عمران خان:
عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے متحدہ عرب امارات اور امریکہ سمیت 6 ممالک کو لکھے گئے خطوط کے تاحال جواب موصول نہیں ہوسکے۔ واضح رہے کہ ان خطوط میں متعلقہ ممالک سے پی ٹی آئی کو ہونے والی ممنوعہ فنڈنگ سے متعلق معلومات اور مدد طلب کی گئی تھی۔ دوسری جانب پاکستان میں مقدمات اور انکوائریوں میں نامزد بیرون ملک مقیم ملزمان کو واپس لانے کے معاہدوں پر بھی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق ان معاملات پر متعلقہ وزارتوں، قائمہ کمیٹیوں اور پارلیمان میں ہونے والی کارروائیوں کے پیش نظر یہ عمل مزید طویل ہو سکتا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے متحدہ عرب مارات، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، سنگاپور اور سوئٹزرلینڈ کو رواں برس کے اواخر میں خطوط لکھے تھے۔ جن میں میوچل لیگل اسسٹنٹس کے تحت متعلقہ ممالک کی مختلف کمپنیوں اور افراد تک رسائی کی درخواست کی گئی تھی۔ تاکہ غیر ملکی فنڈنگ کی تحقیقات کو آگے بڑھایا جا سکے۔ خاص طور پر ووٹن کرکٹ کلب اور ابراج گروپ سے متعلق تفصیلات مانگی گئی تھیں۔ اسی طرح ایک اور خط میں ایف آئی اے نے سنگا پور میں عبیدہ شیٹی نامی ایک شخص کے بارے میں معلومات طلب کی تھیں۔ باہمی قانونی مدد کے معاہدے کے تحت امریکا کو ایف آئی اے کی جانب سے بھیجے گئے خط میں وہاں کام کرنے والی مختلف کمپنیوں تک رسائی کی درخواست کی گئی تھی۔ کیونکہ امریکہ میں کام کرنے والی مختلف کمپنیوں نے تحریک انصاف کے مختلف رہنمائوں کے اکائونٹس میں رقوم منتقل کی تھیں۔ تاہم تقریباً 4 ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اس حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی ۔
ایف آئی اے کے مطابق پاکستانی قوانین اور ایف اے ٹی ایف کی سفارشات کی روشنی میں ایم ایل ایز یعنی میوچل لیگل اسسٹنٹس کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں سے پہلی کیٹیگری ان پاکستانی افراد کے حوالے سے ہے۔ جو پاکستان میں تفتیش کیلئے مطلوب ہیں یا ان کو سزائیں ہوچکی ہیں اور ان کو واپس لانا مقصود ہے۔ تاہم ان پر بیرون ملک کوئی کیس یا انکوائری موجود نہیں۔ ایسے افراد کو واپس لانے میں زیادہ مشکلات درپیش ہیں اور ان پر پیش رفت رکی ہوئی ہے۔ دوسری درجہ بندی میں ایسے افراد شامل ہیں۔ جن سے صرف تفتیش مقصود ہے۔ یعنی پاکستان میں موجود مقدمات یا کیسوں میں نامزد افراد کے حوالے سے ان کے بیانات یا ان سے ملنے والی معلومات اہمیت رکھتی ہیں۔ اس لئے ایسے افراد سے صرف مطلوبہ معلومات کے حصول کیلئے انٹر پول کے توسط سے ان کے متعلقہ ممالک کے حکام کو ایم ایل ایز بھیجے جاتے ہیں۔ تاکہ ان سے مطلوبہ معلومات حاصل کرکے مصدقہ طور پر بھیجی جا سکیں۔ تاہم ان ایم ایز میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کے حوالے سے فنڈنگ کیسز میں ایف آئی اے کی انکوائریوں اور مقدمہ کی تمام تر تفصیلات حاصل کرکے انٹر پول کے ذریعے متعلقہ 10 ممالک کو بھیجی گئیں۔ تاہم ان پر بھی اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ کیونکہ پاکستانی حکام کے ان 10 ممالک کے ساتھ ابھی تک اس حوالے سے معاہدے تکمیل تک پہنچ ہی سکے ہیں۔ یہ مراسلے رواں برس اگست کے آخر میں آسٹریلیا اور کینیڈا کو وہاں قائم کمپنیوں کی معلومات کیلئے لکھے گئے تھے۔ جبکہ سنگاپور کو ناصر عزیز اور رومیتا شیٹھی کی معلومات کیلئے خط لکھا تھا۔ ان میں سوئٹزر لینڈ کو ای پلینٹ ٹرسٹیز کی معلومات، متحدہ عرب امارات کو برسٹول انجینئرنگ اور کیلیفورنیا بیسڈ کارپوریشن کیلئے بھی لکھا گیا۔ اسی کے ساتھ متحدہ عرب امارات کو ہی ووٹن کرکٹ کلب اور ابراج گروپ کیلئے، جبکہ امریکا کو ٹیکساس بیسڈ کارپوریشن اور فرم کیلئے خط لکھا گیا۔
