضل بھی سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد اسلام آباد میں رہتے ہیں۔ ایک اور ساتھی اسرار بھی ہمارے ساتھ تھے، جو بعد میں پروفیسر اے بی سعید کے نام سے مشہور ہوئے۔ یہ آخری شخص تھے جو ہماری شادی سے قبل دوسری جگہ منتقل ہوئے۔ وہ بڑا ہی یادگار دَور تھا۔
‎ناظم آباد نمبر ایک میں ہمارے قیام کا زمانہ کئی اعتبار سے اہم اور یادگار ہے۔ یہی دَور ہے جب جماعت اسلامی کے بانی امیر سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی سربراہی میں اسلامی ریسرچ اکیڈمی قائم ہوئی اور اس کا دفتر ہماری قیام گاہ کے قریب، عائشہ منزل میں قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس کی وجہ سے جہاں ہمیں پروفیسر خورشید اور ان کی ریسرچ فیلوز کی ٹیم سے براہ راست ملاقات کے وافر مواقع ملے، وہیں لکھنے پڑھنے میں زیادہ دلچسپی کا سامان اور رہنمائی بھی ملی۔ اِس کے علاوہ وہاں آنے والے تحریک اسلامی کے قائدین، کارکنوں اور ہر مکتب ِ فکر کے معروف علماءاور اسکالرز، بعض ممتاز صحافیوں، ادیبوں، شاعروں، اساتذہ، سماجی کارکنوں اور لیڈروں سے ملنے اور ان سے دوستانہ روابط قائم کرنے کے مواقع بھی ملے۔ اسی جگہ ہماری شادی کے لئے کوششوں کا آغاز ہوا، منگنی اور پھر شادی خانہ آبادی بھی ہوئی۔ جس طرح کسی گھر یا دفتر کو کسی شخص کے لئے سعد یا نحس قرار دیا جاتا ہے، اِسی طرح ناظم آباد کا علاقہ ہمارے لئے بڑا سعد ثابت ہوا۔ ہمارے زیادہ تر ساتھی طالب علم تھے جو زندگی میں کچھ بہتر کرنے کی سوچ رکھتے تھے۔ اُن کے ذہنوں میں مستقبل کے بارے میں حَسین خواب تھے جن کی تعبیر کے عزم سے وہ سرشار تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارے گھر یا ”چھڑوں“ کے ڈیرے کا ماحول تعلیمی سا بن گیا تھا اور ہر وقت بات چیت کا محور بھی تعلیم یا تعلیمی سرگرمیاں ہی رہتیں۔ لیکن ہمیں سب سے زیادہ فائدہ اسلامی ریسرچ اکیڈمی کی موجودگی سے ہوا جس کا درجہ کسی بھی طرح مدرسے، کالج یا یونیورسٹی سے کم نہیں تھا۔ اس میں پروفیسر خورشید جیسے کام یاب استاد اور مصنّف، مصباح الاسلام فاروقی جیسے محقق اور انگریزی زبان کے ماہر ادیب، مولانا عبدالعزیز جیسے بڑے عالم دین اور مربی، سیّد معروف شاہ شیرازی جیسے فاضل علوم اسلامیہ وشرعیہ، ممتاز احمد جیسے پیدائشی ذہین وفطین علم کے فدائی، نثار احمد اور افتخار احمد بلخی جیسے تاریخ کے طالب علم، عاصم حسین جیسے انگریزی سے اردو کے مترجم اور سیّد منور حَسن جیسے ریسرچ فیلو اور منتظم موجود تھے جو وہاں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ آنے والے دوسرے لوگوں کو بھی علم وعمل کے اسرار ورموز سے آشنا کر رہے تھے۔ ایسے میں اس مینارہ نور سے بھلا ہم کیوں کر محروم رہ سکتے تھے؟ ہمارے تین روم میٹ، ممتاز، سعید قاضی اور محبوب بلوچ تو اُس میں باقاعدگی سے کام کرتے تھے۔ ویسے بھی ہمارے لئے اُس کے دروازے ہر وقت کھلے ہوئے تھے۔ ہمارا شمار بھی اُس کے کارکنوں ہی میں ہوتا تھا۔ اکیڈمی کی مجلس ادارت کا اجلاس ہو یا کوئی سیمینار، ہم اُس کے کارکن کے طور پر کام کرتے اور انتظامیہ کا ہاتھ بٹاتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس عرصے میں ہم نے اکیڈمی کی ہر بڑی شخصیت، اسکالر اور اس کی لائبریری سے خوب خوب فائدہ اٹھایا۔
