سید نبیل اختر:
سول ایوی ایشن اتھارٹی کی غفلت کے سبب پی آئی اے سمیت ملکی اور غیر ملکی فضائی کمپنیوں کو کروڑوں کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ صرف ماہ دسمبر میں دھند کے باعث 150 سے زائد ملکی و غیر ملکی پروازیں منسوخ ہوئیں۔ 5 برس گزرنے کے باوجود کوئٹہ، کراچی، پشاور، اسکردو، فیصل آباد اور ملتان کے ہوائی اڈے اپ گریڈ نہیں کیے جاسکے۔
2016ء میں لاہور کا علامہ اقبال ایئر پورٹ اور 2018ء میں نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ انسٹرومنٹ لینڈنگ سسٹم کیٹگری 3 پر اپ گریڈ کیا گیا تھا۔ 2016ء میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ دھند سے نمٹنے کیلئے کراچی سمیت ملک کے بڑے ہوائی اڈے اپ گریڈ کردیئے جائیں گے۔ لیکن سی اے اے کی انتظامیہ ہوائی اڈوں کی اپ گریڈیشن میں ناکام رہی۔ لاہور اور فیصل آباد لینڈنگ نہ کر پانے والے طیاروں کی اسلام آباد منتقلی بھی فضائی کمپنیوں کے لیے درد سر بن گئی۔ سلاٹ حاصل کرنے کیلئے فضائی کمپنیوں کی درخواستوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ غیر ملکی کمپنیاں ترجیح، قومی ایئر لائنز رل گئیں۔ طیاروں کے ہوائی اڈے نہ پہنچنے پر سول ایوی ایشن کو بھی کروڑوں کا نقصان پہنچ رہا ہے۔
دو ہزار سولہ میں سول ایوی ایشن اتھارٹی کی اس وقت کی انتظامیہ نے دھند کے باعث پروازوں کی بڑے پیمانے پر پروازوں کی منسوخی کے بعد لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو اپ گریڈ کرکے رن وے پر انسٹرومنٹ لینڈنگ سسٹم کیٹگری تھری نصب کیا تھا۔ سی اے اے کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ 2016ء کی ایک درمیانی شب سے صبح تک شدید دھند اور ریکارڈ شدہ 150 میٹر کی کم ترین حد نگاہ میں انسٹرومنٹ لینڈنگ سسٹم CAT IIIB (ILS CAT IIIB) کے ذریعے مقامی اور بین الاقومی فلائٹس نے انتہائی سہولت کے ساتھ بحفاظت لینڈنگ کی۔ اس شب شدید دھند میں لاہور ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے والی چھ قومی اور بین الاقوامی فلائٹس میں ترکش ایئر لائن TK 714، پی آئی اے فلائٹس PK 752, PK 710, PK 899، ایئر بلیو 471 PA اور قطر ایئرویز 628 QR شامل تھیں۔ جبکہ تین فلائٹس جہازوں میں سسٹم کی عدم دستیابی اور پائلٹس کے سرٹیفائیڈ نہ ہونے پر لینڈ نہ کر سکیں۔
سی اے اے حکام کی جانب سے فضائی کمپنیوں کو ہدایات بھی کی گئیں کہ تمام ایئرلائنز ILS استعمال کرنے اور ترجیحی بنیادوں پر اپنے پائلٹس کو اس کی تربیت دینے کے حوالے سے اقدامات کریں۔ تاکہ مسافروں کی سہولت کے ساتھ ساتھ جہازوں کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جاسکے۔ سی اے اے حکام نے اس وقت دعویٰ کیا تھا کہ لاہور کے بعد اسلام آباد، کراچی، اسکردو، ملتان، فیصل آباد اور کوئٹہ کے ہوائی اڈوں کی اپ گریڈیشن کی جائے گی۔ تاکہ موسم کی خرابی کے باعث پروازیں منسوخ نہ ہوں۔ لیکن 5 برس گزرنے کے باوجود سی اے اے انتظامیہ مذکورہ ہوائی اڈوں کی اپ گریڈیشن میں ناکام رہی۔
