فائل فوٹو
فائل فوٹو

’’توشہ خانہ اسکینڈل تاحال آدھا آشکار ہوا ہے‘‘

احمد خلیل جازم: دوسری و آخری قسط
رانا ابرار خالد سے یہ بھی پوچھا گیا کہ جن سفیروں کو تحائف کا ریکارڈ بتانے سے منع کیا گیا تھا، کیا تفتیش میں ان سے سوالات کیے جائیں گے کہ آپ نے تحائف کا ریکارڈ کس کے کہنے پر نہیں رکھا؟ تو رانا ابرار کا کہنا تھا کہ ’’دیکھیں، ایک بات آپ کو وضاحت سے بتا دوں کہ عمران خان نے جتنے ممالک کے دورے کیے اور انہیں تحائف ملے، انہیں رپورٹ نہیں کیا گیا۔ تمام سفیروں نے قانون کی خلاف ورزی کی۔ ایک ماہ پہلے مجھے ڈی جی نیب راولپنڈی نے دعوت دی تھی اور مجھ سے بریفنگ لی تھی۔ میں نے ان کے سامنے پہلا پوائنٹ یہی رکھا تھا کہ اس معاملے میں سب سے بڑی قانون کی خلاف ورزی یہی کی گئی کہ پاکستانی سفیر نے تحائف پر رپورٹ پیش نہیں کی، تو انہوں نے اس پوائنٹ کو اپنی تفتیش میں شامل کرلیا۔ اور انہوں نے کچھ سفیروں سے استفسار کے لیے خط لکھ دیے ہیں۔ جبکہ کچھ کو لکھ رہے ہیں۔ ان سے پوچھا جائے گا کہ آپ نے رپورٹ کیوں نہیں کیا؟ کیوں کہ اب توشہ خانے کا ریکارڈ اور دستاویز سامنے آچکی ہیں۔

الیکشن کمیشن کے ریفرنس کے ساتھ بھی کیبنٹ ڈویژن کا ڈاکومنٹ لگا دیا گیا ہے۔ یہ بات تو ناقابل تردید ہے کہ عمران خان اتنے اتنے تحائف ملے، لیکن وہ رپورٹ نہیں ہوئے۔ تو جو سچ ہوگا سفیر وہ لازمی بتائیں گے اور یہ سچ بہت اہم ہوگا۔ تحائف رپورٹ نہ کرنے کا مطلب ہے ان سے غلطی نہیں بلکہ بلنڈر ہوا ہے۔ جو سفیر ان خطوط کا جواب نہیں دے گا، اسے نیب لازمی طلب کرے گا۔ نیب یہ فارن آفس کے تھرو پوچھتا ہے۔ یہ معاملہ تھوڑا لمبا ہوگا، لیکن تفتیش ضرور ہوگی۔‘‘
رانا ابرار خالد سے پوچھا کہ کچھ روز قبل عطا تارڑ نے کہا تھا کہ کچھ ممالک کی طرف سے سابق وزیر اعظم عمران خان کو اربوں روپے کے ہیروں کے سیٹ سمیت بیش قیمتی تحائف اور بھی ملے تھے۔ کیا آپ کے علم میں پہلے یہ بات تھی اور آپ نے اس کا بھی ریکارڈ مانگا تھا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’’جی، میں نے پہلے دن ہی کہا تھا کہ اس معاملے کی بتدریج برتیں کھلتی جائیں گی۔ پہلے ہمارا خیال تھا کہ یہ پچاس سے ساٹھ کروڑ روپے تک کا اسکینڈل ہوگا۔ لیکن جوں جوں میری تفتیش آگے بڑھتی گئی، باقی صحافی دوست بھی اس پر کام کرنے لگے۔

