سجاد عباسی
س: مظہر صاحب آپ نے ٹریڈ یونین میں طویل عرصہ گزارا۔ اہم عہدوں پر رہے اور سرگرم کردار ادا کیا، مگر پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو بھی مقدم رکھا۔ عام طور پر یونین میں سرگرم صحافی صحافت کو سائیڈ پر رکھ دیتے ہیں، تو یہ توازن کیسے قائم ہوا؟
ج: دیکھیں وزن تو قائم کرنا پڑتا ہے۔ ہم نے اپنے سینئرز سے سیکھا اور میں جونیئرز سے بھی یہی کہتا ہوں کہ آپ ایک اچھے پروفیشنل بنیں گے تو اچھے ٹریڈ یونینسٹ بھی ثابت ہوں گے۔ مگر بدقسمتی سے گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں اس حوالے سے بہت Decline آیا۔ پھر یونین میں جو لوگ آئے انہوں نے اسے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ دوسری طرف آپ ان کی پیشہ ورانہ استعداد دیکھیں تو بہت کمزور نظر آتی ہے۔ چند ایک کو چھوڑ کر۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ آپ پیشہ ورانہ طور پر مضبوط ہوں گے تو ٹریڈ یونین کا کیس زیادہ مضبوطی سے پیش کر سکیں گے۔ جیسے عبدالقدوس شیخ مرحوم تھے۔ ان کی ٹائم منیجمنٹ ایسی تھی کہ وہ صبح آکر نیوز روم میں کام کرتے تھے اور شام کو ٹریڈ یونین کرتے تھے۔ وہ ہیرالڈ ورکرز یونین کے صدر بھی رہے اور پھر رات کو تبلیغ بھی کرتے تھے۔ وہ اتنی ورسٹائل شخصیت کے مالک تھے۔ ایک واقعہ بھی ہو گیا ایک بار نیوز روم میں ایک ساتھی کا ان سے جھگڑا ہو گیا۔ انہوں نے غصے میں جاکر ان کی داڑھی پکڑ لی تو ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ تو منیجمنٹ نے کہا کہ ہم اس بدتمیزی کرنے والے شخص کو ادارے سے نکال دیتے ہیں۔ مگر شیخ صاحب اس میں رکاوٹ بن گئے۔ انہوں نے کہا نہیں۔ ٹھیک ہے غصے میں اس نے یہ حرکت کر دی مگر اس کی سزا میں اس کے خاندان کو نہیں دینا چاہتا۔
اسی طرح نثار عثمانی صاحب تھے۔ پروفیشنلی بہت مضبوط تھے۔ ضیا الحق کی پریس کانفرنس میں سب سے سخت سوال انہیں کا آتا تھا۔ تو ایک آدھ پریس کانفرنس میں انہوں نے سوال نہیں پوچھا تو ضیا الحق نے خاص طور پر ان کی خیریت دریافت کی۔ منہاج برنا اور نثار عثمانی صاحب کا ایک واقعہ غالباً مشرقی پاکستان کا ہے۔ بلکہ بھٹو کی جانب سے بنگلہ دیش کو منظور کرنے کا فیصلہ جب ہوا۔ تو اس زمانے میں عثمانی صاحب ڈان میں تھے اور برنا صاحب کسی دوسرے اخبار میں کام کرتے تھے، مگر رہتے زیادہ تر ساتھ ہی تھے۔ تو ڈان میں Exclusive خبر چھپی کہ پاکستان بنگلہ دیش کو تسلیم کر رہا ہے۔ تو برنا صاحب نے بتایا کہ اگلے روز میں نے عثمانی کو پکڑا کہ کل تم اور میں پورا دن ساتھ رہے اور تم نے مجھے اس خبر کی ہوا بھی نہیں لگنے دی تو اس نے کہا ہمارا ٹریڈ یونین کا ساتھ ہے۔ کام اپنا اپنا۔
س: اچھا آپ کی کون سی بڑی اسٹوریز کو شہرت ملی، یا جس سے آپ کے کیریئر کو Boost ملا ہو؟