کراچی ایئرپورٹ کے حوالے سے معلوم ہوا کہ یہ ہوائی اڈہ اپنے قیام سے اب تک آئی ایل ایس کیٹگری ون کے تحت آپریٹ کیا جارہا ہے۔ آئی ایل ایس کیٹ ون رن وے پر طیاروں کی لینڈنگ اور ٹیک آف کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ جس میں حد نگاہ کم ہونے پر لینڈنگ نہیں کی جاسکتی۔ یہی صورتحال کوئٹہ، فیصل آباد اور ملتان کے ہوائی اڈوں پر بھی ہے۔ تاہم دھند کے باعث لاہور کے ہوائی اڈے پر بھی آئی ایل ایس کیٹ تھری انسٹالیشن کے باوجود پروازیں نہیں اتاری جارہیں اور وہاں آنے والی پروازوں کو اسلام آباد منتقل کیا جارہا ہے۔
ایک طرف جہاں سلاٹ ملنا فضائی کمپنیوں کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ وہیں سی اے اے کی جانب سے پروازوں کو کلیئرنس نہ ملنے پر ملکی و غیر ملکی فضائی کمپنیوں کو ہوٹل میں قیام کے دوران کروڑوں روپے کی اضافی ادائیگیاں بھی کرنا پڑی ہیں۔ سی اے اے کے ایک افسر کے مطابق شیڈول کے باوجود پاکستانی ہوائی اڈے پر پرواز کے نہ اترنے سے ڈومیسٹک فلائٹ پر ایک لاکھ، جبکہ غیر ملکی پرواز پر فی فلائٹ پانچ لاکھ روپے کا نقصان قومی خزانے کو پہنچتا ہے۔
ایئر لائنزپر بڑھنے والے بوجھ سے متعلق افسر کا کہنا تھا کہ پروازوں کی منسوخی پر ڈیمانڈ سپلائی فارمولے کے تحت زائد کرائے کا بوجھ مسافروں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ تاہم اس سب کی ذمہ داری سی اے اے پر عائد ہوتی ہے۔ جس نے اپنے ہوائی اڈے اپ گریڈ نہیں کیے۔ اہم ذرائع نے بتایا کہ فضائی کمپنیوں کو ماہ دسمبر کراچی ایئرپورٹ سمیت ملکی ہوائی اڈوں پر طیارے لینڈ کرانے میں کافی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ جس کی بڑی وجہ موسم کی خرابی بتائی جاتی ہے۔ دھند کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیوں کی شیڈول پروازیں سب سے زیادہ متاثر ہوئیں۔ جنہیں پروازوں کے کنیکٹنگ ہونے کی وجہ سے بیرون ملک مسافروں کے ہوٹل میں قیام پر فی فلائٹ لاکھوں روپے خرچ کرنا پڑے ہیں۔ اگر اس تعداد کو مہینے کے حساب سے گنا جائے تو یہ اخراجات کروڑوں میں پہنچتے ہیں۔
پروازوں کی منسوخی کی صورت میں فضائی کمپنیاں اپنا آدھا نقصان ڈیمانڈ و سپلائی کے فارمولے کے تحت کم کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ تاہم پروازیں دوبارہ شیڈول کرنے سے انہیں کافی نقصان پہنچتا ہے۔ جن فضائی کمپنیوں کے پاس کم طیارے ہیں۔ انہیں زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ان کے طیارے پروازوں کے ری شیڈول ہونے اور دوبارہ اجازت ملنے تک ہوائی اڈوں میں پھنسے رہتے ہیں۔ ڈیمانڈ و سپلائی کے حوالے سے قومی ایئرلائن کے ایک افسر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جب فلیٹ سے طیارہ نکل جاتا ہے تو ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے اور طیارے کی ایک نشست کے لیے دو مسافر موجود ہوتے ہیں۔ ایسے میں آر بی ڈی بڑھ جاتی ہے اور کرائے ایک خود کار فارمولے کے مطابق زیادہ ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسے ایئرلائنز کی جانب سے کرائے میں اضافہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ دنیا بھر میں یہ نظام رائج ہے۔ پی آئی اے کی ڈومیسٹک پرواز میں کرائے دس سے بیس ہزار روپے زائد بھی وصول کیے جاتے ہیں۔ جنہیں کہیں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ڈیمانڈ زیادہ ہونے کی وجہ سے ٹکٹ مہنگا ہوجاتا ہے اور ٹکٹنگ کا خودکار نظام اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ اس میں انسانوں کا کوئی دخل نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان دنوں موسم کی خرابی کی وجہ سے پی آئی اے سمیت تمام غیر ملکی فضائی کمپنیوں کے ٹکٹ مہنگے ہیں اور اس کی وجوہات بیان کی جا چکیں۔ اگر آپ دو ماہ قبل کراچی سے اسلام آباد کا ٹکٹ بک کرائیں تو وہ ٹکٹ آپ کو سولہ ہزار روپے میں مل جائے گا۔ جبکہ اسی فلائٹ کا ٹکٹ ایک روز پہلے بک کرانے پر وہی ٹکٹ پچیس سے تیس ہزار روپے میں ملے گا۔ جو ڈیمانڈ و سپلائی کے فارمولے کے تحت مہنگا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پروازوں کی منسوخی پر ٹکٹ مہنگا ہونے سے فضائی کمپنیاں اپنا نصف خسارہ پورا کر پاتی ہیں۔
دوسری جانب سول ایوی ایشن اتھارٹی کی غفلت کی وجہ سے بھی فضائی کمپنیوں کو گزشتہ 5 برسوں سے سالانہ کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ سی اے اے نے انسٹرومنٹ لینڈنگ نظام کو اپگریڈ نہیں کیا۔ پاکستانی ہوائی اڈوں میں انسٹرومنٹ لینڈنگ سسٹم III (آئی ایل ایس کیٹ تھری) کے حامل ہوائی اڈے لاہور کا علامہ اقبال اور اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ ہے۔ جسے اب تک آئی ایل ایس کیٹ تھری سے کہیں زیادہ اپگریڈ ہوجانا چاہیے تھا۔ کیونکہ دھند کے دوران لاہور ایئرپورٹ پر پروازوں کی منسوخی معمول بن چکی ہے۔ کراچی سمیت دیگر ہوائی اڈے آئی ایل ایس کیٹ ون کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ جس میں موسم کی معمولی تبدیلی بھی پروازوں کی منسوخی کا سبب بنتی ہے۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سابق ڈی جی محمد یوسف کے دور میں کراچی سمیت ان تمام ہوائی اڈوں کی اپگریڈیشن کی منظوری بورڈ آف ڈائریکٹرز نے دی تھی۔ جو انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم آنے والے ڈی جیز کی تبدیلی کے باوجود ہوائی اڈوں کے انسٹرومنٹ لینڈنگ سسٹم کی اپگریڈیشن پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ جس سے خزانے کو گزشتہ پانچ برس کے دوران بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
’’امت‘‘ کو سول ایوی ایشن اتھارٹی کے شعبہ فنانس کے ایک ذمہ دار افسر نے بتایا کہ پروازوں کی منسوخی سی اے اے کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ کیونکہ ملکی پرواز جو چھوٹے طیارے کی ہو۔ اس کی منسوخی پر 80 ہزار۔ جبکہ بڑے طیارے کی ڈومیسٹک پرواز کے منسوخ ہونے پر ایک لاکھ روپے کا نقصان پہنچتا ہے۔ اسی طرح بیرون ملک سے آنے والی چھوٹے طیارے کی پرواز منسوخ ہونے پر چار لاکھ اور بڑے طیارے کی پرواز منسوخ ہونے پر پانچ لاکھ روپے سی اے اے کے کھاتوں میں نہیں آ پاتے۔
انہوں نے بتایا کہ اگر ہوائی اڈوں کی اپگریڈیشن کردی جائے تو خراب موسم میں بھی لائٹس کی مدد سے پروازوں کو اتارا جاسکتا ہے۔ تاہم کراچی کا ہوائی اڈہ آئی ایل ایس ون کے تحت آپریٹ ہونے پر ایئر ٹریفک کنٹرولرز کسی قسم کا خطرہ مول نہ لیتے ہوئے ایئر ٹرانسپورٹ ڈائریکٹریٹ سے موسم بہتر ہونے تک پرواز کی منسوخی کی سفارش کرتے ہیں۔
