کراچی(امت نیوز) وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہونےکہاہے کہ چین میں پھیلنےوالا کووڈ کا نیا ویرینٹ ابھی پاکستان میں نہیں آیا لیکن ہمیں ابھی سے اس سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ ملکی معاشی صورتحال ایسی نہیں کہ پہلے کی طرح اس کا مقابلہ کر سکیں، بہتر ہے کہ احتیاط کی جائے۔ این سی او سی کو خط لکھ دیا ہے۔ کورونا کی پچھلی لہر میں اختیار کئے گئے ایس او پیز میں کچھ نئے شامل کرکے ان پر عمل درآمد کرایا جائے۔
یہ باتیں انہوں نے ڈاؤ میڈیکل کالج کی کلاس 97 (ڈاؤ 97 فاؤنڈیشن) کی جانب سے سول اسپتال کراچی میں بنائے گئے بچوں کے امراض قلب کے ایچ ڈی وارڈ کی افتتاحی تقریب سے خطاب اور میڈیا کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہیں۔ افتتاحی تقریب سے ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی، ڈاؤ کلاس 97 کے صدر ڈاکٹر غضنفر قریشی، ڈاکٹر ناہید مہر، ڈاکٹر عمارہ جمال اور ڈاکٹر رتھ کے ایم فاؤ سول اسپتال کراچی کی ایم ایس ڈاکٹر روبینہ بشیر نے خطاب کیا۔
ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے کہا کہ حکومت کی کوششیں ہیں کہ کووڈ کا نیا ویرینٹ نہ پھیلے۔ یہ وبا اگر پھر سے پھیل گئی تو ہمارے لوگوں میں نہ سکت ہے اور نہ ملک کی معاشی صورت حال ایسی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کووڈ کی ٹیسٹنگ علاج میں ایچ ڈی یو، آئی سی یو وغیرہ چلانے پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں، ظاہر ہے اب اس طرح کے خرچے نہیں کرسکتے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ احتیاط سے کام لیں اور ابھی سے احتیاط کا آغاز کردیں
انہوں نے بتایا کہ ۔ اس وقت ہمارے پاس فائزر ویکسین کی دو لاکھ خوراکیں موجود ہیں، 65 سال سے زائد عمر کے افراد جنہیں ویکسین لگائے 6 ماہ ہو چکے ہیں انہیں فوری طور پر فائزر کا بوسٹر لگایا جائے گا اور 65 سال سے کم عمر افراد احتیاط کریں مزید ہم ورلڈ آرگنائزیشنز سے کوشش کر کے نئی ویکسین منگوانے کا انتظام کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ فائزر نے نئی ویکسین بنائی ہے جو نئے ویرینٹ کے خلاف بھی موثر ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملٹی نیشنل کمپنیز قیمتیں نہ بڑھانے پر احتجاج کرتے ہوئے جا رہی ہیں، اب ہماری کوشش ہے کہ بات چیت کر کے کچھ بڑھا دیں۔ کیونکہ یہ دوائیں امپورٹ کرنا ہمیں اور بھی مہنگا پڑے گا۔ اس لئے ڈریپ سے بات ہو گئی ہے کہ باقی رہ جانے والے بین الاقوامی دو اساز اداروں سے بات کر کے قیمتوں پر نظرِ ثانی کریں کیونکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ خام مال درآمد کرنا ان دواساز کمپنیوں کو مہنگا پڑ رہا ہے۔
قبل ازیں افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بچوں میں دل کے امراض کی بڑی وجہ کزن میرج ہے مجموعی طور پر بچوں میں پیدائشی امراض میں اضافے اضافہ ہوا ہے۔ دل کی بیماری ہی نہیں دیگر پیدائشی امراض بھی بڑھے ہیں۔ چونکہ یہ امراض جینیاتی طور پر منتقل ہوتی ہیں انہوں نے کہا کہ بچوں کے سرجری وارڈز ضرورت ہیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ویسکولر ڈیزیز میں پیڈیا ٹرک کارڈیالوجی کی سرجری بھی ہو رہی ہے لیکن میرا خیال ہے ایسے مزید یونٹس بھی ہوں تو ہم کسی حد تک ضرورت پر قابو پا سکتے ہیں۔ سرجیکل پیڈیا ٹرک کارڈیالوجی کی بھی یہاں ضرورت ہے مگر سول اسپتال میں جگہ کا بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ ڈاؤ کلاس 97 نے یہ کام سر انجام دیا اور لوگوں سے بھی ہمیں امید ہے کہ وہ اسی طرح مریضوں کی خدمت کے حوالے سے تعاون کریں گے۔ انہوں نے ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی کی جانب سے نئے قائم ہونے والے پیڈیا ٹرک کارڈیالوجی وائٹ میں نرسنگ سٹاف کی ضرورت سے متعلق درخواست پر فوری احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ جلد ہی مطلوبہ نرسنگ اسٹاف آپ کو فراہم کردیا جائے گا۔ ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ ڈاؤ میڈیکل کالج کے سابق طلبا کا یہ جذبہ قابل ستائش ہے کہ وہ وہ اپنے مادر علمی اور اس سے منسلک تدریسی اسپتال کے لئے کچھ ایسا عطیہ ضرور کرتے ہیں جس سے یہاں پڑھنے والے طلباء اور یہاں آنے والے مریضوں کی خدمت ہوتی ہے گزشتہ بارہ تیرہ برس سال سے میں خود براہ راست ان تمام امور کو دیکھ رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ سے پہلے اسپتال کراچی میں مختلف سہولت ہوگا اضافہ ہو رہا ہے جیسے آج پیڈیا ٹرک کارڈیالوجی کا افتتاح ہوا۔ قبل ازیں ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے ربن کاٹ کر پیڈیا ٹرک کارڈیالوجی کا ہائی ڈیپین ڈینسی یونٹ (ایچ ڈی یو) کا افتتاح کیا۔ اور اس کا تفصیلی معائنہ بھی کیا اس دوران انہوں نے نے یو نٹ میں علاج و دیگر ضروریات سے متعلق سوالات بھی کیے۔ افتتاحی تقریب کی آخر میں وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے ڈاؤ 97 فاؤنڈیشن کے عہدے داران کو شیلڈز بھی دیں۔۔