محمد علی:
بچپن سے سکھایا جاتا ہے کہ وقت کی پابندی بے حد ضروری ہے۔ تاہم عملی زندگی میں یہ بہت ہی کم نظر آتی ہے۔ بحیثیت پاکستانی پچیس سے تیس منٹ تاخیر ہمارے لیے کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں، جو بارہ بازہ گھنٹے لیٹ ہوجاتے ہیں۔ یہ ’’بادشاہ لوگ‘‘ مراکشی ہیں اور وقت کی پابندی نہ کرنے والی قوموں میں ان کا پہلا نمبر ہے۔ مراکش میں کسی بھی کام کیلئے ایک گھنٹہ سے ایک دن تک کی تاخیر معمول ہے۔
روایتی طور پر مراکش میں ملاقاتوں کیلئے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جاتا۔ صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا جاتا ہے کہ صبح، دوپہر یا شام میں ملتے ہیں۔ بہت سے مراکشی باشندے میٹنگ وغیرہ کیلئے اسلامک ٹائمنگ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً شام سے پہلے کوئی ملاقات کرنی ہو تو عصر کا ٹائم دیا جاتا ہے۔ ایک امریکی میڈیا پورٹل نے عادت کے ہاتھوں مجبور مراکشی باشندوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہاں کسی ذاتی میٹنگ کیلئے طے شدہ ’’مراکش ٹائم‘‘ ایک گھنٹے سے ایک دن تک کا بھی ہو سکتا ہے۔ ویسے تو اس معاملے میں مراکشی قوم کا کوئی ہم پلّہ نہیں۔ مگر ’’لیٹ لطیفوں‘‘ کی فہرست میں میکسیکن، کیوبن اور نیپالی قوم بھی نمایاں ہے۔ ہمیشہ لیٹ ہونے والی دیگر قوموں میں قازق، جنوبی افریقی، نائجیرین، ہسپانوی، ایکواڈیرین، بھارتی، گھانین، سعودی، ملائشین، برازیلین، یونانی، ایرانی، فلپائنی اور جارجین شامل ہیں۔
واضح رہے کہ براعظم ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ملک جارجیا کے باشندوں کو جارجین کہتے ہیں۔ یہاں مختلف ثقافتوں اور روایات کی دلکش آمیزش دیکھنے کو ملتی ہے۔ جارجیا کے کلچر کا ایک خاصا یہ بھی ہے کہ یہاں دیر سے آنے پر برا نہیں منایا جاتا۔ جبکہ فلپائنی اور قازق باشندوں کے ہاں وقت کی پابندی کے لطیفے تو زبان زد عام ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ فلپائن میں ہر کوئی لیٹ ہوتا ہے۔ یہاں کسی کو یہ پتا نہیں ہوتا کہ ٹریفک میں اسے کتنی دیر ہوجائے گی۔
’’برٹ ڈاٹ کو‘‘ ویب سائٹ کے مطابق ملائیشیا میں مشہور ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ بس پانچ منٹ ویٹ کریں۔ تو اس کا مطلب ہے وہ ایک آدھ گھنٹہ دیر سے آئے گا۔ یہ روش میکسیکو میں بھی پائی جاتی ہے۔ جہاں میٹنگ یا ملاقات کیلئے ایک، آدھے گھنٹے کی تاخیر نارمل سی بات ہے۔ نائجیریا اس حوالے سے ملائیشیا اور میکسیکو سے بھی ایک ہاتھ آگے ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق نائجیریا میں سرکاری اجلاس اور تقریبات بھی ایک سے دو گھنٹے تاخیر سے شروع کی جاتی ہیں۔ لہٰذا مہمان بھی مقررہ وقت کے بجائے دیر سے ہی پہنچتے ہیں اور یہ ایک عام روٹین ہے۔ اسی طرح ایک اور افریقی ملک گھانا میں بھی تقریبات وغیرہ کے آغاز کا کچھ پتا نہیں ہوتا۔ تقریب طے شدہ دن پر کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے۔
ادھر بھارتی جریدے دکن ہیرالڈ نے دعویٰ کیا ہے کہ نئے بھارت میں وقت کی پابندی ضروری ہوگئی ہے اور بزنس میٹنگ یا ڈاکٹر سے اپائنمنٹ جیسے معاملات میں لوگ وقت پر پہنچتے ہیں۔ تاہم پھر بھی عام بھارتی پبلک 30 منٹ سے ایک گھنٹہ تاخیر کو کوئی بڑی بات نہیں گردانتی۔ اسپین میں یہ تاخیر عموماً 15 سے 30 منٹ کی ہوتی ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب میں بھی نجی محافل دیر سے شروع ہوتی ہیں۔ حتیٰ کہ تقریب کے دوران اپنی گھڑی میں ٹائم دیکھنے کو معیوب تصور کیا جاتا ہے۔ برازیل میں جب کوئی ضروری سوشل میٹنگ ہوتی ہے تو وقت کی پابندی کیلئے خاص طور پر ’’انگلش ٹائم‘‘ ساتھ لکھا جاتا ہے۔ بصورت دیگر کوئی کتنا بھی دیر سے آئے۔ اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ سائنسدانوں کے مطابق کچھ حد تک لیٹ ہونا انسانی شخصیت کا خاصا ہوتا ہے اور لیٹ ہونے والے افراد مختلف انداز میں سوچتے ہیں۔ یہ افراد کسی بھی رنگ، نسل اور خطے سے ہو سکتے ہیں۔
برطانوی مصنفہ گریس پیسی نے اپنی کتاب ’’لیٹ!‘‘ میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا ہمیشہ لیٹ ہونے والے افراد واقعی اپنی ’’عادت کے ہاتھوں مجبور‘‘ ہوتے ہیں۔ گریس پیسی کہتی ہیں کہ عام افراد دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک ٹائم کیپر یعنی وقت کے پابند۔ جو ہمیشہ وقت پر پہنچنے کیلئے بے تاب رہتے ہیں۔ اور دوسرے ٹائم بینڈر، یعنی جو ہمیشہ وقت سے پیچھے رہتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ٹائم بینڈر (یعنی ہمیشہ وقت سے پیچھے رہنے والے) افراد کو روٹین پسند نہیں ہوتی اور انہیں یکسانیت سے بہت کوفت ہوتی ہے۔ اسی لئے وہ بہت جلدی بور ہو جاتے ہیں۔ ان کے مطابق ٹائم بینڈر افراد کو اگر کسی کام میں دلچسپی ہو تو وہ اس پر بھرپور توجہ مرکوز کر سکتے ہیں اور اگر ان کے پاس وقت کی کمی ہو تو ان کا کام نہایت مؤثر ہو جاتا ہے۔ گریس پیسی کے مطابق اگر آپ دفتر میں ٹائم بینڈرز کا پتا چلانا چاہیں تو یہ وہ افراد ہوں گے جن کے ڈیسک ہمیشہ بے ترتیب اور مختلف چیزوں سے بھرے ہوئے ہوں گے، کیونکہ وہ ایک کام ختم کرنے سے پہلے ہی دوسرا کام شروع کر دیتے ہیں۔