ندیم محمود:
’’سردیوں کی ٹھٹھرتی راتوں میں اسلام آباد کے سیکٹر ای سیون کے ایک بنگلے میں رات گئے تک نشست جمتی تھی۔ قاضی حسین احمد، عمران خان اور میں گھنٹوں ملکی سیاست پر گفتگو کرتے۔ زیادہ تر آئندہ کا لائحہ عمل زیر بحث آتا۔ اس دوران کینو مالٹے کھانے کا سلسلہ جاری رہتا تھا‘‘۔
تحریک انصاف کے بانی رہنمائوں میں سے ایک اور عمران خان کے سابق قریبی ساتھی اکبر ایس بابر قریباً بائیس برس پرانی یادوں کی راکھ کرید رہے تھے۔
تب جنرل مشرف کی زیر قیادت اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کے معاملے میں نیوٹرل ہوجانے پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان آج ہی کی طرح برہم ہوگئے تھے۔ لیکن یہ مرحلہ اوپر بیان کردہ ملاقاتوں کے قریباً دو برس بعد آیا جب مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت کے بدلے میں کپتان کو من پسند پھل نہیں ملا۔ جمہوریت کی علمبرداری اور اصول پسندی کا نعرہ لگانے والے عمران خان اس ناراضگی سے قبل بارہ سیاسی پارٹیوں کو چھوڑ کر آمر جنرل مشرف کے ساتھ کھڑے ہوگئے تھے۔
عمران خان آج بھی جلسوں میں تواتر سے اپنی چھبیس سالہ سیاسی جدوجہد کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن المیہ ہے کہ نوجوان نسل، خاص طور پر تحریک انصاف کے جواں سال حامیوں کی ایک بڑی تعداد ان ڈھائی دہائیوں پر مشتمل سیاسی ’’جدوجہد‘‘ کے دوران عمران کی قلابازیوں، دو عملی اور تضادات کی تفصیلات سے آگاہ نہیں۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ قصے بیس پچیس برس پرانے ہیں۔ عمران خان کی اندھی تقلید کرنے والے بیشتر نوجوانوں کی پیدائش سے پہلے کی ہے۔ جبکہ بہت سوں نے ابھی ہوش نہیں سنبھالا تھا۔ پھر بھی بہت سی ان کہی کہانیوں کو چھوڑ کر اس حوالے سے کافی تفصیلات گوگل کے ایک کلک پر دستیاب ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے نوجوانوں کی اکثریت ماضی میں کم جھانکتی ہے اور حال میں مست رہنا زیادہ پسند کرتی ہے۔ لہٰذا پی ٹی آئی کے نوجوان سپورٹرز کا ایمان ہے کہ ان کا کپتان ہمیشہ سے ایسا ہی تھا، جیسا آج دِکھتا ہے۔ ریسرچ کے اس فقدان کے نتیجے میں کپتان کا جھوٹا بیانیہ بھی ان کے نوجوان سپورٹرز میں ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے۔ جس میں عمران خان کو مشرف کی جانب سے وزارت عظمیٰ کی پیشکش کا فسانہ شامل ہے، جو ایک سو فیصد جھوٹ پر مبنی ہے۔
اکبر ایس بابر بتاتے ہیں ’’ان دنوں عمران خان کے امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد سے خاصے قریبی تعلقات بن گئے تھے۔ قاضی حسین احمد سے کپتان کی علیک سلیک میں نے کرائی تھی۔ دراصل میں عمران خان کی سیاسی تعلق داریاں مضبوط بنانے کا خواہاں تھا۔ قاضی حسین احمد اور عمران خان کے مابین قربت کرانے پر بعض لوگوں نے مجھ پر ’’جماعت اسلامی کا آدمی‘‘ ہونے کا لیبل لگانا شروع کردیا تھا۔ قصہ مختصر، اسلام آباد کے سیکٹر ای سیون میں جماعت اسلامی کا ایک دفتر ہوا کرتا تھا (شاید آج بھی ہو)، جو امیر کے قیام کے لئے بھی استعمال ہوتا۔ قاضی حسین احمد خود بھی وہاں رہا کرتے تھے۔ اسی سیکٹر ای سیون میں عمران خان کرائے کے بنگلے میں مقیم تھے۔ فیصل مسجد کے نزدیک یہ اسلام آباد کا وہ سیکٹر ہے، جو ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں ڈویلپ ہوا۔ ان دنوں میرے کرائے کا گھر سڑک پار سیکٹر ایف سیون تھری میں تھا۔ چنانچہ میں اور عمران پیدل چہل قدمی کرتے قاضی حسین احمد کی رہائش گاہ پہنچ جایا کرتے تھے۔ رات گیارہ ساڑھے گیارہ بجے ہماری نشست جمتی اور رات ایک ڈیڑھ بجے تک جاری رہتی۔ ان ملاقاتوں کے دوران میں نے قاضی حسین احمد کو قائل کرلیا کہ تمام جمہوری قوتوں کو اکٹھاکرکے دو ہزار دو کا الیکشن لڑا جائے۔ عمران خان نے پرجوش طریقے سے اس کی تائید کی ۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ وہ جدہ جاکر اس سلسلے میں نواز شریف سے بات کرتے ہیں۔ ان دنوں نون لیگ کے قائد سعودی عرب میں جلا وطنی کاٹ رہے تھے۔ قاضی حسین احمد نے جدہ جاکر نواز شریف سے بات کرنے کی ہامی تو بھرلی تھی۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ وہ اکثر کہا کرتے کہ میاں صاحب (نواز شریف) جب زیادہ سیٹیں حاصل کرلیتے ہیں تو ان پر دو تہائی اکثریت کا خمار چڑھ جاتا ہے۔ پھر ان کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن ان کے بقول ایک الائنس بناکر انہیں کنٹرول کیا جاسکے گا۔ قاضی حسین احمد جدہ چلے گئے اور واپس آکر بتایا کہ نواز شریف الائنس بنانے پر راضی ہیں۔ نون لیگی قائد کے خیال میں بھی مشرف اور ان کی کنگ پارٹی کے خلاف جمہوری قوتوں کا ایک الائنس کے تحت الیکشن میں اترنا موثر رہے گا‘‘۔
اکبر ایس بابر کے بقول اگرچہ قاضی حسین احمد جدہ سے توقعات کے عین مطابق جواب لے کر آئے تھے۔ لیکن جب وہ نواز شریف کے ساتھ جمہوری قوتوں کے اتحاد پر گفتگو میں مصروف تھے تو ٹھیک اس دوران عمران خان یہاں پاکستان میں مشرف سے پس پردہ ڈیل کر رہے تھے۔ جس کے تحت طے ہوا کہ تحریک انصاف، مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت کرے گی۔ جبکہ عمران خان نے اپنے طور پر یہ توقع لگالی تھی کہ اس سپورٹ کے بدلے مشرف انہیں وزیراعظم بنا دے گا۔ اس ڈیل کے حوالے سے مشرف اور عمران خان کے مابین خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ اٹھائیس فروری سن دو ہزار کو مشرف سے اپنی پہلی خفیہ ملاقات کے بعد عمران نے مجھے کہا ’’میرے خیال میں ہمارے درمیان اچھی ورکنگ ریلیشن شپ ہوسکتی ہے‘‘۔
’’بعد ازاں یہ تعلقات پروان چڑھنے لگے۔ یوں جدہ میں قاضی حسین احمد کی نواز شریف سے ملاقات اور جمہوری قوتوں کا الائنس بنانے کا پلان مٹی میں مل گیا۔ ان نئے تعلقات کی وجہ سے عمران خان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق جنرل مشرف کے موقف کی بھی حمایت کردی۔ تاہم میرے اور پارٹی کے چند دیگر رہنمائوں نے اس کی سخت مخالفت کی۔ اس معاملے پر ہونے والی گفتگو اکثر جھگڑے جیسے شور شرابے میں تبدیل ہوجایا کرتی تھی۔ میرا پختہ یقین تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت اس عفریت کو گھر (پاکستان) لے آئے گی اور ابتدائی مختصر مدت کے معاشی فوائد کے بعد تباہ کن ثابت ہوگی۔ یہ ثابت بھی ہوا۔ تاہم عمران خان اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات اور اس کے نتیجے میں ملنے والے فوائد کے مسحور کن خیالات میں غرق تھے۔ مشرف کے ساتھ عمران خان کے رازونیاز کا یہ سلسلہ تقریباً دو برس تک چلتا رہا۔ آخر کار اٹھائیس اپریل دو ہزار دو کو ٹوٹ گیا‘‘۔
دراصل عمران خان کو توقع تھی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشرف کی تائید اور ان کے ریفرنڈم کی حمایت کے بدلے میں انہیں وزیراعظم بنادیا جائے گا۔ حالانکہ انہیں ایسی کوئی آفر نہیں کی گئی تھی۔ عمران خان کا یہ خوش کن خواب اس وقت ٹوٹ گیا، جب اٹھائیس اپریل دو ہزار دو کو ہونے والی ایک میٹنگ میں کپتان کو دو ٹوک بتادیا گیا کہ حمایت کے عوض ان کی پارٹی کو عام انتخابات میں دو درجن سیٹیں اور دو وزارتوں کا قلمدان ملے گا۔ لہٰذا وزارت عظمیٰ کا خیال وہ اپنے دماغ سے نکال دیں۔ ریفرنڈم سے دو دن پہلے ہونے والی اس میٹنگ میں عمران خان کے ساتھ جنرل منیر حفیظ اور جنرل احتشام ضمیر موجود تھے‘‘۔
واضح رہے کہ تیس اپریل دو ہزار دو کو جنرل پرویز مشرف کو پانچ برس تک صدر رہنے کی اجازت دینے پر ریفرنڈم ہوا تھا۔ کیونکہ اس نوعیت کے ریفرنڈم کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں۔ لہٰذا اپوزیشن کی تمام پارٹیوں نے ریفرنڈم کو غیر آئینی قرار دے کر اس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ تاہم چور راستے سے حصول اقتدار کی ناقابل بیان خواہش کے زیر اثر عمران خان ملک کی ایک درجن اپوزیشن پارٹیوں کو چھوڑ کر جنرل مشرف کے ساتھ کھڑے ہوگئے تھے۔
