اسپیکر کو چاہیے تھا کہ قرآن پاک کی تلاوت کے بعد ارکان سے حلف لیتے، فائل فوٹو
اسپیکر کو چاہیے تھا کہ قرآن پاک کی تلاوت کے بعد ارکان سے حلف لیتے، فائل فوٹو

حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کے لیے کمرکس لی

امت رپورٹ:
وفاقی حکومت نے بظاہرعوام کو ریلیف دینے کے لیے کمر کس لی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اتحادی پارٹیوں کو یقین دلایا تھا کہ وہ بجلی اور تیل کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ڈالر دو سو روپے سے نیچے لے آئیں گے۔ اپنے اس وعدے کو پورا کرنے کے لئے اب وہ عملی طور پر متحرک ہیں۔ بیرون ممالک کے ان کے دورے اسی سلسلے کی کڑی قرار دیئے جارہے ہیں۔ اس معاملے سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ وزیر خزانہ کی یقین دہانیوں کے پیچھے مہنگائی کم کرنے سے متعلق اتحادی پارٹیوں کا شدید دبائو کارفرما ہے۔ کیونکہ مخلوط حکومت میں شامل تمام پارٹیاں سمجھتی ہیں کہ اگر عوام کو ریلیف نہیں دیا گیا تو آئندہ انتخابات میں ان کا صفایا ہوسکتا ہے۔ جبکہ خود نون لیگی قیادت کو بھی یہی خدشات لاحق ہیں۔ یوں سارا بوجھ اب وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے کاندھوں پر آگیا ہے۔ کیونکہ عوام کی ریلیف سے متعلق سارے اقدامات انہوں نے ہی کرنے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیر خزانہ کی یقین دہانیوں کے جواب میں تمام اتحادی پارٹیوں نے بھی ہر مشکل میں حکومت کا بھرپور ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں تقریباً دو ہفتے قبل اسلام آباد میں ہونے والا پی ڈی ایم کا اجلاس بہت اہم تھا۔
پی ڈی ایم ذرائع نے بتایا کہ نہ صرف مہنگائی کم کرنے اور عوام کو ریلیف دینے سے متعلق اہم ترین فیصلے اجلاس میں کیے گئے۔ بلکہ حکومت سے اتحادی پارٹیوں کے جو گلے شکوے تھے، وہ ختم ہوگئے اور مل کر ساتھ چلنے کے عزم کی تجدید کی گئی۔ ذرائع کے بقول اجلاس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لندن سے نواز شریف اور مریم نواز کے علاوہ بیرون ملک کا دورہ کرنے والے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی تمام تر مصروفیات ترک کرکے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، اختر مینگل، اسلم غوری اور دیگر موجود تھے۔ آفتاب شیرپائو کے نمائندے نے بھی آن لائن شرکت کی۔ وزیراعظم اجلاس کے دوران ایک اہم میٹنگ کے لئے روانہ ہوگئے تھے۔ تاہم زیادہ تر اہم فیصلے ان کی موجودگی میں کئے گئے۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) چونکہ پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہیں۔ لہٰذا ان کا کوئی نمائندہ اجلاس میں شریک نہیں تھا۔ لیکن حکومت کی اتحادی ہونے کے ناطے کابینہ اجلاس میں ان پارٹیوں کو بھی اعتماد میں لیا جاچکا ہے۔
واضح رہے کہ یہ خبریں چلی تھیں کہ پی ڈی ایم اجلاس میں وزیر خزانہ نے ڈالر کی قیمت دو سو روپے تک لانے کے ساتھ بجلی اور تیل کی قیمتیں کم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ جبکہ نواز شریف نے وزیر خزانہ کو تین سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو مفت بجلی یا سولر پینل لگاکر دینے کی ہدایت کی۔ تاہم پی ڈی ایم کے مذکورہ اجلاس میں موجود ایک رہنما نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ نواز شریف اور وزیراعظم شہباز شریف سمیت پی ڈی ایم میں شامل مختلف پارٹیوں کے رہنمائوں کے سامنے اسحاق ڈار نے حرف بہ حرف یہ الفاظ کہے تھے ’’آپ مجھے سات آٹھ ماہ دیدیں۔ میں ڈالر کو اس سطح پر لے آئوں گا، جہاں نون لیگ اپنے گزشتہ دور حکومت میں چھوڑکر گئی تھی‘‘۔
واضح رہے کہ نون لیگ نے جولائی دو ہزار اٹھارہ میں حکومت چھوڑی تو اس وقت ڈالر کی قیمت ایک سو اکیس روپے سے ایک سو چوبیس روپے تک تھی۔ جبکہ رواں برس اپریل میں پی ٹی آئی اقتدار سے باہر ہوئی تو انٹربینک میں ڈالر ایک سو ستاسی روپے اور اوپن مارکیٹ میں ایک سو اٹھاسی روپے تھا۔ لگتا ہے کہ پی ڈی ایم اجلاس کے دوران اسحاق ڈار جوش خطابت میں ڈالر کی قیمت اپنے گزشتہ دور حکومت کی سطح تک لانے کی بات کرگئے۔ جو ایک سو اکیس سے ایک سو تئیس روپے تھی۔ بظاہر ایسا ممکن نہیں۔ شاید وہ یہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ ڈالر اس قیمت پر لائیں گے، جہاں پی ٹی آئی حکومت نے چھوڑا تھا۔ تب ایک سو ستاسی سے ایک سو اٹھاسی روپے تھا۔ اگر وزیر خزانہ ڈالر دو سو روپے سے نیچے بھی لے آتے ہیں تو یہ بڑی بات ہوگی۔