پچھلے ہفتے تک معاملہ پونے تین ارب روپے کے تحائف کے خرد برد کا تھا۔ لیکن پھر یہ عقدہ کھلا کہ کچھ تحائف ایسے تھے جو مڈل ایسٹ کے حکمرانوں سے ملے تھے، صرف سعودی عرب سے ہی نہیں تھے۔ اور ان کا اندراج غلط کیا گیا۔ مطلب ایک ہیرے کی انگھوٹھی کو گولڈ رِنگ قراردیا گیا، جبکہ اس میں 7.5 قیراط کا ہیرا لگا ہوا تھا مگر اسے مینشن نہیں کیا گیا۔ عمران خان کے دورحکومت کے آخری سال میں کچھ تحائف ایسے ہیں، جن کی انٹری ہی نہیں کی گئی۔ چونکہ میرا ہائی کورٹ میں توشہ خانہ کا کیس چل رہا تھا تو اس وقت گورنمنٹ پر بہت پریشر تھا کہ انفارمیشن دی جائے تو عمران کے مشیروں نے اس کا حل یہ نکالا کہ تحائف کی انٹری نہ کی جائے۔ عطا تارڑ کی سربراہی میں اس حوالے سے جب کمیٹی بنا کر توشہ خانہ کا ریکارڈ منگوایا گیا، تو اس میں ایک ابہام تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کا وفد کسی ملک کے دورے پر گیا، تو اس میں وزیر خارجہ، وزیر اطلاعات سمیت دیگر جتنے لوگ وفد میں شامل تھے، سب کو قیمتی تحائف ملے تھے۔ ان کی انٹری موجود تھی، لیکن وزیراعظم عمران خان کے تحائف کی انٹری موجود نہ تھی۔ چنانچہ موجودہ حکومت نے تمام تر سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھ کر ان ممالک کو خطوط لکھے کہ وزیر اعظم عمران خان کو کیا کیا تحائف دیے گئے تھے؟ وہ انہوں نے بتا دیے۔ بلکہ جن تحائف کی انٹری غلط ہوئی تھی، ان کی بھی ان ممالک نے تصدیق کردی کہ یہ گولڈ رِنگ نہیں بلکہ ڈائمنڈ رنگ تھا۔ اس طرح مزید چیزیں سامنے آگئی ہیں۔ اب یہ معاملہ پانچ سے چھ ارب روپے تک جا پہنچا ہے اور میں آج آپ کو بتا دوں کہ ابھی میری معلومات کے مطابق توشہ خانہ کیس پچاس سے پچپن فیصد آشکار ہوا ہے۔ ابھی آدھا اسکینڈل سامنے آنا باقی ہے۔

یہاں میرے لیے ایک چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اربوں روپے کے اتنے قیمتی تحائف کی وجہ کیا تھی؟ کیوں کہ یہ ٹریک ماضی میں نہیں ملتا۔ ماضی میں انہی دوست ممالک میں، جب ہمارے وزرائے اعظم گئے، انہیں قیمتی تحائف تو ملے۔ لیکن انتہائی قیمتی تحائف نہیں دیئے گئے۔ مطلب لاکھوں کروڑوں روپے کے تحائف تو ملے، لیکن اربوں روپے کے تحائف نہیں دیئے گئے۔ ابھی بشریٰ بی بی کی جو آڈیو آپ سن رہے ہیں کہ ایم ایس ہمارے اوپر ٹرسٹ کرتا ہے، تو ان کی ایم ایس سے مراد محمد بن سلمان سعودی ولی عہد ہیں۔‘‘
رانا ابرار سے پوچھا گیا کہ آپ پر پی ٹی آئی یہ الزام لگاتی ہے کہ آپ کو پی ڈی ایم یا کسی بھی طرف سے اس معاملے میں کسی کی سپورٹ حاصل ہے؟ تو رانا ابرار خالد کا کہنا تھا کہ ’’جب میں نے توشہ خانہ پر کام شروع کیا تو حزب اختلاف کو معلوم ہی نہیں تھا۔ میں نے جب رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کوریکوئسٹ بھیجی، تو اس سے پہلے میں سیکریٹری کیبنٹ ڈویژن سے 23 نومبر 2020ء کو انفارمیشن مانگ چکا تھا۔ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017ء کے تحت ہر سرکاری محکمے کا سربراہ اس بات کا پابند ہے کہ دس دن میں مطلوبہ انفارمیشن دے دیں یا اس پر اعتراض لگا دیں۔ لیکن مجھے نہ انفارمیش ملی نہ ہی اعتراض لگایا گیا۔ پھر میں نے پاکستان انفارمیشن کمیشن میں اپیل کی اور 27 جنوری 2021ء کو میرے حق میں فیصلہ ہوا کہ سات دن کے اندر یہ انفارمیشن دی جائے۔ سیکریٹری انفارمیشن نے پھر بھی انفارمیشن نہ دی۔