ج: مجھے اس حوالے سے ریکارڈ جمع کرنے کا زیادہ شوق نہیں ہے, لیکن کچھ چیزوں کا ریکارڈ موجود ہے اور کچھ حافظے میں محفوظ ہیں۔ مثال کے طور پر ایک اسٹوری تھی۔ لیبیا کے لیے جے یو پی کی Mercenaries (کرائے کے فوجی) اس میں باقاعدہ دفتر خارجہ کا بیان شامل تھا۔ مگر اس پر کافی تنازع (Controversey) پیدا ہوئی تھی. دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ خبر میری بائی لائن (نام کے ساتھ) تھی۔ اس میں دفتر خارجہ کا لیٹر بھی شامل تھا جو متعلقہ حکام کو بھیجا گیا تھا۔ مگر اس حوالے سے مزے کا واقعہ یہ ہے کہ اسی شام مولانا شاہ احمد نورانی کے گھر پر افطار پارٹی تھی۔ یہ افطار پارٹی وہ ہر سال صحافیوں کے اعزاز میں دیا کرتے تھے جس میں سیاسی شخصیات بھی شریک ہوتی تھیں۔ مولانا کی مشفق شخصیت اور ذاتی تعلق کی بنا پر دیگر تمام سیاست دانوں کی نسبت ان کی دعوت میں لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوتے تھے۔
یہ 88ء کا واقعہ ہے۔ میں اور ادریس بختیار صاحب ایک ساتھ افطار میں گئے۔ مولانا بڑے کمال انسان تھے۔ پرتپاک انداز سے ملے۔ جب ہم واپس جانے لگے تو ادریس بختیار کی طرف دیکھ کر مولانا نے کہا۔ ’’یہ (خبر) جماعت اسلامی کی سازش لگتی ہے۔‘‘ (ادریس صاحب کی جماعت سے قربت زیادہ تھی) جواباً انہوں نے کہا کہ مولانا یہ میری خبر نہیں ہے اور جس (مظہر عباس) کی ہے اس کے نام سے چھپی ہے۔ مولانا کہنے لگے ہمیں ان لوگوں کے Tactics کا پتہ ہے۔ بعد میں ادریس صاحب بھی ہنستے رہے کہ یار میرا اس خبر سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں اور مولانا نے میرے سر ڈال دی۔ پھر کھٹمنڈو میں پی آئی اے کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی خبر تھی۔ اسی طرح چیف جسٹس جساد علی شاہ کے دور میں سپریم کورٹ اور حکومت کے درمیان کشیدہ تعلقات کو کور کیا۔ سیف الرحمن کے احتساب بیورو کے حوالے سے بعض خبریں تھیں۔ شاہراہ فیصل پر واقع عوامی مرکز کے پلاٹ کی سستے داموں الاٹمنٹ کی خبر بڑی مشہور ہوئی تھی۔ اس پر پیپلزپارٹی والے سخت ناراض ہوئے۔ بعد میں اسی کیس میں جسٹس نظام کا قتل بھی ہو گیا تھا۔ میں اسٹار کے علاوہ فرائیڈے ٹائمز اور ہیرالڈ کے لیے بھی کام کرتا تھا۔ تو میں نے پرنٹ میڈیا میں بہت انجوائے کیا۔ بے نظیر بھٹو جب واپس آئیں تو ان کے جلوس کو کور کیا۔
اگر آپ میرے کیریئر کی بڑی اسٹوریز کی بات کریں تو ایسی درجنوں ہیں، مگر ایک اسٹوری کے نہ چھپنے کا مجھے بہت افسوس ہے جو بعد میں کامران خان نے بریک کی تھی اور وہ تھی مہران بینک اسکینڈل۔ اس سے کافی پہلے میں اسٹوری تیار کر کے ہیرالڈ میگزین کے ایڈیٹر کو دے چکا تھا۔ غالباً اس وقت شیری رحمن (موجودہ پی پی رہنما) مدیر تھیں۔ اس وقت میگزین کی کاپی پریس جانے والی تھی اور پھر اس کے ایک ماہ بعد نیا شمارہ آنا تھا۔ انہوں نے کہا ہم اگلے شمارے میں دے دیں گے۔ میں سمجھ گیا تھا کہ اب اسٹوری گئی کیونکہ اخبار تو روز نکلتے تھے۔ تو وہ کامران خان کے حصے میں آئی اور انہوں نے دھوم مچا دی۔ میرے پاس تمام آڈیو ثبوت بھی آگئے تھے۔ ادریس بختیار بھی ہیرالڈ میں ہوتے تھے۔ میں ان سے بھی اپنی اسٹوری ضرور ڈسکس کرتا تھا۔
س: یہ تو پاکستانی میڈیا کی بات ہو گئی۔ آپ نے غیر ملکی میڈیا میں کافی کام کیا۔ یہ تجربہ کیا تھا؟
