سابق وزیر اعظم نے آرمی چیف سے کہا تھا کہ سائفر کوئی بڑی بات نہیں،فائل فوٹو
سابق وزیر اعظم نے آرمی چیف سے کہا تھا کہ سائفر کوئی بڑی بات نہیں،فائل فوٹو

سائفر معاملہ، ترجمان فوج نے کھوکھلے بیانیے کو بے نقاب کردیا

راولپنڈی:پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹرجنرل  لیفٹیننٹ جنرل بابرافتخارکا کہنا ہےکہ سابق وزیراعظم عمران خان سے امریکی سائفر سے متعلق 11مارچ کو خود آرمی چیف نے بات کی تو اس وقت کے وزیراعظم نے جواب دیا کہ کوئی بات نہیں یہ کوئی بڑی بات نہیں اور پھر27 مارچ کو ڈرامائی انداز میں مخصوص بیانیہ بنایا گیا۔

تفصیلات کے مطابق ڈی جی آئی  ایس پی آرکا پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ارشد شریف کی وجہ شہرت تحقیقاتی جرنلزم تھی اس لیے جب سائفرکا معاملہ سامنے لایا گیا تو انہوں نے اس پر متعدد پروگرامز کیے گئے ، اس سلسلے میں انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم سے ملاقاتیں بھی کیں اوران کے انٹرویوز بھی کیے ، جس کے نتیجے یہ بات بھی کی گئی کہ شائد ان کو مختلف میٹنگنزکے منٹس اورسائفر بھی دیکھایا گیا تھا، سائفر اورارشد شریف کی ہلاکت سے متعلق حقائق کو جاننا بہت ضروری ہیںتاکہ اس سلسلے میں کسی قسم کا کوئی ابہام اور قیاس آرائی نہ پائی جا سکے۔

ڈی جی آئی ایس آئی کا کہنا تھا کہ جہاں تک سائفر کا معاملہ ہے، آرمی چیف نے 11مارچ کو کامرہ میں سابق وزیر اعظم سے خود اس کا تذکرہ کیا جس پر وزیر اعظم نے کہا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں، ہمارے لیے یہ حیران کن تھا کہ جب 27مارچ جو اسلام آباد میں ایک جلسے کے دوران ایک کاغذ کا ٹکرا لہرایا گیا اور ڈرامائی انداز میں ایک ایسا بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی جس کا حقیقت سے دوردورتک کوئی تعلق نہیں تھا، سائفر سے متعلق حال ہی میں کئی حقائق سامنے آچکے ہیں جس نے اس کھوکھلے بیانیے کو بے نقاب کردیا ہے کہ کیسے ایک پاکستانی سفیر کی رائے کو اپنے سیاسی مقاصد کیلیے استعمال کیا گیا گیا۔ 31مارچ کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ بھی اسی کی کری تھی

ڈی جی آئی ایس آئی کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایس آئی نے بہت واضح الفاظ میں نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کو بتا دیا تھا کہ حکومت کے خلاف سازش کے کسی قسم کے کوئی شواہد نہیں ملے ، کمیٹی کو بریف کیا گیا کہ یہ پاکستانی سفیرکی ذاتی رائے ہے،پاکستانی سفیر نے جو لائحہ عمل ریکومینڈ کیا تھا وہی لائحہ عمل نیشنل سیکیوٹی کمیٹی نے وزارت خارجہ کو ریکومنڈ کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ہم آئی ایس آئی کی فائنڈنگز کو قوم کے سامنے رکھنا چاہتے تھے تاہم ہم نے یہ فیصلہ اس وقت کی حکومت پر چھوڑ دیا کہ وہ آئی ایس آئی کی فائنڈنگزکوقوم کے سامنے رکھے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا، بلکہ مزید افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں، جس کامقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا اور مخصوص بیانیہ تشکیل دینا تھا کہ حکومت کے خلاف آئینی اور قانونی اور سیاسی عدم اعتماد کی تحریک رجیم چینج کا حصہ تھا،پاکستان کے اداروں اوران کے سربراہوں پرالزام تراشی کی گئی،اورہرچیزکوغداری اور رجیم چینج سے لنک کی گئی ۔