عوام کا ایک سمندر داخلے کیلیے مرکزی دروازے پر منتظر رہا-فائل فوٹو
 عوام کا ایک سمندر داخلے کیلیے مرکزی دروازے پر منتظر رہا-فائل فوٹو

’’مفتی رفیع عثمانی کے جنازے میں عوام کا سمندرامڈ آیا‘‘

ضیاء چترالی:
مفتی اعظم پاکستان اور ملک کی نامور دینی درسگاہ جامعہ دارالعلوم کراچی کورنگی کے مدیر مفتی محمد رفیع عثمانیؒ کا جسد خاکی دارالعلوم کے احاطے میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ان کا انتقال جمعہ کی شب ہوا تھا۔ لیکن اکلوتے بیٹے ڈاکٹر زبیراشرف عثمانی کی بیرون ملک موجودگی کے سبب جنازہ اتوارتک موخرکردیا گیا۔ گو کہ بلاوجہ میت کی تدفین میں تاخیر خلاف سنت ہے۔ لیکن ولی اقرب (قریب ترین عزیز) کی عدم موجودگی اور مجبوری کی صورت میں تاخیر کی گنجائش ہے۔

مفتی اعظم پاکستان کے جنازے میں شہر بھر سے خلقت کا ہجوم امڈ آیا۔ بلکہ ملک بھر حتیٰ کہ بیرون ملک سے بھی بے شمار افراد جنازے میں شرکت کیلئے آئے تھے۔ ہزاروں افراد رات کو ہی دارالعلوم پہنچے تھے اور جنازے کے انتظار میں رات کھلے آسمان تلے دارالعلوم کے لان میں گزاری۔ شہر سے جنازے میں شرکت کیلئے لوگ نماز فجر کے وقت ہی پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ جامعہ دارالعلوم کے اطراف میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ شرکا کی تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو تین کلومیٹر کے احاطے تک گاڑیاں پارک کی گئی تھیں اور لوگ پیدل چل کر جنازہ گاہ پہنچتے رہے۔ دارالعلوم کے سارے دیو ہیکل گیٹ میں رش کی وجہ سے طویل قطاریں لگی تھیں۔ جنازہ دارالعلوم کی وسیع مسجد میں ادا کی گئی۔ محدود اندازے کے مطابق دو سے تین لاکھ افراد نماز جنازہ میں شریک ہوئے۔ دارالعلوم کا وسیع ترین احاطہ شرکا کیلئے تنگی داماں کی شکایت کرتا نظر آیا۔ حالانکہ اس عظیم الشان مسجد کے ہال میں ہی پچاس ہزار افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔ یہاں تو مسجد، صحن، اطراف کے احاطے، لان اور سڑکیں بھی نمازیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ جنازے کا وقت صبح نو بجے مقرر تھا۔ لیکن لوگوں کی آمد جاری تھی۔ اس لئے کچھ دیر کیلئے موخر کر دیا گیا۔ لیکن یہ سلسلہ نہیں رکا تو نماز جنازہ پڑھا دی گئی۔ جس کی امامت مفتی اعظم کے چھوٹے بھائی شیخ الاسلام جسٹس (ر) مفتی محمد تقی عثمانی نے کرائی۔ قبل ازیں انہوں نے مختصر بیان بھی کیا اور مرحوم کی خدمات اور ان کے ساتھ اپنی 75 سالہ رفاقت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے یہ کہہ کر حاضرین کو بھی اشکبار کر دیا کہ ہم نے تقسیم ہند سے قبل دیوبند میں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ ایک ساتھ ہجرت کی۔ ساتھ پڑھتے اور پڑھاتے رہے اور آج یہ رفاقت ٹوٹ گئی۔ یہ کہہ کر ان پر رقت طاری ہوگئی۔ پھر جنازہ پڑھاتے ہوئے بھی ان کی آواز رندھ گئی اور وہ ہچکیاں لے کر روتے رہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ بہت کم ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ دو بھائیوں کے مابین ایسی الفت و محبت ہو، جو عثمانی برادران میں تھی۔ یہ دونوں بھائی یک جان دو قالب تھے۔ اس موقع پر ڈاکٹر اشرف عثمانی نے بھی مختصر خطاب کرکے اپنے مرحوم والد کے اوصاف حمیدہ بیان کئے۔ ہزاروں افراد بعد میں دارالعلوم پہنچے اور جنازے میں شرکت سے محروم رہے۔ یہ کراچی کی تاریخ کے چند بڑے جنازوں میں سے ایک تھا۔ جنازے کے بعد مفتی رفیع عثمانی کا جسد خاکی دارالعلوم کے قدیم قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ جس میں کبار علمائے کرام کی قبریں ہیں۔ حسن اتفاق کہ مرحوم کو اپنے عظیم والد مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی اور اپنی والدہ کے درمیان جگہ ملی۔ گویا والدین نے مل کر بیٹے کو گود میں لے لیا۔ اس موقع پر ہر چہرہ غم و حزن کا آئینہ دار اور ہر آنکھ اشکبار تھی۔ بالخصوص مفتی مرحوم کے شاگرد اپنے مشفق استاذ کے فراق کے غم سے نڈھال تھے۔ مفتی محمد تقی عثمانی کا نماز سے قبل کہنا تھا کہ پاکستان بھر سے بلکہ کئی بیرون ممالک سے بھی لوگ جنازے میں شرکت کیلئے آئے ہیں۔ بطور خاص انہوں نے سعودی عرب، انگلینڈ سمیت کئی ممالک کے نام بتائے۔ نمازِ جنازہ میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری، پی ڈی ایم اور جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمٰن، امیرِ جماعتِ اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن، پی ایس پی کے مصطفی کمال اور انیس قائمخانی، اہلسنت کے علامہ اورنگزیب فاروقی، وفاق المدارس کے جنرل سیکریٹری مولانا حنیف جالندھری سمیت اہم سیاسی و مذہبی شخصیات نے شرکت کی۔ ملک بھر کے علمائے کرام، مشائخ، سیاسی رہنمائوں اور حکومتی شخصیات کا کہنا ہے کہ مفتی محمد رفیع عثمانی کی رحلت سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پر نہیں ہو سکے گا۔ واضح رہے کہ مفتی رفیع عثمانی کے والد مفتی محمد شفیع عثمانیؒ تحریک پاکستان کے سرکردہ رہنما تھے اور مفتی رفیع خود بھی ’بچہ مسلم لیگ‘ کے سرگرم کارکن تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ مسلسل وطن کی تعمیر و ترقی کیلئے کوشاں رہے۔ ان کے مدرسے میں قومی ایام بالخصوص یوم آزادی بڑے جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا تھا اور مرحوم پیرانہ سالی کے باوجود ان تقریبات میں بڑے جذبے کے ساتھ شریک ہوتے اور خود پرچم کشائی بھی کرتے۔ اس موقع پر ہم نے مفتی مرحوم کے کچھ مغموم شاگردوں سے بات چیت کی تو انہوں نے ملے جلے جذبات و تاثرات کا اظہار کیا۔ مولانا لطف الرحمن لطف کا کہنا تھا کہ ’’مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی میرے ان اساتذہ میں سے ہیں، جن کی شخصیت نے بہت متاثر کیا۔ ان کی طلبا سے مثالی شفقت اور اپنے ادارے کے اساتذہ اور ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک تمام مہتممین اور منتظمین کے لئے ایک رول ماڈل ہے۔ جامعہ دارالعلوم کراچی میں طلبا کو جو سہولیات میسر ہیں وہ کسی دوسرے مدرسے میں تو کجا شاید بہت سی بڑی بڑی یونیورسٹی میں بھی میسر نہ ہوں۔ اس کے باوجود استاذ جی ہمیشہ مزید بہتری کی بات کرتے اور کہتے، میرا بس چلے تو میں اپنے طلبا کو سونے کا لقمہ بنا کر پیش کروں۔ اسی طرح جامعہ دارالعلوم کراچی میں اساتذہ اور ملازمین کی تنخواہیں بھی بہت معقول ہوتی ہیں۔ رواں سال ہی 6 ہزار کا مہنگائی الاؤنس تنخواہوں میں شامل کیا گیا ہے۔ جس کے بعد جامعہ میں اساتذہ کی کم از کم تنخواہ تیس ہزار ہوگئی ہے۔ مفتی مرحوم اگر کسی استاد کو خستہ حال دیکھتے تو آزردہ خاطر ہوجاتے۔ ان کی خواہش ہوتی کہ ان کے جامعہ کے اساتذہ اچھے حال میں نظر آئیں۔ اچھی تنخواہ دینے کے باوجود بھی وہ ہمیشہ مزید بہتری اور اضافے کی تمنا کرتے۔ مالی معاملات میں بہت ہی محتاط تھے۔ اتنے محتاط کہ آج کے دور میں اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ اپنے طلبا کو جن باتوں کی خصوصی تاکید کرتے۔ ان میں سر فہرست مالی معاملات میں احتیاط ہوتی۔ ایک مرتبہ درس کے دوران کہا ’میرے دفتر میں کاغذ سمیت اسٹیشنری کا دیگر سامان میرے ذاتی پیسوں سے خریدا جاتا ہے۔ میں نے اپنے اسٹاف کو اس معاملے میں سختی سے تاکید کی ہوئی ہے۔ کیونکہ بسا اوقات مجھے اپنے کسی ذاتی نوعیت کے کام کیلئے دفتر کا کاغذ، قلم وغیرہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ جامعہ کے کاغذ، قلم سے میں یہ نہیں کر سکتا۔ یہ میرے لئے جائز نہیں۔ یہ بھی میں نہیں کر سکتا کہ کچھ اسٹیشنری جامعہ کے فنڈ سے خرید لوں۔ کچھ اپنے پیسوں سے اور جامعہ کے کام جامعہ کے کاغذ، قلم سے کروں اور اپنا کام اپنے کاغذ قلم سے۔ کیونکہ یہ مستقل درد سر ہوگا۔ اس لئے دفتر کیلئے اپنے ذاتی پیسوں سے اسٹیشنری کا سامان خرید لیتا ہوں۔ میرے پیسے جامعہ کے کام میں صرف ہوں گے تو مجھے اجر ملے گا اور اپنے ذاتی کام بھی جائز اور قانونی طریقے سے کرنے میں آزاد رہوں گا‘۔ اس کے بعد کہا ’میں یہ بات اس لئے نہیں کر رہا کہ اپنی بڑائی بیان کروں۔ صرف اس مقصد کیلئے کہہ رہا ہوں کہ آپ میں سے بہت سے طلبا کل کو کسی مدرسے یا دوسرے ادارے کے انتظامی منصب پر فائز ہوں گے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ کل کو یہ طلبا بھی اس چیز کا خیال رکھیں‘۔ ان کے ایک اور شاگرد علی زمان کا کہنا تھا کہ ’’کتاب الایمان پڑھانے کے ساتھ مفتی محمد رفیع عثمانی سال بھر طلبا کی شخصیت کی تعمیر میں مصروف رہا کرتے تھے۔ وہ دارالعلوم کی سب سے بارعب شخصیت کے حامل تھے۔ انتہائی سنجیدہ اور متین شخص۔ اس حد تک کہ ان کے سامنے زبان گنگ ہوجاتی تھی۔ مگر اس کے باوجود ان کی تربیت کا انداز اس سے مختلف تھا۔ وہ اتنا سادہ اور پیار بھرا کہ درسگاہ یا مسجد کے منبر پر بیٹھتے وقت ان کے سامنے موجود طلبا رعب میں آنے کے بجائے بولنے کا حوصلہ پاتے تھے۔ ایک بار کہا کہ بہت سے طلبا کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اساتذہ سے کوئی بات کرنا چاہتے ہیں تو پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔ منہ پر ہاتھ رکھ کر بولیں گے یا پھر چادر یا رومال رکھ کر بات کرتے ہیں۔ فرمایا یہ درست عمل نہیں ہے۔ یہ تکلف، احترام سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ کسی استاذ سے بات کرنے والے لڑکے کو برابر چلتے ہوئے مناسب اونچی آواز میں اور واضح الفاظ میں مدعا بیان کرنا چاہیے۔ دارالعلوم کے بعض طلبا بہت اچھا بولتے ہیں اور بہت فصیح ہوتے ہیں۔ مگر اس تکلف سے کوفت ہوتی ہے‘‘۔ مفتی مرحوم کے شاگرد اور مشہور کالم نگار مولانا انور غازی کے مطابق ’’مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کو دنیا مدتوں یاد رکھے گی۔ وہ اپنے خطبات اور بیانات میں دو باتوں پر بہت زیادہ زور دیا کرتے تھے۔ ایک یہ کہ دنیا کے سامنے دین اسلام کا درست نقش اور صحیح چہرہ پیش کریں۔ دوسرا یہ کہ ہر معاملے میں اتباع سنت کا اہتمام کریں۔ ہر کام کو انتہائی نظم و ضبط اور صفائی و سلیقہ کے ساتھ کریں۔ ہمارے انتہائی مشفق استاذ تھے، ہم نے حدیث شریف کی کتاب ’’صحیح مسلم‘‘ ان سے پڑھی تھی۔ ہم سے بے پناہ محبت رکھتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ آپ ’’جہاد بالقلم‘‘ کر رہے ہیں۔ قلم کے غازی ہیں‘‘۔ محمود ازہر کا کہنا تھا کہ ’’اپنے پانچ سالہ تعلیمی سفر میں ’صدر صاحب‘ کے طرزِ عمل کا بغور مشاہدہ کیا۔ جو کچھ سیکھا ان میں سے ایک یہ کہ صدر صاحب کسی سے اس کے فرائضِ منصبی سے زائد کام لیتے تو کوشش یہی ہوتی کہ حوصلہ افزائی کے لیے اضافی معاوضہ بھی دیں۔ دھیرے دھیرے ان کا یہ طرز عمل جامعہ کا مزاج سا بن گیا‘‘۔ محمد یعقوب کا اپنی یادوں کا دریچہ کھولتے ہوئے کہنا تھا ’’شاید 2001 کا واقعہ ہے۔ استاذ جی سعودی فرمانروا شاہ فہد کے مہمان تھے۔ ہم نے حرم شریف سے انہیں اپنے مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ مدعو کیا۔ لیکن مجھ سے غلطی یہ ہوگئی کہ سواری کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ مگر استاذ جی پیرانہ سالی کے باوجود پیدل چل پڑے۔ یہ فاصلہ طے کرنا کافی مشکل تھا۔ کچھ دیر بعد تھکاوٹ کے آثار نمودار ہونے لگے۔ راستے میں کچھ دیر سستانے کیلئے بیٹھ بھی گئے۔ لیکن پھر بھی سواری کا مطالبہ نہیں کیا۔ بالآخر پیدل ہی منزل تک پہنچ گئے۔ واقعی کیا لوگ تھے۔ مکہ و مدینہ کی محبت میں کیا کیا برداشت کرجاتے تھے۔ حق تعالیٰ غریق رحمت فرمائے‘‘۔ آخر میں اس سوال کے جواب میں کہ اب مفتی محمد رفیع عثمانی? کا جانشین کون بنے گا؟ دارالعلوم کے اکثر متعلقین کا یہی کہنا تھا کہ، مفتی محمد تقی عثمانی چونکہ نائب صدر تھے۔ اس لئے اب وہی یہ عہدہ سنبھالیں گے۔