محمد اطہر فاروقی/ نواز طاہر:
سندھ اور جنوبی پنجاب کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں موسم سرما کے دوران بڑے انسانی المیے کا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ واضح رہے کہ سیلاب اور طوفانی بارشوں کے باعث نقل مکانی کرنے والے ساڑھے تین کروڑ افراد میں سے بیشتر اپنے آبائی علاقوں میں واپس جا چکے ہیں۔ تاہم ان کی ایک بڑی تعداد اپنی چھت سے تا حال محروم ہے۔ جب کہ سرکاری سطح پر تباہ شدہ گھروں کی مرمت کا کام اب تک شروع نہیں کیا جاسکا ہے۔ ادھر سخت سردی پڑنے کے باعث سیلاب متاثرین کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ خاص طور پر ان لاکھوں افراد کے لیے زندگی دوبھر ہوچکی ہے، جنہیں سر چھپانے کو خیمہ بستیاں کو درکنار، کمبل، بستر اور گرم ملبوسات تک میسر نہیں۔ کڑاکے کا جاڑا پڑنے پر ان مجبور و بے کس مرد و خواتین، بچوں اور بوڑھوں میں مختلف موسمی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ سب سے زیادہ اذیت کا سامنا ان ہزاروں حاملہ خواتین کو ہے، جنہیں نہ صرف طبی سہولیات میسر نہیں۔ بلکہ نا کافی خوراک کے باعث، زچگی میں پیچیدگیوں کا اندیشہ بھی ہے۔
اگر صرف سندھ کی بات کی جائے تو کراچی سمیت صوبے بھر میں لگ بھگ چالیس لاکھ افراد خیمہ بستیوں سمیت کھلے میدان میں ٹینٹ لگا کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ متاثرین کمبل اور گرم کپڑوں کی فراہمی کو ترس گئے ہیں۔ رات کے اوقات میں بزرگ، بچے اور خصوصاً حاملہ خواتین کو سردی سے بچانے کیلئے کوئی انتظامات حکومتی سطح پر نہیں کیے گئے ہیں۔سردی میں اضافے اور ادویات کی قلت سے حاملہ خواتین، بچے اور بزرگ افراد موت سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ وائرل انفیکشن، ہڈیوں میں درد، نزلہ و زکام، کھانسی اور گلا خراب ہونے سمیت مختلف بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ خیر پور، دادو، لاڑکانہ، شہداد پور، خیرپور سمیت بیشتر اضلاع میں متاثرین اپنی مدد آپ کے تحت بانسوں، درختوں کی ٹہنیوں سے بنی جھونپڑیوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ڈاکٹرز کے بقول سیلاب متاثرین میں سردی کی وجہ سے وائرل انفیکشن، نمونیہ، کھانسی سمیت متعدد انفیکشن اور بچوں میں چیسٹ انفیکشن، نمونیا، کھانسی اور نزلہ وغیرہ کے مریضوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
ڈائریکٹرہیلتھ سروسز سندھ کے بقول سردی کے بعد وائرل انفیکشن اور نزلہ زکام کے مریضوں سمیت حاملہ خواتین کیلئے تمام اضلاع کے ہیلتھ آفیسرز کے ماتحت ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ تاہم متاثرہ علاقوں میں موجود ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سندھ بھر میں سیلاب متاثرین کو کمبل اور گرم کپڑے تک فراہم نہیں کیے گئے۔ خیموں میں 40 لاکھ سے زائد افراد ابھی بھی موجود ہیں۔ جبکہ 33 لاکھ کے قریب سیلاب متاثرین اپنے علاقوں سے پانی اترنے کے بعد گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ گھر جانے والے افراد میں بے یار و مدد گار ہیں۔ تاہم سب سے زیادہ خیموں میں رہنے والے سیلاب متاثرین رل رہے ہیں۔ سردی بڑھنے کے باعث مختلف بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ خیموں میں ہزاروں کی تعداد میں موجود حاملہ خواتین سردی کے بعد سہولیات نہ ہونے سے شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ بزرگ اور بچوں کے لئے سردی سے بچاؤ کے کپڑے اور کمبل سمیت دیگر اشیا بھی موجود نہیں ہیں۔ سندھ میں لاکھوں متاثرین سخت پریشان اس لیے بھی ہیں کہ ان کے خیمے واٹر پروف نہیں ہیں۔ پکی سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے بارش سے خیموں میں کیچڑ جمع ہوگئی ہے اور وہاں رہنے والے متاثرین کے لیے پانی کی جو ٹنکیاں فراہم کی گئی ہیں، ان میں بھی برساتی پانی شامل ہو گیا ہے۔ اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے سیلاب متاثرین عارضی طور پر قائم خیمہ بستیوں میں اس لیے رہنے پر مجبور ہیں کہ ان کے علاقے دو تین ماہ بعد بھی زیر آب ہیں۔ متاثرین اپنے زیر آب علاقوں سے پانی نکلنے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ اپنے آبائی گھروں کو واپس جا سکیں۔
’’امت‘‘ نے صوبے کے مختلف اضلاع کے کیمپوں میں موجود ڈاکٹرز سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ رات کے اوقات میں سردی کی وجہ سے سیلاب سے متاثرہ خیمے اور آبادیوں میں رہائش پزیر متاثرین غیر محفوظ ہیں۔ بہت سے لوگوں کو مناسب پناہ، خوراک اور سردی سے بچاؤ کی سہولیات درکار نہیں۔ سردی بڑھنے پر رات کے وقت خیموں میں موجود بزرگ اور بچے لڑکیاں لکڑیاں جلا کر سردی کم کرنے کو نظر آتے ہیں۔ بیشتر خیموں میں بچے شدید ٹھنڈ سے سو نہیں پاتے۔ خیموں میں طبی امداد فراہم کرنے والے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ، اس وقت فلاحی اداروں سمیت حکومت نے بھی سیلاب متاثرین کو لاورث چھوڑ رکھا ہے۔ کوئی خیمہ یا گھر ایسا نہیں ہے جس میں حاملہ خواتین موجود نہیں ہوں۔ لیکن ان خواتین کے پاس گرم کپڑے اور کھانے کو بہتر غذا تک دستیاب نہیں ہے۔ ادویات کی قلت سے سردی میں معاملات مزید سنگین ہو رہے ہیں۔ فلاحی اداروں اور حکومت نے جو خیمے فراہم کیے وہ بھی صرف خوش نصیبوں اور سفارشیوں کو ملے۔ دن میں دھوپ کے باعث گزارا ہو جاتا ہے، مگر رات انتہائی سرد ہوگئی اور متاثرین کا اب ان عارضی جگہوں پرگزارا مشکل ہوگیا ہے۔
’’امت‘‘ نے اس حوالے سے ڈائریکٹرہیلتھ سروسز سندھ ڈاکٹر جمن سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ صوبے میں سیلاب متاثرین کی مجموعی تعداد 73 لاکھ تھی۔ تاہم اس میں سے 33 لاکھ افراد پانی اترنے کے بعد اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ مگر سرکاری اسکولوں اور خیموں میں اس وقت بھی 40 لاکھ کے قریب متاثرین موجود ہیں۔ ہم نے تمام اضلاع کے ہیلتھ آفیسرز کے ماتحت ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں۔ ہماری سب سے خصوصی توجہ حاملہ خواتین پر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ، سردی میں ملیریا کے کیسز میں کمی ضرور آئی ہے۔ لیکن انفیکشن کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔
جناح اسپتال کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عمر سلطان نے بتایا کہ سیلاب متاثرین میں سردی کی وجہ سے وائرل انفیکشن، نمونیہ، کھانسی، گلا خراب ہونے سمیت متعدد بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔ ایسے افراد جو الرجی، سانس اور دمے کے مرض میں مبتلا ہوں۔ ان کو پھیپڑوں کی بیماریاں، نمونیا اور دمے کے بڑھ جانے کا خدشہ رہتا ہے۔ جبکہ زیادہ خطرہ بچوں اور بزرگوں کو رہتا ہے۔ اس کے علاوہ بلڈ بریشر کے مریضوں میں بھی بلڈ پریشر کے مزید بڑھ جانے کا خدشہ رہتا ہے۔ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ نمک کا استعمال کم کریں اور اپنی نیند پوری کریں۔
دوسری جانب جنوبی پنجاب کے دو اضلاع ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں بھی دو لاکھ سے زائد سیلاب متاثرین شدید سردی میں کھلے آسمان تلے کسمپرسی کی حالت میں سرکاری امداد کے منتظر ہیں۔ پنجاب حکومت پچپن ہزار چار سو افراد میں امدادی چیکوں کی تقسیم تو شروع کر چکی ہے۔ تاہم چیک کیش کروانے والا کوئی تاحال سامنے نہیں آیا۔ امداد کے مستحق افراد کی تعداد کے حوالے سے بھی سرکاری اور امداد فراہم کرنے والی معتبر تنظیموں کے اعدا دو شمار میں فرق دکھائی دے رہا ہے۔ اور بڑی تعداد میں متاثرین کے نام لسٹوں میں شامل ہی نہیں کیے گئے۔ ایسی کسی بستی کا ذکر ان فہرستوں میں نہیں جو سیلاب کے دوران دریائے سندھ کی موجوں کی نذر ہوگئیں۔ زمینی حقائق کے مطابق اب تک بڑی تعداد میں سیلاب متاثرین کیمپوں میں موجود ہیں۔ جماعت اسلامی ضلع راجن پورکے امیر ڈاکٹر عرفان اللہ ملک نے ’’’امت‘‘‘ کو بتایا کہ راجن پور کی آبادی سیلاب سے بُری طرح متاثر ہوئی۔ ہزاروں گھر جزوی اور کلی طور پر منہدم ہوئے۔ الخدمت سمیت مختلف این جی اوز نے لوگوں کو ریسکیو کرنے کے ساتھ ساتھ ٹینٹوں میں آباد کیا اور خوراک و دیگر اشیائے ضروریہ فراہم کیں۔ لیکن حکومت نے ہمیں بے گھر افراد کو شیلٹر فراہم کرنے کی اجازت نہیں دی تھی پھر بھی یہ کام اپنے ذمے لے لیا تھا۔ اب سنا جارہا ہے کہ حکومت کی جانب سے متاثرین کی امداد شروع کی جارہی ہے، لیکن تاحال کوئی ایسا شخص نہیں ملا جس نے بتایا ہو کہ صوبائی حکومت کی طرف سے اسے چیک جاری کیا گیا ہے۔ تاہم الخدمت نے مختلف ذرائع سے سو افراد کو جزوی اور کلی طور پر چھت فراہم کی ہے۔
اسی طرح ڈی جی خان اور راجن پور کے ڈاکٹروں، اساتذہ، صحافیوں دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی وابستگی سے بالاتر پڑھے لکھے نوجوانوں پر مشتمل ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر فیضان اعجاز جتوئی نے بتایا کہ دریا برد ہونے والی پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی کے رکن جعفرلغاری اور پنجاب اسمبلی کے رکن محی الدین کھوسہ کے حلقوں کی بستی بھٹیار سمیت دریا کی موجوں کی نذر ہونے والی کئی بستیوں کے متاثرین کا نام فہرستوں میں شامل نہیں۔ حالانکہ لسٹیں مرتب کرتے وقت ان کے نام شامل تھے۔ اسی طرح کئی دیگر بستیاں لسٹوں سے غائب ہیں۔ ڈی جی خان کے بہت سے علاقوں کے متاثرین شامل ہی نہیں کیے گئے۔ ان کیلئے آنے والی امداد بھی دریا سے ملحقہ علاقوں تک نہیں پہنچ سکی تھی۔ تحصیل کوٹ چھٹہ کی یونین کونسل جھکڑ امام میں مذکورہ ٹیم کے ایک نوجوان رکن فیصل لسکانی نے بتایا کہ، دریا برد ہونے والی بستیوں میں ابھی تک ہم صرف دو گھروں کی تعمیر مکمل کرسکے ہیں۔ جبکہ حکومتی کارندوں نے ان بستیوں کو نظر انداز کیا ہوا ہے۔ لیکن ہم لوگ اپنے بہن بھائیوں اوربزرگوں کو موسم کی شدت کے رحم کرم پرنہیں چھوڑ سکتے۔