کراچی: جامعہ کراچی "کے الیکٹرکـ’’ کی 10 کروڑ کی نادہندہ نکلی،ستمبر 2022 کے 6 کروڑ روپے جب کہ نومبر کے تقریبا 4 کروڑ روپے کی ادائیگیاں ابھی باقی ہیں۔ شدید مالی بحران کے باوجود یونیورسٹی کے کھاتے سے ملازمین کے گھروں میں استعمال ہونے والی بجلی کے کروڑوں روپے کے بل ادا کررہی ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق جامعہ کراچی کے کیمپس میں مقیم ملازمین مجموعی طور پر بجلی کے بلوں کی مد میں 20 لاکھ روپے ماہانہ ادائیگی کے عوض تقریبا 4 کروڑ روپے کی بجلی خرچ کررہے ہیں تاہم بل کی اصل رقم کی کروڑوں روپے کی ادائیگی یونیورسٹی خزانے سے کی جاتی ہے۔
جامعہ کراچی کے حالیہ مالی بحران میں یونیورسٹی انتظامیہ اس وقت تقریبا 10 کروڑ روپے کی “کے الیکٹرک” کی نادہندہ ہے اور ستمبر 2022 کے 6 کروڑ روپے جب کہ نومبر کے تقریبا 4 کروڑ روپے کی ادائیگیاں ابھی باقی ہیں تاہم جامعہ کراچی میں فنانشل منیجمنٹ کے فقدان کے سبب اب تک اساتذہ و ملازمین کو تنخواہیں دی جاسکی ہیں اور نہ ہی قائم مقام ڈائریکٹر فنانس بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے سلسلے میں کوئی راہ حل تلاش کرسکے ہیں جس سے جامعہ کراچی بدترین مالی بحران کی جانب جاچکی ہے۔
بتایا جارہا ہے کہ جب سے ڈائریکٹر فنانس کی مدت ملازمت ختم ہوئی ہے اور وہ تاحکم ثانی کے نکالے گئے نوٹیفیکیشن کے تحت کام کررہے ہیں اس وقت سے ان کی منصبی معاملات میں دلچسپی کم ہوتی جارہی ہے وہ مختلف فائلوں پر اعتراض لگا کر اسے سندھ حکومت کے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز سے رائے طلب کرنے کی تجویز دے دیتے ہیں۔
ادھر جامعہ کراچی کے ایک مالیاتی افسر نے “ایکسپریس” کو بتایا کہ بجلی کے بل کی مد میں جامعہ کراچی کے اکیڈمک ایریا اور انتظامی دفاتر کا حصہ 30 فیصد سے زیادہ نہیں ہوتا باقی تمام رقم کیمپس میں رہائش پذیر ملازمین کے گھروں میں خرچ ہونے والی بجلی کی مد میں واجب الادا ہے تاہم ملازمین کے دباؤ پر اب تک کوئی بھی انتظامیہ کیمپس کے گھروں میں بجلی کے میٹرز کی تنصیب نہیں کر پائی ہے۔
جامعہ کراچی کی انتظامیہ کیٹگری کی بنیاد پر کیمپس کے گھروں سے 2 ہزار سے 6 ہزار روپے یا اس سے کچھ زائد رقم فی گھر وصول کرتی ہے جب کہ گھروں میں ہزاروں روپے کی بجلی خرچ کی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت جامعہ کراچی کی انتظامیہ محض تنخواہوں و پینشن کی مد میں 40 کروڑ روپے ماہانہ ادا کررہی ہے جس میں 30 کروڑ روپے تنخواہوں اور 10 کروڑ روپے پینشن کے ہیں یہ تنخواہیں جاری نہ ہونے کے سبب انجمن اساتذہ کی کال پر اساتذہ تدریسی بائیکاٹ پر ہیں اور اس کا ذمے دار سندھ حکومت کی جانب سے گرانٹ کے اجراء میں تاخیر کو سمجھتے ہیں۔
اس سلسلے میں سندھ حکومت کے سیکریٹری محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کا کہنا تھا کہ “تنخواہوں و پینشن کی ادائیگی کسی بھی وقت سندھ حکومت کی ذمے داری نہیں رہی، یہ ذمے داری دراصل وفاقی ایچ ای سی کی ہے تاہم اساتذہ اس سلسلے میں حکومت سندھ کے خلاف استعمال ہورہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے تو جامعات کی گرانٹ 15 بلین تک بڑھادی ہے، اس رقم کا تنخواہوں سے تعلق ہی نہیں ہے جب کہ وفاق نے گرانٹ نہیں بڑھائی پھر بھی احتجاج ہمارے خلاف ہوتا ہے۔
سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نے یونیورسٹی کے فنانس کے ذمے داروں کے حوالے سے سوال کیا کہ آخر تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے رقم علیحدہ کیوں نہیں کی گئی۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ سندھ یونیورسٹی میں بجلی کے میٹرک لگ چکے ہیں جامعہ کراچی میں کیوں نہیں لگتے ایک نائب قاصد اپنے گھر میں چار اے سی چلاتا ہے اور بل ایک اے سی کے مساوی بھی ادا نہیں کرتا “علاوہ ازیں جب شیخ الجامعہ سے اس سلسلے میں دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سندھ حکومت کی گرانٹ اضافی اخراجات کے لیے ہے تنخواہوں کی ذمےداری اس کی نہیں ہے تاہم اب تنخواہوں اور بجلی کے بلوں کی مد میں دائیگیاں دگنی سے بھی زیادہ ہوچکی ہیں۔
ایک سوال پر شیخ الجامعہ کا کہنا تھا کہ ہم کوویڈ میں تجربہ کرچکے ہیں جب جامعہ کراچی کی اکیڈمکس بند تھی پھر بھی بجلی کے بلوں کی مد میں کوئی بڑا فرق نہیں آیا تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یونیورسٹی کے بجلی کے بل کا بڑا حصہ کیمپس کی جانب سے ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم سینڈیکیٹ میں یہ تجویز لے کر جارہے ہیں کہ یا تو گھروں میں سب میٹر لگائے جائیں یا ان کے ریٹ ریوائز کیے جائیں۔