‎پروفیسر خورشید احمد سے ہماری ملاقات 1964 میں اُس وقت ہوئی تھی جب ہم پہلی بار محمود الحسن واسطی صاحب کے ساتھ چودھری غلام محمد، امیر جماعت اسلامی کراچی، سے ملنے اُن کے دفتر گئے تھے اور اُنہوں نے ہمیں جماعت سے جمعیت میں جانے کا مشورہ دیا تھا۔ اس موقعے پر عصر کی نماز آرام باغ کی قریبی مسجد میں ادا کی تھی اور نماز کے بعد وہیں پروفیسر خورشید سے بھی ملے تھے اور اپنا تعارف کرایا تھا۔ اس کے بعد ہمیں کبھی ان سے اپنا تعارف کرانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اُن سے پیار اور محبت کے تعلقات ابھی تک قائم ہیں۔ وہ آج کل علیل اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔اب ان کی عمر ۹۰ سال کے قریب ہےلیکن وہ اب بھی اپنے علمی مشاغل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ڈیڑھ ماہ قبل ہم یورپ کے مسلمان ملک مونٹی نیگرو میں تھے ان سے فون پر بات ہوئی تھی۔انگریزی کے ادیب مصباح الاسلام فاروقی سے ملاقات اکیڈمی کے قیام کے بعد ناظم آباد ہی میں ہوئی تھی، وہ بھی وہیں رہتے تھے۔ وہ اس وقت صیہونیوں کی خفیہ تنظی تنظیم فری مسینری کو بے نقاب کرنے کے منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ ہمیں یاد آتا ہے کہ انہوں نے انگریزی کے ایک اخبار میں صیہونی حوالوں اور حقائق کے ساتھ ایک چشم کُشا مضمون لکھا تھا جس کے ذریعے امت ِ مسلمہ کے خلاف یہودیوں کی اس خوف ناک خفیہ تنظیم کے مقاصد سے پہلی بار پردہ اٹھاتھا جس سے پاکستان میں اس کے مسلمان فری میسن ارکان اس خفیہ تنظیم سے پہلی بار آگاہ ہوئے تھے اور سب سے پہلے ان کی ملتان لاج کے مسلمان ارکان نے بغاوت کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد لاہور اور پھر کراچی کے ارکان بھی اس تنظیم سے علیحدہ ہوئے تھے۔فاروقی صاحب کو جب معلوم ہوا کہ ہم جنگ میں سب ایڈیٹر ہیں تو اُن کی توجہ بڑ ھ گئی اور ہم میں ان کی دلچسپی اور دوستی میں اضافہ ہوا۔ اُنہوں نے انگریزی میں پندرہ سولہ صفحات کا فری میسن تنظیم کا ایک تعارفی کتابچہ لکھا۔ اس کے اردو میں ترجمے کا کام ہمارے سپرد کیا۔ ہم نے اس کا ترجمہ کر دیا تو انہوں نے اسے پسند کیا اور خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے بعدازاں انگریزی میں فری میسنری کے مشہور پروٹوکول کی تشریح کے ساتھ ساتھ اس تنظیم کے بارے میں ایک کتاب جیوش کانسپریسی لکھ کر پاکستان میں تہلکہ مچا دیا۔ جس میں عالم اسلام کے خلاف صیہونی اسرائیلیوں کی خفیہ تنظیم کے عزائم کا پردہ ان ہی Protocolsپروٹو کول کے حوالوں کے ساتھ چاک کیا.
‎فیلڈمارشل خان کی حکومت اسرائیل اور امریکا کا دباؤ برداشت نہ کر سکی اور کتاب پر پابندی لگا دی گئی۔ اُن کی زندگی کے آخری ایّام شدید مالی دشواریوں اور نت نئی بیماریوں میں بسر ہوئے۔ 1976 میں انتقال ہوگیا۔