محمد اطہر فاروقی:
پاکستان میں ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 2 لاکھ 10 ہزار سے تجاوز کر گئی۔ جبکہ غیر رجسٹرڈ کیسز کی تعداد اس سے دگنی ہو سکتی ہے۔ رجسٹرڈ مریضوں میں 41 ہزار خواتین اور ساڑھے 4 ہزار بچے بھی شامل ہیں۔ ایڈز سے گزشتہ ایک سال میں 9 ہزار 600 افراد انتقال کر چکے ہیں۔ صوبہ سندھ میں رواں سال 3 ہزار 515 نئے کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ جبکہ 17 ٹریٹمنٹ سینٹر قائم ہیں۔ صوبہ بھر میں مجموعی طور پر 19 ہزار766 ایچ آئی وی متاثرہ افراد رجسٹرڈ ہیں۔ ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کے بنیادی اسباب ہم جنس پرستی، تھیلسیمیا، ہیموفیلیا کے مریض، غیرمعیاری خون کی منتقلی اور استعمال شدہ سرنجوں کا استعمال ہے۔ انفیکشن کنٹرول سوسائٹی پاکستان کے صدر پروفیسر ڈاکٹر سید شرف علی شاہ کے مطابق دنیا بھر میں ہر دو منٹ میں ایک شخص ایڈز سے متاثر ہوتا ہے۔ ہر ایک منٹ میں ایڈز سے موت واقع ہوتی ہے۔ ماہرین کے بقول ایڈز کا شکار ہونے والوں میں زیادہ تر ہم جنس پرست، خواجہ سرا اور استعمال شدہ آئی وی سرنج استعمال کرنے والے شامل ہیں۔ اگرچہ یہ ایک جان لیوا مرض ہے۔ تاہم ایچ اے آر ٹی تھراپی باقاعدگی سے کی جائے اور وائرل ریشو کو کم کیا جائے تو خود بخود انسان کے دفاعی سیلز بڑھنے لگ جاتے ہیں اور وہ ایڈز کی صورتحال سے باہر نکل آتا ہے۔
پاکستان میں ایڈز کے مریضوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ’’امت‘‘ کو حاصل اعداد و شمار کے مطابق 2021ء تک پاکستان میں ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 2 لاکھ 10 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ جس میں سب سے زیادہ تعداد ایک لاکھ 70 ہزار مرد اور خواجہ سراؤں کی ہے۔ جبکہ 41 ہزار خواتین اور 4 ہزار 600 بچے بھی شامل ہیں۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر کمیونیکیبل ڈیزیز کنٹرول ایچ آئی وی ایڈز ڈاکٹر ارشاد کاظمی کے بقول صوبہ سندھ میں 2022ء میں دس لاکھ سے زائد افراد کا ایچ آئی وی اسٹیٹس معلوم کرنے کے لیے اسکریننگ کی گئی تھی۔ جن میں سے 3 ہزار 515 نئے کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ یوں مثبت کیسز کی شرح 0.34 فیصد بنتی ہے۔ جبکہ اس وقت سی ڈی سی ایچ آئی وی کے پاس سندھ بھر کے 19 ہزار 766 ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد رجسٹرڈ ہیں۔ گزشتہ روز پریس کلب میں انفیکشن کنٹرول سوسائٹی پاکستان کے صدر پروفیسر ڈاکٹر سید شرف علی شاہ نے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال دنیا بھر میں ہر دو منٹ میں ایک شخص ایچ آئی وی سے متاثر ہوا اور ہر ایک منٹ میں ایک شخص ایڈز کی وجہ سے ہلاک ہوا۔ پاکستان میں اس بیماری کے پھیلاؤ کی شرح 0.2 فیصد تھی۔ گزشتہ سال اس وائرس کی وجہ سے 9 ہزار 600 اموات ہوئیں۔ جبکہ گزشتہ 10 برس میں پاکستان میں 84 فیصد اضافہ ہوا اور 25 ہزار نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔
ایڈز کے مہلک مرض میں محض کراچی میں 15 سوسے زائد خواجہ سرائوں کے مبتلا ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ جس کی تصدیق خواجہ سرا رہنما شہزادی بھی کر چکی ہیں۔ ان کے بقول صرف کراچی میں 19 ہزار خواجہ سرا موجود ہیں۔ جن میں 1500 خواجہ سرا ایچ آئی وی پروگرام میں رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں سے 1300 کو علاج کی سہولیات مہیا کی جارہی ہے اور 200 خواجہ سرا کاؤنسلنگ کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ کراچی میں ایڈز کیلئے قائم کمیونیکیبل ڈیزیز کنٹرول سے حاصل معلومات کے مطابق اس وقت سندھ میں ایچ آئی وی کے مریضوں کے علاج کیلئے 17 سینٹرز موجود ہیں۔ صوبے میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی تلاش کیلئے اسکریننگ بڑھادی گئی ہے۔ جو ہزاروں سے اب لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ ایک سال کے دوران ساڑھے 10 لاکھ افراد کی اسکریننگ کی گئی۔ اسکریننگ بڑھانے کے نتیجے میں ایک سال کے دوران سندھ میں مزید 3 ہزار 515 نئے مریض رپورٹ ہوئے۔ جن کا علاج شروع کردیا گیا ہے۔
