اسلام آباد: ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کو جلسے کی اجازت کے لیے انتظامیہ کو نئی درخواست دینے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد میں دھرنے و جلسے کے لیے اجازت اور راستے بند ہونے کے باعث تاجروں کی لانگ مارچ و دھرنے کی مخالفت میں درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کی۔ اس موقع پر ایس ایس پی آپریشن اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد بھی عدالت میں موجود تھے۔ عدالت نے گزشتہ روز کی سماعت میں دونوں درخواستوں کو یکجا کردیا تھا۔
سماعت کے آغاز میں پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پٹیشنر علی نواز اعوان شہر سے باہر ہیں آج دستیاب نہیں، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کی درخواست 3 نومبر کی تھی جو پہلے ہی غیر موثر ہو چکی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے انتظامیہ کو نئی درخواست دینی ہے۔ اگر مسئلہ حل نہ ہو تو نئی پٹیشن بھی دائر کر سکتے ہیں۔ اب تو وہ کاز آف ایکشن ہی ختم ہو چکا ہے جس پر درخواست دائر ہوئی تھی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے دوران سماعت کہا کہ عدالت کوئی مقام تجویز نہیں کر سکتی۔ یہ انتظامیہ کا کام ہے وہ بتائے کہ ڈی چوک میں اجازت دینی ہے یا ایف نائن پارک میں۔ جلسے کے لیے قواعد و ضوابط اور شرائط انتظامیہ ہی کے ساتھ طے ہونے ہیں۔ سپریم کورٹ سے بھی اس حوالے سے آرڈر آ چکا ہے۔ عدالت نے پی ٹی آئی کو جلسے کی تاریخ اور وقت سے آگاہ کرکے انتظامیہ سے اجازت لینے کی ہدایت کردی۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ یہ سب ایڈمنسٹریشن ہی نے فیصلہ کرنا ہے۔ ہم نے صرف یہ ڈائریکشن دینی ہے کہ آپ ان کی درخواست پر قانون کے مطابق فیصلہ کریں۔ معاون وکیل نے عدالت سے کہا کہ ہم انتظامیہ کو آج ہی درخواست دے دیتے ہیں۔ منگل تک سماعت ملتوی کردیں، اس کیس میں بابر اعوان خود پیش ہوں گے۔