احمد خلیل جازم:
الیکشن کمیشن آف پاکستان سے عمران خان کی نااہلی کے فیصلے کے بعد اسٹاک ایکسچینج میں تیزی دیکھنے کو آئی اور ہنڈرڈ انڈیکس چار سو کے اضافے کے ساتھ 42226 تک جاپہنچا۔ معاشی ماہرین کے مطابق فیصلے کے ساتھ ساتھ فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کی خبر نے بھی اسٹاک مارکیٹ پر مثبت اثرات مرتب کیے جس کی وجہ سے انویسٹرز اپنا پیسہ اسٹاک مارکیٹ میں لگانے پر مائل ہورہے ہیں۔ معاشی ماہرین کے مطابق موجودہ دور حکومت میں پاکستان کی معاشی اور سیاسی پالیسیوں میں استحکام دیکھنے کو ملا ہے۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو، فیٹف بھی سفارتی اور سیاسی پلیٹ فارم ہے۔ جبکہ عمران خان کے دور حکومت میں ہماری سفارتی پالیس واضح نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بھرپور اقدامات کے باوجود فیٹف ہر بار نئی شرط کا تقاضہ کرکے بدستور پاکستان کو گرے لسٹ میں ہی رہنے دیتا تھا۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے معاشی ماہرین کا اسٹاک ایکسچینج اور پاکستان کی موجودہ معاشی صورت حال کی بہتری کے بارے یہ بھی کہنا تھا کہ، عمران خان کے دور میں ہماری سفارتی پالیسی نہایت کمزور واقع ہوئی تھی۔ سی پیک پر کام نہ ہونے کے برابر تھا۔ چین بدستور ناراض رہا۔ امریکی صدر بائیڈن کی فون کال نہ کرنے اور پھر عمران خان کا روس کا دورہ بھی اس پر کافی اثر انداز رہا۔ پھر ’’ایبسلولٹی ناٹ‘‘ کا چورن بیچنے کی کوشش کی گئی۔ اس پر مستزاد، سعودی عرب کے ساتھ بھی تعلقات مثالی نہ تھے۔
شہزادہ سلمان باقاعدہ عمران حکومت سے ناراض رہے۔ افغانستان کے حوالے سے ناقص پالیسیاں بھی معاشی استحکام میں رکاوٹ کاسبب رہیں۔ جبکہ موجودہ دور حکومت میں یو این او میں روس کے خلاف ووٹ نہ دینے کے باوجود فیٹیف گرے لسٹ سے نکلنا یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ ہماری وزارت خارجہ نے سفارتی لحاظ سے کامیاب پالیسیاں مرتب کی ہیں۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کا دورہ چین، جس میں تیس ارب ڈالر کے منصوبے زیر غور ہیں، معیشت کے استحکام کا باعث ہیں۔ ان منصوبوں پر امریکہ کی جانب سے خاموشی، ہماری سفارتی کامیابی کی نوید ہے۔ اس کی بڑی وجہ تمام سیاسی قیادت کا یک جان ہونا اور سفارتی سطح پر پالیسیوں کا مثبت ہونا گردانا جاسکتاہے۔ معاشی استحکام کی ایک وجہ اسحاق ڈار کا پاکستان آکر معیشت کو سنبھالنا اور پھر ڈالر کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمت کا رک جانا بھی معاشی استحکام کو آکسیجن فراہم کرتا ہے۔
پاکستان کی معیشت سنبھلے کی جانب رواں ہے تو اس کی واحد وجہ سیاسی طور پر استحکام اور ملک کی خارجہ پالیسی کی مضبوطی کا مظہر ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ نے دنیا کو ایک نئے معاشی چیلنج کے سامنے لاکھڑا کیا ہے ۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک، جن میں سیاسی عدم استحکام بھی عروج پر ہے، اس چیلنج سے بڑے اقدامات کرنے پر ہی نمنٹ سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس حکومت نے آتے ہی سخت فیصلے کرکے معیشت کا خسارہ کم کرنے کی کوشش کی جس سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ملک کی معیشت جو تنزلی کا شکار تھی اور ڈیفالٹ کی طرف جارہی تھی، وہ عمل رک گیا۔ اسی طرح ایٹمی ہتھیاروں پر امریکی تحفظات پر جس طرح پاکستان نے ردعمل دیا تو اس کے بعد امریکہ کی وزارت خارجہ کو کہنا پڑا کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار محفوظ ہیں۔ یہ بھی اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ پاکستان سفارتی سطح پر اپنا موقف درست طور پرپیش کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت خطے میں چین ایک طرف پاکستان میں اربوں ڈالر کے منصوبے لگانے پر تیار ہورہا ہے تو دوسری جانب امریکہ بھی فیٹف پر اثر اندازنہیں ہو رہا۔
دوسری جانب عمران خان کے نا اہلی کے فیصلے کے بعد اس کے کارکنان کا جو جوش و خروش دکھائی دینا چاہیے تھا، وہ دیکھنے کو نہیںملا۔ سیاسی پنڈتوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ، عمران خان نے نااہلی کے فیصلے کے بعد کارکنان کو باہر نکلنے کا کہا۔ لیکن رات گئے انہیں احتجاج ختم کرنے کا کہہ دیا۔ کیونکہ انہیں اندازہ ہورہا تھا، کہ اس طرح کارکنان باہر نہیںنکل سکے۔ چنانچہ اس فیصلے کو لانگ مارچ کے بجائے عدالتوں میں لے جانے کا عندیہ دے دیا۔