جناح اسپتال کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عمر سلطان نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’’میں نے سعودی عرب کے ایک اسپتال میں ایڈز پروگرام کے تحت کام کیا ہے ۔ پاکستان میں ایڈز کی شرح جو بڑھی۔ اس کی وجہ ان سیو بلڈ ٹرانسفیوژن تھی۔ پھر لاڑکانہ میں دیکھا گیا کہ وہاں بچوں میں ان اسکرین بلڈ ٹرانس کے استعمال سے ہوا۔ جبکہ نوجوانوں میں ایڈز بڑھنے کی وجہ غیر ازدواجی معاملات ( ایکسٹرا میریٹل افیئرز) تھے۔ اس کے علاوہ ایڈز کے اضافے کی دیگر وجوہات میں ہم جنس پرستی وغیرہ شامل ہیں۔ ایڈز کا شکار ہونے والوں میں زیادہ تر ہم جنس پرست، خواجہ سرا اور آئی وی ڈرگز استعمال کرنے والے شامل ہوتے ہیں‘‘۔ ایک سوال پر ڈاکٹر عمر سلطان نے کہا کہ ’’ایڈز میں مبتلا مریض کا بہتر طریقے سے علاج کیا جانا چاہیے۔ ایچ اے آر ٹی تھراپی باقاعدگی سے کی جائے اور وائرل ریشو کو کم کیا جائے تو خودبخود انسان کے دفاعی سیلز بڑھنے لگ جاتے ہیں اور وہ ایڈز کی صورتحال سے باہر نکل آتا ہے۔ اگر ادویات باقاعدگی سے استعمال کریں تو 70 سے 80 فیصد نوجوان مریض جلد صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ ایڈز کے مریض میں اگر دفاعی سیلز 200 سے کم ہوجائیں تو موت کے امکانات 90 فیصد سے بڑھ جاتے ہیں۔
ایڈز کے مریضوں کے علاج کیلئے سب سے ضروری ایچ اے آر ٹی تھراپی اور تین قسم کی ادویات جو فارمولا بناکر دی جاتی ہیں، اس سے مریض صحت یاب ہوتے ہیں۔ یہی ایڈز کا علاج بھی ہے‘‘۔ گزشتہ روز ایڈز کے حوالے سے محکمہ صحت سندھ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کمیونیکیبل ڈیزیز کنٹرول ایچ آئی وی ایڈز ڈاکٹر ارشاد کاظمی نے بتایا کہ اس وقت سی ڈی سی ایچ آئی وی کے پاس صوبہ بھر کے 19 ہزار 766 ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد رجسٹرڈ ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں ایچ آئی وی مثبت کیسز کی تعداد 2 لاکھ 10 ہزار ہے۔ جن میں سے 50 فیصد پنجاب اور 43 فیصد سندھ میں ہیں۔ 2 لاکھ دس ہزار کا 43 فیصد 90 ہزار 300 بنتا ہے۔ جن میں سے 19 ہزار 766 ہمارے پاس رجسٹرڈ ہیں جو 22 فیصد ہے۔ ڈاکٹر ارشاد کاظمی نے کہا کہ اس کا مطلب ہے باقی لوگ تو اسی معاشرے میں موجود ہیں۔ جنہیں اپنا اسٹیٹس معلوم نہیں۔ یا اگر معلوم ہے تو وہ اسے بدنما داغ سمجھتے ہیں اور اس خوف کی وجہ سے سامنے آنے کو تیار نہیں۔
ایک سوال پر ایڈیشنل ڈائریکٹر کمیونیکیبل ڈیزیز کنٹرول کا کہنا تھا کہ پہلے سندھ میں 16 ٹریٹمنٹ سینٹر تھے۔ حال ہی میں مزید ایک ٹریٹمنٹ سینٹر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت شروع کیا ہے۔ اس طرح یہ تعداد 17 ہوگئی ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اتائی پھر واپس آگئے ہیں اور اب بھی یہ خطرہ موجود ہے کہ ان اتائیوں کی وجہ سے دوبارہ ایچ آئی وی پھیل سکتا ہے۔ ہم لوگوں کو آگہی دے رہے ہیں کہ وہ اتائیوں کے پاس جانے سے گریز کریں۔ سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کو ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ ایک اور سوال پر ڈاکٹر ارشاد کاظمی نے بتایا کہ ’’ایچ آئی وی کے پھیلائو میں اتائی ڈاکٹر، غیر معیاری انتقال خون اور پھر سیکس ورکرز کا اجتماعی کردار ہوتا ہے۔ میں کسی ایک کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہراؤں گا۔ لیکن پھر وہی بات کہ عام لوگوں میں ایچ آئی وی کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے‘‘۔