پی ڈی ایم اجلاس میں شریک ایک اور رہنما نے بتایا ’’تمام اتحادی پارٹیوں کی جانب سے حکومت پر شدید دبائو تھاکہ مہنگائی کم کرنے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ ڈالر نیچے لانے، پیٹرول و ڈیزل اور بجلی کی قیمتیں کم کرنے پر خصوصی زور تھا۔ نواز شریف کی موجودگی میں وزیراعظم کو باور کرایا گیا کہ ایسا نہ کیا گیا تو دو ہزار تئیس کے الیکشن میں ہم سارے پٹ جائیں گے۔ ساتھ ہی اتحادی پارٹیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ عوام کو ریلیف ملتا دکھائی دینا چاہئے۔ یعنی ڈالر، بجلی اور تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود اگر عوام مہنگائی کی دہائی دیتے رہیں تو پھر کوئی فائدہ نہیں۔ جس پر اسحاق ڈار نے سات آٹھ ماہ مہلت طلب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ عام انتخابات سے پہلے وہ مہنگائی کم کرنے کا ٹاسک پورا کرکے دیں گے، جس کا عوام بھی اعتراف کریں۔ اس موقع پر نواز شریف نے کہا کہ اپنے گزشتہ دور حکومت میں انہوں نے تین سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لئے سولر انرجی کا ایک منصوبہ بنایا تھا۔ اگر ان کی حکومت کے آخری برس پانامہ کے سبب افراتفری کا شکار نہ ہوتے تو اب تک یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہوتا۔ اب اس منصوبے کو قلیل مدت میں اسحاق ڈار پایہ تکمیل تک پہنچائیں‘‘۔
ذرائع نے بتایا کہ یہ فیصلے دو ہفتے قبل کئے گئے تھے۔ اب ان پر عملدرآمد کی طرف بڑھا جارہا ہے۔ تین سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لئے حکومت کے پاس دو آپشن ہیں۔ ایک یہ کہ ان کے لئے بجلی مفت کردی جائے، جو کہ آئی ایم ایف کی شرائط کی موجودگی میں ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ لہٰذا حکومت کا زیادہ فوکس اس پر ہے کہ تین سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو وہ آسان اقساط پر قرضہ دے، جس کے ذریعے ذاتی مکان رکھنے والا فرد سولر سسٹم لگاکر اپنی بجلی کی ضروریات پوری کر سکے۔ ایک آپشن یہ بھی زیر غور ہے کہ ذاتی مکان رکھنے والے صارف کو سولر پینل لگانے کے لئے نصف رقم حکومت دے اور باقی خرچہ وہ اپنے جیب سے کرے۔ ذرائع کے مطابق سولر سسٹم لگانے کے سلسلے میں چین سے مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاکہ تین سو یونٹ سے زیادہ یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو بھی سولر انرجی پر منتقل کیا جاسکے۔
اتحادی پارٹی کے ایک رہنما کا دعویٰ ہے کہ گاڑی پٹڑی پر چڑھ چکی ہے۔ چین اور سعودی عرب سے طے پانے والے حالیہ معاملات اس جانب بڑی پیش قدمی ہے۔ ایسے میں اب مخلوط حکومت میں شامل کوئی پارٹی بھی قبل از وقت انتخابات کا نہیں سوچ رہی اور اس سلسلے میں کسی قسم کے مذاکرات کی حامی نہیں ہے۔ واضح رہے کہ چین اور سعودی عرب نے پاکستان کو تیرہ ارب ڈالر پیکیج کی یقین دہانی کرائی ہے۔ چین 8.8 ارب ڈالر کی معاونت کرے گا۔ جس میں 3.3 ارب ڈالر کے کمرشل قرضے شامل ہیں۔ جبکہ سعودی عرب سے 4.2 ارب ڈالر اضافی رقم ملنے کا امکان ہے۔ جس میں 3 ارب ڈالر اور موخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی شامل ہے۔ سعودی عرب نے گوادر میں پیٹرو کیمیکل کمپلیکس تعمیر کرنے کی یقین دہانی بھی کرادی ہے۔ مخلوط حکومت کو امید ہے کہ دونوں ممالک کی جانب سے ملنے والے قرضے، انوسٹمنٹ اور امداد کے نتیجے میں وہ عوام کو ریلیف دینے سے متعلق اپنے پلان پر آسانی سے عمل کرسکے گی۔
ذرائع نے بتایا کہ حکومت سے اتحادی پارٹیوں کو بہت سے شکوے شکایت تھے۔ بعض پارٹیوں کو گلہ تھا کہ انہیں مخلوط حکومت میں مناسب حصہ نہیں دیا گیا۔ تاہم اب یہ تمام اعتراضات اور گلے شکوے دور ہوچکے ہیں۔ تمام اتحادی پارٹیوں نے حکومت کو یقین دلایا ہے کہ وہ مہنگائی کم کرنے پر اپنا فوکس رکھے۔ وہ تمام اختلافات پس پشت ڈال کر اس کے ہاتھ مضبوط کریں گی۔