محمد اطہرفاروقی:
رواں برس 2022ء میں زیادتی کے مجموعی طور پر 388 کیس ڈی این اے ٹیسٹ کیلئے سندھ فارنسک ڈی این اے اینڈ سیرولوجی لیبارٹری جامعہ کراچی بھیجے گئے۔ جس میں سے بیشتر کیس حل کرلیے گئے ہیں۔ پچھلے برس کیسز کی تعداد 263 تھی۔ یوں ان کیسز کی تعداد میں 47 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ان کیسوں میں ایک تہائی فیصد کیس ان نابالغ بچوں اور بچیوں کی ہے۔ جنہیں زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا۔ واضح رہے اس نوعیت کے ڈی این اے ٹیسٹ کیلیے صوبے سندھ میں جامعہ کراچی کی یہی واحد بڑی لیبارٹری ہے۔ زیادتی کے مذکورہ اعداد و شمار وہ ہیں۔ جو لیبارٹری میں ٹیسٹ کیلئے بھیجے گئے۔
ڈی این اے ٹیسٹوں کے جدید طریقہ تفتیش کے ذریعے بیشتر کیسوں کو منطقی انجام تک پہنچانے میں پولیس اور متعلقہ حکام کو کلیدی مدد ملی ہے۔ ان میں ہائی پروفائل کیسز شامل ہیں۔ ایسا ہی ایک ہائی پروفائل کیس ایک سات سالہ بچی رضیہ (فرضی نام)کا بھی ہے۔ جسے زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا اور اس کی لاش لانڈھی مسلم آباد مینگل اسکول کے قریب ایک زیر تعمیر پلاٹ سے ملی تھی۔ یہ روایتی اور سوشل میڈیا پر خاصا ہائی لائٹ ہوا اور پورے ملک میں غم و غصے کی لہر تھی۔
کراچی کے علاقے لانڈھی مسلم آباد میں مینگل اسکول کے قریب 18 نومبر 2022ء کو 7 سالہ بچی کی لاش ایک زیر تعمیر پلاٹ سے ملی۔ بچی 17 نومبر جمعرات کے روز دوپہر 2 بجے غائب ہوئی تھی۔ بچی کی لاش کو جمعے کے روز 18 نومبر کو جناح اسپتال میں منتقل کیا گیا۔ اسپتال میں پوسٹ مارٹم کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ پولیس سرجن ڈاکٹر سمیہ سید کے بقول بچی کی لاش قائد آباد پولیس اسٹیشن کی حدود سے لائی گئی تھی۔ جس کے پورے جسم اور خاص طور پر سر پر بدترین تشدد کیا گیا تھا۔ اس کی موت دم گھنٹے سے ہوئی۔
پوسٹ مارٹم کے بعد ڈاکٹرسمیہ نے بچی کا ڈی این اے جمع کر کے سندھ فارنسک ڈی این اے اینڈ سیرولوجی لیبارٹری جامعہ کراچی بھجوایا۔ بچی کے جسم سے ملنے والے شواہد کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا۔ متعلقہ پولیس کی جانب سے شک کی بنیاد پر شیر رحمن عرف کاکا منے ولد دائود خان کے ڈی این اے نمونے دیے تھے۔ تاہم اس کے مفرور ہونے کے بعد شیر رحمن کے بچے اور بھائی کے نمونے ڈی این اے کیلیے حاصل کرکے لیب بھیجے گئے۔ ٹیسٹ کے بعد لاش سے ملنے والا ڈی این اے میچ ہوگیا۔ جس سے ملزم کا تعین کر لیا گیا۔ تاہم ملزم کے فرار ہونے کے بعد گزشتہ روز پولیس نے ملزم کو پکڑنے پر مدد کیلئے 2 لاکھ روپے کا انعام رکھا ہے۔ سندھ فارنسک ڈی این اے اینڈ سیرولوجی لیبارٹری نے 48 گھنٹوں میں ڈی این اے کی رپورٹ دیکر ملزم کی شناخت کی۔ اس نوعیت کے مزید ایسے ہائی پروفائل کیسز بھی ہیں۔ جن میں ڈی این اے رپورٹ سے ملزم کی شناخت ہوئی اور پولیس نے کارروائی کر کے ملزم کو گرفتار بھی کیا۔
