اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عمران خان کی صحت کے لیے دُعا گو ہوں لیکن سازشوں پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ وزیر اعظم نے عمران خان کے الزامات پر سپریم کورٹ کا فل کورٹ کمیشن بنانے کا مطالبہ کر دیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سیاست میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں اور نہ ہی اسے برداشت کیا جائے گا۔ عمران خان سمیت تمام زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے دُعا گو ہوں۔ لانگ مارچ میں فائرنگ کے واقعے کی ہر شخص نے مذکت کی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے وزارت داخلہ کو صوبائی حکومت کی ہرممکن مدد کرنے کی ہدایت کی ہے اور اس واقعے پر میں نے اپنی پریس کانفرنس بھی ملتوی کر دی تھی۔ کل اور پرسوں بدترین قسم کی الزام تراشی کی گئی، میرا، رانا ثنا اللہ اور ایک ادارے کے افسر پر الزام لگایا گیا جو افسوسناک ہے۔ ایک بار پھر جھوٹ اور گھٹیا پن کا مظاہرہ کیا گیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ اس موقع پر سخت الفاظ سے پرہیز کرنا چاہیے لیکن یہ اپنی بدنیتی اور گھٹیا پن سے قوم کو پستی میں لے جانے کی حرکتیں کر رہے ہیں۔ میرا فرض ہے کہ پاکستان کو بچانے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کروں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی صحت کے لیے دعاگو ہوں لیکن سازشوں پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ عمران خان نے اداروں کے خلاف باتیں کیں جبکہ عمران خان سر سے پاؤں تک جھوٹ کے مجسمے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ مجھ پر پانامہ کیس میں 10 ارب روپے کا الزام لگایا گیا اور 5 سال سے کیس چل رہا ہے لیکن ان کے وکیل پیش ہی نہیں ہوتے۔ اس کو ایسے ریٹائرڈ ججز چاہییں جنہیں یہ جاوید اقبال کی طرح بلیک میل کرے۔ عمران خان کے بیانات تضاد بھری داستان ہے اور عمران خان فوج پر کسی دشمن کی طرح حملہ آور ہے۔ وہ کہتا تھا جنرل باجوہ میرے ساتھ کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے بیانات کے بعد دشمن ملک ہندوستان کو اور کیا چاہیے کیونکہ عمران خان فوج کے ادارے پر وہ سنگین الزامات لگا رہے ہیں جو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ عمران خان ملک کو پٹری سے ہٹانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں جبکہ 28 ستمبر کو پنجاب حکومت کو مراسلہ بھجوایا کہ جلسے جلوسوں میں دہشتگردی کا خدشہ ہے۔
سوالات اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فائرنگ کے واقعہ کا ابھی تک مقدمہ درج کیوں نہیں ہوا ؟ اور فائرنگ سے جاں بحق شہری کا پوسٹ مارٹم کیوں نہیں ہوا؟ یہ جھوٹی ایف آئی آر کٹوانا چاہتے ہیں تو کٹوا لیں۔ پنجاب حکومت میری تو نہیں ہے، آئی جی ان کا، حکومت ان کی ہے۔ عمران خان نے اداروں کو ملوث کر کے بلیک میلنگ کا کوئی موقع نہیں جانے دیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن کیس میں ان کے دور میں ٹرائل کورٹ نے ہمیں کلین چٹ دی اور ملتان میٹرو کا کیس کہاں گیا؟ صرف چین کو بدنام کیا گیا۔ جاوید صادق نامی شخص کو میرا فرنٹ مین بتایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے راز میرے سینے میں دفن ہیں اور میں یہ راز بیان نہیں کر سکتا جبکہ عمران خان نے معیشت اور خارجی تعلقات کو تباہ کر دیا۔ عمران خان اپنے الزام کا ثبوت دیں تو ایک لمحہ بھی وزیر اعظم نہیں رہوں گا لیکن اگر عمران خان نے ثبوت نہ دیا تو خاموش رہنا ملک کے ساتھ ظلم ہو گا جبکہ ثبوت خود پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ یہ شخص جھوٹا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ عمران خان واقعے کے بعد راستے میں کسی سرکاری اسپتال کیوں نہیں گئے اور انہوں نے سرکاری اسپتال سے میڈیکولیگل سرٹیفکیٹ کیوں نہیں لیا؟ عمران خان 3 گھنٹے کا سفر طے کر کے شوکت خانم اسپتال کیوں گئے ؟
انہوں نے کہا کہ رانا ثنا اللہ کے خلاف جعلی منشیات کا کیس کس کی ہدایت پر ڈالا گیا؟ اور عمران خان نے افسر کو حکم دیا کہ رانا ثنا اللہ پر جھوٹا کیس بناؤ پھر ان کی ضمانت میرے نہیں عمران خان کے دور میں ہوئی۔ عمران خان کا دل پتھر کا ہے انسان کا نہیں اور طلعت محمود نامی شخص نواز شریف کے کلاس فیلو تھے تاہم طلعت محمود عمران نیازی کے بھی جگری یار تھے اور طلعت محمود کا نک نیم ٹام تھا۔ یہ تینوں اکٹھے جم خانہ میں کرکٹ کھیلتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ طلعت محمود پنجاب میں ایک کارپوریٹ بینک کے چیئرمین لگ گئے اور عمران نیازی طلعت محمود کی تقرری پر ناراض ہو گئے جس کے بعد عمران نیازی نے طلعت محمود کے خلاف نیب میں کیس بھی کروا دیا جبکہ عمران خان نے ٹام کو کینسر کے علاج کے لیے بھی باہر نہیں جانے دیا اور جب طلعت کا انتقال ہوا تو اگلے روز اس نے ٹوئٹ کر دیا کہ میرا بچپن کا دوست چلا گیا۔ اس سے بڑی پتھر دلی کی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ علیم خان نے اربوں روپے عمران خان کی سیاست پر لگائے پھر جب علیم خان کو پکڑا گیا تو اس نے کہا کہ اسے ہتھکڑیاں کیوں نہیں لگائیں۔ عمران خان نے ارشد شریف کے کیس پر بھی سیاست کی۔ کوئٹہ سانحہ کے شہدا کے لیے جو کچھ کہا گیا وہ تو کوئی دشمن بھی نہیں کہتا۔ نعیم الحق کا انتقال ہوا تو یہ ان کے جنازے میں بھی نہیں گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ جلاؤ گھیراؤ کی باتیں کرتا ہے لیکن ہم نے تو کبھی سوچا بھی نہیں۔ ایک آئینی طریقے سے حکومت تبدیل ہوئی۔ ادارے کے خلاف اس کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے جو کچھ کیا آسمان بھی روتا ہو گا۔ ڈی جی ایف آئی اے کو کمرے میں بند میں ںے نہیں آپ نے کیا تھا لیکن اب دودھ کا دودھ پانی کا پانی کرنا ہو گا ورنہ ملک آگے نہیں چل سکے گا۔ آپ کے حق میں فیصلے آئیں تو سب ٹھیک لیکن خلاف آئے تو سب غلط۔
وزیر اعظم نے عمران خان کے الزامات پر سپریم کورٹ کا فل کورٹ کمیشن بنانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس عمران خان کے الزامات پر فل کورٹ کا کمیشن تشکیل دیں اور اس حوالے سے چیف جسٹس کو خط بھی لکھوں گا۔