ج: جب میں فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی میں گیا تو صحیح معنوں میں مجھے وہاں جرنلزم کا مزہ آیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر ملکی ادارے میں جاکر آپ کو بطور رپورٹر اپنے ذرائع (Contacts) کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ آپ کے پاس وقت محدود ہوتا ہے۔ ایک خاص ڈیڈ لائن ہوتی ہے خبر فائل کرنے کے لیے۔ ایک بڑی اسٹوری جو مجھے یاد ہے وہ آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کے استعفے کی تھی، جو میں نے بریک کی تھی۔ اسی طرح جب ایٹمی دھماکہ ہوا تو میں اس سے چند روز پہلے ایک بزنس مین دوست کے گھر بیٹھا ہوا تھا۔ یہ تاجروں کی محفل تھی۔ تو وہاں بات یہ ہو رہی تھی کہ میں نے اتنے لاکھ ڈالر نکلوا لیے ہیں کیونکہ آگے ممکنہ ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے ڈالر فریز (Freeze) ہونے والا ہے تو جس دن دھماکہ ہوا اس دن اسٹار کی ہیڈ لائن تھی (Punjab Businessman has Advance Knowledge) تو اس پر کافی لے دے ہوئی۔ پھر بہت سے عدالتی کیسز ہیں جن کی اسٹوری ہٹ ہوئی۔ ایک اسٹوری ایسے شخص کی تھی جو 27 برس سے جیل میں تھا اور اس دوران اس کو کبھی بھی کورٹ میں پیش نہیں کیا گیا تھا۔ پھر امریکی صحافی ڈینیل پرل کے قتل کیس کی اسٹوری بہت چلی۔
اس حوالے سے بھی بڑے مزے کا واقعہ ہے کہ ڈینیل پرل کیس کا ٹرائل پہلے کراچی سینٹرل جیل میں ہو رہا تھا پھر حیدرآباد جیل شفٹ ہو گیا تو جیل کے اندر جانا مسئلہ تھا۔ سماعت کے بعد باہر آکر لائرز بریف کرتے تھے۔ تو انہی پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ تو جب کیس کے فیصلے کا مرحلہ آیا تو اب مسئلہ یہ تھا کہ حیدرآباد جیل میں جان پہچان تھی نہیں۔ کراچی میں اس زمانے میں امان اللہ نیازی جیلر ہو گئے تھے جن کا بعد میں قتل ہو گیا۔ آئی جی جیل خانہ جات بریگیڈیئر نثار اور ہوم سیکریٹری بریگیڈیئر مختار ہوتے تھے۔ آئی جی سے ہماری دوستی تھی۔ میں ان کے دفتر چلا گیا اور ان سے کہا کہ کسی طرح فیصلے والے دن حیدرآباد جیل میں انٹری کرا دیں تو ہنس کر کہنے لگے ویسے جیل میں انٹری کرا دیتا ہوں۔ میں نے کہا کوئی اعتراض نہیں اگر اس سے کوئی خبر نکل آئے تو۔ پھر کہنے لگے بڑا مشکل ہے۔ میں نے کہا آپ ایک کام تو کر سکتے ہیں جو آپ کے اختیار میں ہے۔ امان اللہ نیازی کو ایک ہفتے کے لیے حیدرآباد جیل ٹرانسفر کر دیں پھر ایسا ہی ہوا۔ نیازی صاحب کا تبادلہ ہو گیا اور ہم نے اندر جانے کے لیے ان سے سیٹنگ کر لی۔ اب چونکہ کیس ہائی پروفائل تھا۔ ہم ایک رات پہلے حیدرآباد پہنچے تو پورا عالمی میڈیا وہاں جمع تھا۔ سب جیل کے سامنے والے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ پہلے ہم نے کوشش کی کسی طرح جیلر کی گاڑی میں چھپ کر اندر چلے جائیں پھر پتہ چلا حساس اداروں کی سخت چیکنگ ہے۔ ہم نے پھر آئی جی کو پیغام بھجوایا تو جواب آیا کہ آپ لوگوں میں سے ایک شخص دوسرے گیٹ سے اندر چلا جائے۔ میں نے ساتھی رپورٹر کو اندر بھیج دیا تاکہ اگر شیخ عمر کو سزا یا ایسا کچھ ہو تو وہ فوراً مجھے آگاہ کرے اور میں اپنے ہیڈ آفس کو فوری اطلاع دوں کیونکہ بین الاقوامی طور پر شیخ عمر کی اہمیت تھی۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ باقی اسٹوری تیار تھی۔ ہم نے صرف انٹرو دیا اور سیکنڈوں میں پوری دنیا میں خبر ہٹ ہو گئی۔