کراچی کے علاقے کورنگی میں 29 جولائی 2021ء کو صبح 6 بجے 6 سالہ ننھی ماہم کی لاش نالے سے ملی۔ 28 جولائی کو رات ساڑھے 9 بجے بچی محلے میں کھیلتے ہوئے لاپتہ ہو گئی تھی۔ رات بھر گھر والے تلاش کرتے رہے۔ صبح بچی کی لاش ملتے ہی پوسٹ مارٹم کیلئے جناح اسپتال لے جایا گیا۔ جہاں ڈاکٹر سمیہ نے بچی کا پوسٹ مارٹم کیا۔ پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ بچی کو ایک سے زائد افراد نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ ڈاکٹر سمیہ کے بقول بچی کا انتقال سانس بند ہونے سے ہوا۔ ماہم کا گلہ دبایا گیا۔ جس سے اس کی گردن کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی۔ پوسٹ مارٹم کے بعد ڈاکٹر سمیہ نے ماہم کا ڈی این اے جمع کر کے فارنسک لیبارٹری جامعہ کراچی بھجوایا۔ اس واقعہ کے بعد زمان ٹاؤن تھانے کی پولیس نے شک کی بنیاد پر ماہم کے محلے سے رکشہ ڈرائیور کو گرفتار کیا۔ ماہم کا ڈی این اے اوررکشہ ڈرائیور ذاکر کا بھی ڈی این اے لیبارٹری میں بھیجا گیا۔ لیبارٹری نے 48 گھنٹوں میں ڈی این اے کی رپورٹ دے کر ملزم ذاکر کی شناخت کر دی۔
کراچی میں ڈی این اے کیلئے واحد لیبارٹری جامعہ کراچی میں قائم ہے۔ اکتوبر 2019ء میں فعال ہونے والی لیبارٹری میں مجموعی طور پر 26 دسمبر 2022ء تک 6 ہزار 114 ٹیسٹ کیے گئے۔ رواں سال صوبہ بھر میں زیادتی کے کیسز کے 388 ڈی این اے کیے گئے۔ جن میں ایک تہائی کیسز نابالغ بچوں اور بچیوں کے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چوری کے 271 اور قتل کے ایک ہزار 480 نمونوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کیے گئے۔ لیبارٹری میں گزشتہ سال زیادتی کے 263، چوری کے 283 اور قتل کے ایک ہزار 476 ڈی این اے ٹیسٹ کیے گئے۔ یعنی 2021ء میں مجموعی طور پر 2 ہزار 22 ٹیسٹ ہوئے۔
زیادتی کے کیسز، ناقابل شناخت باڈی اور قتل کے کیس کے ڈی این اے کیلئے سیمپل میڈیکلو لیگل آفیسرز، جبکہ اغوا، بم دھماکہ اور چوری کے کیسز میں پولیس کا کرائم سیل یونٹ سمیپل جمع کرتی ہے۔ ڈی این کی رپورٹ نارمل حالات میں 4 ہفتوں میں بھیج دی جاتی ہے۔ کیس کی نوعیت اور ایس ایس پی لیول کے آفیسرز کی درخواست پر ایس ایف ڈی لیبارٹری میں 48 گھنٹوں میں بھی ڈی این اے کی رپورٹ تیار کی گئی ہے۔
’’امت‘‘ کی جانب سے کراچی یونیورسٹی میں قائم فارنسک لیبارٹری کا سروے کیا گیا تو مشاہدے میں آیا کہ لیبارٹری کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ لیبارٹری کے دائیں جانب موجود متعدد کمروں میں کرائم سین سے حاصل شدہ سیمپل کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ جبکہ بائیں جانب کمروں میں شک کی بنیاد پکڑے گئے وکٹمز کے ڈی این اے کیے جاتے ہیں۔ لیبارٹری کے تمام دروازوں پر جدید قسم کے لاک لگے ہوئے ہیں۔ جو محض لیبارٹری کے عملے کے فنگر پرنٹ سے ہی کھولے جا سکتے ہیں۔ لیبارٹری میں صفائی کا بھی خاص نظام ہے۔