’’امت‘‘ کو ایف آئی اے انٹر پول ڈائریکٹوریٹ سے جڑے اہم ذرائع نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی عدم دلچسپی اور سست رفتاری کے باعث بیرون ملک پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کے معاہدوں کو بھی عملی شکل نہیں دی جا سکی ہے۔ جس کی وجہ سے اس وقت ملک میں منی لانڈرنگ اور کرپشن کے 100 سے زائد اہم مقدمات اور کیسوں کو منطقی انجام تک پہنچانے میں دشواری کا سامنا ہے۔ ان کیسز اور انکوائریوں میں نامزد افراد کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے۔ جبکہ کچھ سیاستدانوں کے فرنٹ مین ہیں۔ کئی ایسے افراد بھی ہیں جو انسانی اسمگلنگ، حوالہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ کے کیسوں میں مطلوب ہیں۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول اس ضمن میں پہلی کوشش حالیہ عرصہ میں 2018ء میں کی گئی۔ جب پاکستان کو اس پر عمل درآمد کے لئے مالیاتی امور کی نگرانی کی عالمی تنظیم ایف اے ٹی ایف کی جانب سے دی جانے والی سفارشات کے نکات میں اس پر عمل کرنے کے لئے کہا گیا۔ اس کے بعد 15 ستمبر 2018ء کو وزارت قانون و انصاف نے بیرون ملک سے مالیاتی جرائم اور میگا کرپشن میں ملوث پاکستانیوں کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے کے لیے قانونی مسودے کو حتمی شکل دی۔ جبکہ برطانوی حکام کے ساتھ مجرمان کی واپسی کے معاہدے سے متعلق مذاکرات کا پہلا راؤنڈ اکتوبر 2019ء میں کیا گیا تھا۔ جس کے بعد برطانوی حکام کی جانب سے اس پر عمل درآمد کے لئے مثبت اشارے دیئے گئے تھے۔ ان معاہدوں کی تکمیل اور عمل درآمد کے لئے اس وقت زیاددہ امکان پیدا ہوئے۔ جب خود برطانیہ کی سیریس کرائم ایجنسی یا نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے دنیا کے دیگر ممالک سے مالی فراڈ کرنے کے بعد فنڈز برطانیہ منتقل کرنے میں ملوث ایسے افراد جو برطانیہ میں موجود ہیں، کے خلاف کارروائی کر کے ان سے ریکوری متعلقہ ممالک کو دینے اور ان ملزمان کی حوالگی کے حوالے سے بات کی گئی۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول پاکستان میں سابق حکومت میں مشیر برائے انسداد رشوت ستانی شہزاد اکبر سرگرم رہے۔ جبکہ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کی جانب سے بھی اس پر تیزی سے کام کیا گیا۔ جس کا پس منظر یہ تھا کہ پاکستان میں 2016ء سے 2019ء کے دوران بننے والے کئی ایف آئی اے اور نیب کیسوں میں مطلوب سیاسی رہنما اور ان کے فرنٹ مین کی اکثریت برطانیہ میں مقیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کے ساتھ اس ایم ایل اے کو اہمیت دی جاتی رہی۔
ایف آئی اے ذرائع کے مطابق یہ عمل سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے رانا ثناء اللہ کے دور میں اپنے عروج پر پہنچا اور پہلی بار ایف آئی اے کے ملک بھر میں موجود سرکلوں کو ڈی جی آفس سے ہدایات جاری کی گئیں کہ مقدمات اور کیسوں میں مطلوب ایسے افراد جو بیرون ملک مقیم ہیں۔ ان کے حوالے سے تمام ثبوت و شواہد اور عدالتی احکامات مکمل کر کے ان کی فائلیں ہیڈ کوارٹر کو ارسال کی جائیں تاکہ ان کی واپسی کے لئے یہ فائلیں انٹر پول کو دی جا سکیں۔
ان احکام کے پس منظر کے حوالے سے ایف آئی اے ذرائع کا کہنا تھا کہ اس وقت 2 فروری 2022ء کو سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کی اپنے برطانوی ہم منصب سے اہم ملاقات ہوئی تھی۔ جس میں پاکستان اور برطانیہ نے دونوں ممالک کے درمیان تحویل ملزمان کا معاہدہ جلد مکمل کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ایف آئی اے کے ملک بھر کے سرکلوں سے حاصل ہونے والی ڈیٹا کی روشنی میں اب تک 107 ایم ایل ایز انٹر پول کو بھیجے جاچکے ہیں۔ جن میں 17 ایم ایل اے پی ٹی آئی فنڈنگ کے حوالے سے بھی شامل ہیں۔جو دنیا کے 10 ممالک بشمول برطانیہ اور آسٹریلیا کو ارسال کیے گئے ہیں۔ تاکہ وہاں موجود ان افراد کی معلومات حاصل کی جا سکے۔ جو اس کیس کی انکوائریوں سے جڑے ہوئے ہیں۔