ملاقات۔سجاد عباسی
س: آپ بتا رہے تھے کہ کن کن نامور شخصیات کے انٹرویو کیے اور کس کس نے متاثر کیا؟
ج: جنرل حمید گل سے انٹرویو کا بہت مزہ آیا۔ بڑی کھل کر انہوں نے گفتگو کی۔ بلکہ یہاں تک بھی کہا کہ، جب 88ء کے انتخابات ہوئے تو اس سے پہلے بے نظیر بھٹو کے حوالے سے فوج کے اندر کافی خدشات تھے۔ جب 86ء میں بے نظیر کی وطن واپسی ہوئی تو ان کا استقبال اتنا بڑا تھا کہ ہمیں لگا کہ یہ آکر (اقتدار میں) بدلہ لے سکتی ہیں۔ مگر میں جب پہلی مرتبہ بے نظیر سے ملا تو میرا ان کے بارے میں نقطۂ نظر یکسر تبدیل ہو گیا۔ میں نے بے نظیر کو بہت محب وطن اور nationalist پایا۔ جب 88ء میں جب پی پی کی حکومت بننے جارہی تھی تو کراچی کے ایک گھر میں بے نظیر بھٹو سے ملاقات ہوئی جو تین گھنٹے پر محیط تھی۔ پھر جب وہ وزیر اعظم نامزد ہوئیں تو آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر میں ایک تفصیلی بریفنگ ہوئی جس میں، میں نے انہیں سب باتیں (سیکیورٹی امور سے متعلق) بتا دیں اور یہ بھی بتا دیا کہ آئی جے آئی ہم نے بنائی تھی۔ اس کا یہ مقصد تھا۔ ہمارے یہ یہ تحفظات تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔ جنرل حمید گل کے بقول بے نظیر بہت برداشت والی (Tolerant) تھیں۔
س: عمران خان کے ساتھ بھی ملاقاتیں رہی ہوں گی۔ یہ تجربہ کیسا رہا؟
ج: اچھا یہ بھی بڑی دلچسپ بات ہے۔ عمران خان سے میری ملاقات 89ء سے تھی۔ سیاست میں آنے سے کئی سال پہلے سے۔ جب وہ سیاست میں آنے کی تیاری کررہے تھے، تب بھی گپ شپ رہتی تھی۔ جب نئے نئے سیاست میں داخل ہوئے تو انہیں سیاسی اصطلاحات کا بھی علم نہیں تھا۔ جب معراج محمد خان بھی ان کے ساتھ تھے۔ ایک مرتبہ میں ان سے انٹرویو کرنے گیا تو میں نے ان سے پوچھا۔ (انہی دنوں یوم مئی آنے والا تھا) کہ یوم مئی پر آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے تو ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ میں کیا بات کررہا ہوں۔ پھر ظاہر ہے معراج محمد خان نے بات سنبھال لی۔ پھر 97ء میں جب پہلی مرتبہ عمران خان نے الیکشن لڑا تو اس کے بعد ایک دن مجھ سے پوچھا کہ میرے جلسے میں اتنے سارے لوگ آتے ہیں، مگر ہمیں سیٹیں کیوں نہیں ملتیں۔ تو میں نے کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ آپ کو دیکھنے آتے ہیں یہ آپ کی Fan Fallowing ہے۔ لیکن عمران خان کا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے اپنی فین فالوئنگ میں تبدیلی کی۔ جن لوگوں کا سیاست سے کوئی تعلق یا دلچسپی نہیں تھی۔ وہ عمران خان کی وجہ سے اس طرف مائل ہوئے اور یہ ایک اچھا رجحان تھا۔ اس عرصے میں یہ ہوتا تھا کہ جب عمران کی کوئی پریس کانفرنس ہوتی تھی تو میں اور اویس توحید (ہم دونوں کو کرکٹ کا بھی شوق تھا) ہم دونوں عمران خان سے کرکٹ پر ہی بات کرتے تھے۔ تو ایک مرتبہ نعیم الحق (مرحوم) مجھے ایک طرف لے گئے کہ بھائی اب اس سے کرکٹ پر بات مت کرنا۔ سیاست پر کرو۔ اب یہ سیاست میں آگیا ہے۔ میں نے کہا یار وہ اتھارٹی تو کرکٹ پر ہے۔ خبر اسی سے نکلتی ہے۔ اچھا عمران بھی جب بعض اوقات کرکٹ کا کوئی ریفرنس دیتے تو میری طرف دیکھ کر کہتے کہ تم تو کرکٹ کو سمجھتے ہو۔ عمران خان سے جب پہلی مرتبہ میں نے ٹیلی ویژن کے لیے انٹرویو کیا تو اس زمانے میں، میں اے آر وائی میں ہوتا تھا۔ بعد میں انہوں نے جاتے ہوئے اسٹوڈیو سے تعریف کی کہ بڑا اچھا انٹرویو ہوا۔
س: مطلب اس وقت بھی اے آر وائی کی لائٹنگ ٹھیک تھی؟
ج: قہقہہ۔ نہیں۔ میں نے عمران خان سے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ کیا آپ نے اپنی پارٹی کا آئین پڑھا ہے؟ تو وہ ایک دم پریشان سے ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ میری پارٹی کے بڑے سینئر اور جید قانون دانوں نے یہ آئین بنایا ہے۔ میں نے کہا وہ تو میں جانتا ہوں۔ حامد خان وغیرہ بڑے نام ہیں۔ آپ بتائیں آپ نے پڑھا ہے۔ آپ تو پارٹی کے سربراہ ہیں؟ تو انہوں نے کہا نہیں میں نے نہیں پڑھا۔ یہ اس وقت انہوں نے بتایا تھا کہ جب تحریک انصاف کے آئین کو بنے دس برس ہو چکے تھے۔ خیر پھر دیگر سوالات ہوتے رہے۔ بعد میں کہنے لگے کہ میں یہ توقع بھی نہیں کررہا تھا کہ اس قسم کا کوئی سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جنرل اسد درانی (سابق آئی ایس آئی چیف) اور بریگیڈیئر امتیاز کے انٹرویو بھی بڑے دلچسپ رہے۔ ڈاکٹر قدیر کا انٹرویو دو تین حصوں میں تھا۔ اس انٹرویو سے بھی بڑا دلچسپ واقعہ جڑا ہوا ہے۔ جب ہم انٹرویو کرنے گئے اسلام آباد میں ان کے گھر۔ تو جب انٹرویو ختم ہو گیا تو ڈاکٹر صاحب کہنے لگے۔ ’’آپ یہ کیسٹ میرے پاس چھوڑ دیں۔ یہ میں آپ کو دفتر پہنچا دوں گا۔ ورنہ واپسی پر نکلتے ہوئے اس بات کا خدشہ ہے کہ کیسٹ آپ سے کوئی لے لے۔‘‘ خیر ہم نے کیسٹ ان کو دے دیا اور جب واپسی کے لیے نکلے تو آگے سیکیورٹی/انٹیلی جنس والے لوگ کھڑے تھے۔ اچھا ٹیلی ویژن کے جہاں فواد ہیں وہاں ایک نقصان disadvantage یہ بھی ہے کہ آپ پہچانے جاتے ہیں۔ اپنی شناخت چھپا نہیں سکتے۔ تو ایک انٹیلی جنس اہلکار مجھے دیکھ کر مسکرایا اور کہنے لگا آپ کو ڈاکٹر صاحب نے کیسٹ تو نہیں دیا ہو گا۔ لیکن ہم بھی اپنی ڈیوٹی کرتے ہیں۔ تو خیر ظاہر ہے اتنی بڑی اور حساس نوعیت کی شخصیت کا سیکیورٹی پروٹوکول تو ہوتا ہے جس کو فالو کرنا پڑتا ہے۔
س: صحافتی زندگی کے دلچسپ اور سنسنی خیز واقعات؟