’’امت‘‘ نے لیبارٹری میں موجود ڈاکٹر اشتیاق سے ڈی این اے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے بتایا ’’ڈی این اے بنیادی طور پر ایک جینیٹک میٹیریل ہوتا ہے۔ اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ڈی این اے میں کسی بھی جاندار کی پیدائش سے لیکر اس کی پوری زندگی میں ہونے والے تمام کام اور اس سے متعلقہ تمام معلومات ہوتی ہیں۔ یہ معلومات کوڈ کی شکل میں حاصل ہوتی ہییں۔ وہ کوڈ اے، ٹی، سی اور جی ہیں۔ ڈی این اے کے اوپر جینز ہوتے ہیں۔ جینز پروٹین بناتے ہیں اور پروٹین باڈی کو فنکشنل کرتی ہے۔ ہم سب سے زیادہ فوقیت زیادتی کے کیسز کو دیتے ہیں۔ تاکہ ملزم کی جلد شناخت ہو سکے اور اس لیبارٹری سے ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے متعدد کیسز میں ملزم کی شناخت کی جا چکی ہے۔ شناخت کے بعد ملزم کی تمام تر تفصیل متعلقہ اداروں کو بھیج دی جاتی ہے‘‘۔
ایک سوال پر ڈاکٹر اشتیاق نے بتایا کہ ’’جرم نشان چھوڑ جاتا ہے۔ یہ بالکل سچ ہے کہ کسی بھی جگہ پر کوئی قتل ہوا ہو تو وہاں قاتل اپنا کوئی نہ کوئی بایالوجیکل مٹیریل چھوڑ جاتا ہے۔ اس میں اس شخص کا کوئی بال، اسکن کا کوئی حصہ، تھوک یا خون وغیرہ ہوتا ہے۔ جڑواں بچے کے علاوہ ہر ایک انسان کا دوسرے انسان سے ڈی این اے الگ ہوتا ہے۔ ایک فرد کا دوسرے فرد سے جتنا قریبی رشتہ ہوگا۔ ان کے ڈی این اے میں اتنا ہی کم فرق ہوگا۔ 99.9 فیصد ڈی این اے ایک بندے کا دوسرے سے ملتا جلتا ہو سکتا ہے۔ تاہم ’’پوائنٹ ون‘‘ کا فرق ہوسکتا ہے۔ قریبی رشتے میں پوائنٹ ون سے بھی کم فرق ہوسکتا ہے۔ لیکن زیادہ تر پوائنٹ ون کا فرق ہوتا ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ بینادی طور پر انسان کی پہچان کیلئے کیا جاتا ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ اس لیب کے ٹیسٹ کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ یہ لیب جرم ثابت کر رہی ہے۔ لیب کا اصل کام ہے کہ شک کی بنیاد پر لائے جانے والے انسان کا اور کرائم سین سے ملنے والا بایالوجیکل مٹیریل دونوں ایک ہیں یا نہیں۔ اگر اس انسان کا ڈی این اے کرائم سین سے حاصل مٹیریل سے مل جاتا ہے تو اس کی انفرادی طور پر تفتیش کی جائے گی اور اس بندے کو بتانا ہوگا کہ یہ آپ کا ڈی این اے کرائم سین پر کیسے پہنچا۔ تاہم لیبارٹری عدالت نہیں ہے۔ جو فیصلہ کرے۔ لیب مختلف کیسز میں پولیس کو ٹیسٹ کے تحت تعاون فراہم کرتی ہے۔
ایک اور سوال پرانہوں نے کہا ’’ڈی این اے ٹیسٹ کرنا کسی یونیورسٹی کا کام نہیں۔ گورنمنٹ کی سفارش پر اسے شروع کیا گیا۔ ایس ایف ڈی لیبارٹری سپریم کورٹ آف پاکستان کے سپر ویژن میں محکمہ صحت سندھ کے مالی تعاون سے بنائی گئی۔ جو تقریباً 4 برس سے اپنا کام احسن انداز میں کر رہی ہے‘‘۔ ڈاکٹر اشتیاق نے مزید بتایا کہ یہاں کراچی اور سندھ سے سمپیل آتے ہی۔ ڈی این اے کی ٹیسٹ رپورٹ 4 ہفتوں میں آجاتی ہے۔ تاہم ایمرجنسی کی صورت میں 48 گھنٹوں میں بھی ڈی این اے کی رپورٹ جمع کروائی گئی ہے۔