اکبر ایس بابر کہتے ہیں ’’اٹھائیس اپریل کی ملاقات کے بعد عمران خان نے مجھے آکر بتایا کہ انہیں کہا گیا کہ اکتوبر دو ہزار دو کے الیکشن سے قبل ہم صدر لغاری کی ملت پارٹی، اے این پی، امتیاز شیخ اور پی ٹی آئی پر مشتمل ایک نیشنل الائنس بنائیں گے۔ پھر مسلم لیگیوں کو اکٹھا کرکے نیشنل الائنس کو ایک گرینڈ الائنس میں تبدیل کردیا جائے گا، جو اکتوبر دو ہزار دو کے الیکشن میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرے گا۔ اتحاد میں شامل ہونے پر پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی کی دو درجن سیٹیں اور ساتھ میں دو وزارتیں دی جائیں گی۔ عمران خان کے بقول جس پر ان کی میٹنگ کے شرکا سے ’’لڑائی‘‘ ہوگئی اور وہ اٹھ کر چلے آئے۔ یہاں سے مشرف کی زیر قیادت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ عمران خان کے تعلقات ٹوٹنے کا آغاز ہوا۔ دراصل اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ قاف لیگ کا وزیراعظم لانا چاہتی تھی۔
اکبر ایس بابر بتاتے ہیں ’’اب معاملہ یہ درپیش تھا کہ دو دن بعد ریفرنڈم تھا۔ سب سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ کیا کیا جائے؟ کیونکہ نہ اب ہمیں اپوزیشن اپنانے کے لئے تیار تھی اور نہ ہم اسٹیبلشمنٹ کا حصہ رہے تھے۔ ایک طرح سے سیاسی یتیمی تھی۔ عمران خان کے پاس مشرف کے ریفرنڈم میں ووٹ دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ کیونکہ وہ ریفرنڈم کی حمایت میں متعدد ٹاک شوز اور درجنوں بیانات دے چکے تھے۔ لہٰذا عمران خان کو ریفرنڈم کے حق میں ووٹ دینا پڑا۔ حالانکہ ریفرنڈم کے معاملے پر پارٹی تقسیم تھی۔ اس وقت پارٹی میں زیادہ تر اسٹیبلشمنٹ کے لوگ تھے۔ یہ تمام ریفرنڈم کے حوالے سے عمران خان کے موقف کے حامی تھے۔ صرف تین رہنمائوں نے ریفرنڈم کی حمایت کی سخت مخالفت کی تھی۔ ایک میں تھا اور دیگر دو معراج محمد خان اور حامد خان تھے‘‘۔
وزارت عظمیٰ ملنے کی خواہش پوری نہ ہونے پر عمران خان جب مشرف کی زیر قیادت اسٹیبلشمنٹ سے لڑ بیٹھے تو اکتوبر دو ہزار دو کے الیکشن میں اسٹیبشلمنٹ نے پی ٹی آئی کے سر سے ہاتھ اٹھالیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورے پاکستان میں سے پی ٹی آئی کو صرف میانوالی کی سیٹ ملی، جو عمران خان نے جیتی تھی۔ اس سیٹ کا ملنا بھی بظاہر معجزہ تھا۔ تب عمران خان نے آج ہی کی طرح اپنی پارٹی کی شکست کو اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈالا اور کہا کہ اداروں نے مداخلت کرکے پی ٹی آئی کو سیٹیں جیتنے سے محروم کیا۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ پارٹی اس وقت اتنی منظم نہیں تھی کہ اپنے بل بوتے پر سیٹیں حاصل کر پاتی۔ اگر عمران خان وزارت عظمیٰ کی خواہش ترک کر دیتے تو شاید اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کی جھولی میں حسب وعدہ دو درجن سیٹیں ڈال دیتی۔ تاہم عمران خان کی ضد پر اسٹیبشلمنٹ پی ٹی آئی کے معاملے میں نیوٹرل ہوگئی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات منقطع کرنے کو عمران خان نے نہایت چالاکی سے یہ رنگ دیا کہ انہیں کرپشن کے آئیکون (چوہدری برادران) کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور کیا جارہا تھا۔ لہٰذا انہوں نے اپنا راستہ تبدیل کرلیا۔ حالانکہ یہ بیانیہ حقیقت کے برعکس تھا۔
اکبر ایس بابر کے بقول جب مشرف سے پس پردہ خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا تو ایک میٹنگ میں تحریک انصاف کی ساری ٹاپ قیادت گئی تھی۔ دوسری جانب جنرل پرویز مشرف کے ساتھ جنرل احتشام ضمیر اور طارق عزیز موجود تھے۔ انہوں نے دو ٹوک کہا تھا کہ ریفرنڈم کی حمایت کے بدلے پی ٹی آئی کو دو درجن سیٹیں ملیں گی۔ وزارت عظمیٰ کی آفر سے متعلق ایک لفظ نہیں کہا گیا تھا۔ اس کے وہ عینی شاہد ہیں۔