برلن: جوڑوں کا درد اور گٹھیا کے مرض کا پھلاؤ روز بروز بڑھتا جارہا ہے ، جرمن ماہرین نے اس مرض کے شکار افراد کی ٹیڑھی انگلیوں سے ہونے والی مشکلات کو حل کرنے کیلئے تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی وضع کی ہے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اس نئی ایجاد سے کروڑوں افراد کو راحت پہنچائی جا سکتی ہے۔اس ایجاد کو فنگر کٹ کا نام دیا گیا ہے اس سے قبل جوڑوں کے درد میں زیادہ دیر گھٹنوں اور کولہے کی ہڈیوں پر ہی زور دیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اب جرمنی کے فرہونِفر انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں نے انتہائی مجروح انگلیوں کے ہر حصے کی ساخت کے لحاظ سے مصنوعی ذہانت اور تھری ڈی پرنٹنگ کی بدولت مختلف مصنوعی ہڈیاں، جوڑ اور پیوند بنائے ہیں۔
سیلیکون کے بجائے دھات کے استعمال سے بار بار سرجری کی ضرورت نہیں پڑے گی
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسی طریقے سے حادثے کے شکار ہونے والے افراد کے ہاتھوں اور انگلیوں کا علاج بھی کیا جاسکتا ہے۔فرون ہوفر انسٹی ٹیوٹ کے مطابق متاثرہ انگلیوں میں گھٹیا کے مریضوں کو اکثر سلیکون ٹکڑے لگائے جاتے ہیں لیکن وہ وقت کے ساتھ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں جس کے لیے بار بار سرجری کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر ہڈیوں کے جوڑ یکساں سانچے کے ہوتے ہیں اور حسبِ ضرورت انہیں چھوٹا یا بڑا نہیں کیا جاسکتا۔ جس سے انگلیوں کی مکمل حرکات بحال نہیں ہوپاتیں۔
انہتائی تیزی سے مصنوعی ہڈیاں بنائی جا سکیں گی
اس نئی ایجاد کی مدد سے متاثرہ یا ٹیڑھی انگلیوں کے ایکس رے لے کر اسے سافٹ ویئر میں ڈالا جاتا ہے۔ الگورتھم ہر جگہ کا مطالعہ کرکے ضرورت کے لحاظ سے تھری ڈی ماڈل بناتا ہے۔ اس ماڈل کو بعد میں تھری ڈی پرنٹر سے ڈھالا جاتا ہے ۔مصنوعی ہڈیوں اور جوڑ بنانے میں ٹائٹانیئم دھات استعمال کی جاتی ہے یہ پرنٹر اسی دھات کا استعمال کر کے ایک ٹھوس ہڈی یا انگلی کا حصہ تشکیل دے دیتا ہے ۔
ماہرین کے مطابق ٹائٹانیئم کے علاوہ بھی سرامکس اور دیگر مادوں سے انگلی اور ہاتھ کے جوڑ ڈھالے جاسکتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس طرح 60 فیصد تیزی سے مصنوعی ہڈیاں بنائی جاسکتی ہیں۔