ج: ایونٹ بہت دیکھنے کو ملے۔ ہم نے دیکھا کہ بے نظیر بھٹو کس طرح انڈر گرائونڈ رہ کر (مارشل لا دور میں) اچانک کس مظاہرے میں شریک ہو جاتی تھیں اور سیکیورٹی اہلکار ششدر رہ جاتے تھے۔ لیاری میں احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے تو پولیس نے ستر کلفٹن کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ مگر کئی گھنٹے بعد پتہ چلتا ہے کہ بے نظیر تو لیاری کے کسی گھر سے نکل کر احتجاج میں شریک ہو جاتی ہیں۔ میں نے بزنجو صاحب کی پہلے بات کی تھی تو ان کی شخصیت میں ٹھہرائو بہت تھا۔ کسی کے حوالے سے بھی کوئی مخاصمت نہیں رکھتے تھے۔ اسی طرح نوابزادہ نصراللہ خان کی شخصیت نے بہت متاثر کیا۔ ایئر مارشل اصغر خان کا انٹرویو بہت دلچسپ تھا۔ معلومات سے بھرپور۔ ان کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہوتا تھا۔ جنرل مرزا اسلم بیگ اپنے انٹرویو میں ہر موضوع پر بات کرتے تھے سوائے مہران بینک اسکینڈل کے۔ غلام مصطفی جتوئی کا انٹرویو بھی بڑا دلچسپ رہا جس میں انہوں نے پہلی بار مجھے بتایا کہ 1990ء کے الیکشن کی منصوبہ بندی کیسے ہوئی اور کس طرح انہیں مکھن میں سے بال کی طرح نکال دیا گیا۔ جب الیکشن ہوئے تو اس سے پہلے سی او پی (Combined Opposition Parties) نامی اتحاد بن گیا تھا۔ جتوئی کے مطابق ہماری باہمی انڈر اسٹینڈنگ کچھ ایسی تھی کہ میں وزیراعظم بنوں گا۔ اسلم بیگ صدر بنیں گے ریٹائرمنٹ کے بعد اور نواز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ ہوں گے۔ مگر ہوا اس کے برعکس۔ طے ہوا کہ پشاور سے کراچی تک COP کا جلوس نکالا جائے گا۔ تو جب صوبہ سرحد (موجودہ کے پی کے) سے جلوس پنجاب میں داخل ہوا تو دو جگہ جلسوں میں وزیراعظم نواز شریف کے نعرے لگ گئے۔ اس زمانے میں، میں عبوری وزیراعظم تھا۔ تو جب غالباً ملتان یا رحیم یار خان میں بھی اسی قسم کے نعرے لگے تو میں نے اپنے ADC کو بلایا اور کہا کہ میرا کراچی کا ٹکٹ کرا دو کیونکہ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ کہانی کچھ اور ہے اور پھر الیکشن میں کچھ ایسا ہوا کہ میرے گروپ کے سارے لوگ الیکشن ہار گئے۔ اچھا خود جتوئی صاحب بھی اپنی نشست سندھ سے ہار گئے تھے۔ بعد میں میاں نواز شریف نے انہیں پنجاب سے لڑوا کر الیکشن جتوایا۔ تو اس طرح کی ایک پوری تاریخ ہے پاکستان کی، جو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے اور ہم بطور صحافی ان واقعات کے ایک لحاظ سے عینی شاہد رہے ہیں۔ بعض واقعات جیل سے متعلق ہیں۔ مثال کے طور پر مہران بینک اسکینڈل کا مرکزی کردار یونس حبیب جیل میں تھا۔ اس زمانے میں واجد رانا سیکریٹری داخلہ سندھ تھے تو انہوں نے بتایا کہ جب یونس حبیب کے حوالے سے رپورٹ جارہی تھی تو وہ جو قیدیوں کی سزائوں میں تخفیف کی جاتی ہے ان کے اچھے طرز عمل (Conduct) کی بنیاد پر۔ تو اس میں مریضوں کے لیے خون دینے کا کارخیر بھی شامل تھا جو ریکارڈ کے مطابق یونس حبیب نے کئی بار انجام دیا تھا۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ بلڈ گروپ مختلف تھے۔ اب ظاہر ہے کہ ایک ہی آدمی کے مختلف بلڈ گروپ تو ہو نہیں سکتے (قہقہہ)۔