جنوری کے آخر سے اپریل تک میں نے تین عمل درآمد کی درخواستیں انفارمیشن کمیشن کو دیں اور ہر درخواست پر انہوں نے شارٹ آرڈر جاری کیا کہ انفارمیشن دی جائے، لیکن کچھ نہ ملا۔ اپریل کے آخر میں سیکریٹری کیبنٹ ڈویژن سے ایک لیٹر انفارمیشن کمیشن کو ملا، جس میں انہوں نے انکار کردیا کہ ہم انفارمیشن نہیں دے سکتے۔ جنوری سے اپریل کے دوران مجھے میرے ادارے سے ٹرمینیٹ کردیا گیا۔ مجھے ایڈمن نے بتایا کہ فواد چوہدری کے دبائو پر ہم آپ کو نوکری سے نکال رہے ہیں۔ پھر میں نے مئی 2021ء میں نے رائیٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017ء کے تحت ایک توہین عدالت کی درخواست پاکستان انفارمیشن کمیشن کو دائر کردی، وہ یہ درخواست سن سکتے ہیں۔ جون میں سیکریٹری اور ڈپٹی سیکریٹری کیبنٹ کے نام کا شوکاز نوٹس جاری ہوگیا، جس کی سنوائی 8 جولائی 2021ء کو رکھی گئی۔ اس روز ڈپٹی سیکریٹری محمد احد جو توشہ خانہ کا انچارج بھی ہوتا ہے، وہ پیش ہوا۔ مجھ سے پہلے پہنچ کر ایک بند لفافہ انفارمیشن کمشنر کو دے کر کہا کہ یہ مطلوبہ انفارمیشن ہے، میری میٹنگ ہے۔ میری حاضری لگا کر مجھے جانے دیں اور اس معاملے کوختم کردیں۔ پھر وہ چلا گیا۔ جب مجھے یہ لفافہ دیا گیا تو میں نے وہ لفافہ ان کے سامنے ہی کھول دیا جس میں فقط ردی کاغذات تھے۔ وہ اتنا بڑا دھوکہ دے کر نکل گیا، میں نے اسی وقت درخواست دی کہ ڈپٹی سیکریٹری نے کمیشن کو گمراہ کیا ہے اور دھوکہ دیا ہے۔ اس کے خلاف کارروائی کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس پراب کمیشن بٹھا کر فیصلہ کریں گے۔ اس دوران کورونا کی وجہ سے آفس بند ہونے لگے۔ لہٰذا معاملہ تاخیر کاشکار ہوا۔ پھر 15ستمبر 2021ء کو حکومت پاکستان نے اٹارنی جنرل کے ذریعے ایک رٹ پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائی جس میں پاکستان انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کرکے اسے کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔ اور ساتھ ہی حکم امتناعی کی درخواست بھی جمع کرادی گئی۔ اس کی ہیرنگ20 ستمبر کو قرار پائی۔ اب آپ کو میں بتائوں کہ 23 نومبر 2020ء سے لے کر 20 ستمبر 2021ء تک یہ معاملہ چلتا رہا۔ آپ کہیں سے بھی تصدیق کرلیں، اس کی ایک چھوٹی سی خبر بھی کہیں شائع نہیں ہوئی۔ میں نے یہ معاملہ خفیہ رکھا۔

20 ستمبر 2021ء کوجب اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس گل حسن کی عدالت میں اس کی ہیئرنگ ہوئی تو تمام ہائی کورٹ کے بیِٹ رپورٹرز موجود تھے۔ انہیں تو ایسے کیسوں کی تلاش ہوتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس کی کاپیاں لے کر اپنے اداروں کو خبر بریک کردی کہ وفاقی حکومت عمران خان کے تحائف کی تفصیل دینے کا آرڈر رکوانے کے لیے ہائی کورٹ پہنچ گئی۔ یوں یہ معاملہ ہر کسی کے علم میں آگیا۔ آخر میں آپ کو یہ بتا دوں کہ پی ٹی آئی جو عمران خان کی نااہلی اپیل ہائی کورٹ لے کرگئی ہے، اس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے دو حصے ہیں۔ پی ٹی آئی نے جو چیلنج کیا ہے وہ الیکشن کمیشن کے اختیارات کو چیلنج کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کورٹ آف لا نہیں ہے، لہٰذا الیکشن کمیشن نااہلی کی سزا نہیں سنا سکتا۔ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے ڈیکلریشن کو چیلنج نہیں کیا، ڈیکلریشن یہ ہے کہ عمران خان نے اثاثے چھپائے۔ یعنی تحائف یا ان سے ملنے والی رقم۔ لیکن پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن ڈیکلریشن دے سکتا ہے اس پر سزا نہیں سنا سکتا، جو ڈیکلریشن ہے وہ ابھی تک چیلنج نہیںکیا گیا۔ اب ڈیکلریشن جو کہتا ہے قانون کے تحت، اس پر عدالتیں فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہیں اور قانون کے مطابق ہی فیصلہ ہوگا۔ چونکہ اب یہ کیس عدالتوں میں ہے، اس پر میں مزید کوئی بات نہیں کرسکتا۔‘‘