ایئر ٹرانسپورٹ ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے بیرون ملک سے آنے والی ملکی و غیر ملکی فضائی کمپنیوں کو موسم سے متعلق آگاہی فراہم کرتے ہوئے طیارے کی آمد کا فیصلہ انہی پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جبکہ بیشتر فضائی کمپنیاں موسم ٹھیک ہونے کو ترجیح دیتے ہوئے پروازیں منسوخ کرنے کا اعلان کردیتی ہیں۔ پرواز کی منسوخی پر سب سے زیادہ متاثر وہ ایئر لائنز ہوتی ہیں۔ جو کنکٹنگ پروازوں پر شیڈول کرتی ہیں۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ مسافر اٹھا سکیں۔ لیکن پرواز کی منسوخی پر ایئر لائنز کو مسافروں کو بیرون ملک ہوٹل میں قیام کرانا پڑتا ہے۔ جس پر انہیں لاکھوں روپے کی اضافی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ ماہ دسمبر کے آخری تین دنوں میں بھی ملکی و غیر ملکی 20 سے زائد پروازیں منسوخ اور درجنوں 12 سے 24 گھنٹے تک تاخیر کا شکار ہوئیں۔
رواں ہفتے دو روز کے دوران 13 بین الاقوامی، جبکہ 8 ملکی پروازیں منسوخ کردی گئیں۔ جن میں جدہ، ابوظہبی، مسقط، دبئی، شارجہ، بینکاک اور بغداد سے آنے والی پروازیں شامل ہیں۔ اسی طرح جناح انٹر نیشنل ایئرپورٹ کراچی پہنچنے والی 6 ملکی پروازیں بھی منسوخ کی گئیں۔ جن میں ملتان، بہاولپور، گوادر، فیصل آباد، سوئی اور لاہور سے آنے والی پروازیں شامل ہیں۔ علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کراچی اور استنبول سے آنے والی پروازیں منسوخ کی گئیں۔ جبکہ جدہ سے لاہور پہنچنے والی پرواز پی کے 740 گیارہ گھنٹے تاخیر کا شکار ہوئی۔ دبئی سے لاہور جانے والی پرواز پی کے 204 ایک دن، مسقط سے لاہور پہنچنے والی پرواز 4 گھنٹے، ابوظہبی سے لاہور جانے والی پرواز پی کے 264 تین گھنٹے، کراچی سے لاہور جانے والی پرواز 4 گھنٹے اور باکو سے لاہور جانے والی پرواز 2 گھنٹے تاخیر کا شکار ہوئی۔
اسلام آباد ایئرپورٹ پر ابوظہبی اور اسکردو سے پہنچنے والی پروازیں منسوخ کردی گئیں۔ جدہ سے اسلام آباد پہنچنے والی پرواز پی کے 741 سولہ گھنٹے تاخیر کا شکار ہوئی۔ اسی طرح جدہ سے اسلام آباد پہنچنے والی پرواز پی کے 841 چارگھنٹے، گلگت سے اسلام آباد پہنچنے والی پرواز پی کے 601 دو گھنٹے تاخیر کا شکار ہوئی۔ ہشاور کے باچا خان انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر دبئی سے پشاور ایئرپورٹ پہنچنے والی پرواز منسوخ کی گئی۔ جدہ سے پشاور ایئرپورٹ پہنچنے والی پرواز پی کے 735 بارہ گھنٹے تاخیر کا شکار ہوئی۔ جبکہ جدہ سے ملتان ایئرپورٹ پہنچنے والی پرواز منسوخ کردی گئی۔ فیصل آباد ایئرپورٹ پر دبئی سے آنے والی پرواز دو گھنٹے تاخیر سے پہنچی۔
منگل کے روز بھی دھند کے باعث فلائٹ آپریشن متاثر رہا۔ کویت سے کراچی پہنچنے والی پرواز 4 گھنٹے تاخیر کا شکار ہوئی۔ کوئٹہ سے کراچی پہنچنے والی پرواز 30 منٹ تاخیر کا شکار ہونے کے بعد جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ پہنچی۔ لاہور سے کراچی پہنچنے والی پرواز ڈیڑھ گھنٹہ تاخیرکے بعد پہنچی۔ مدینہ سے کراچی جانے والی پرواز پی کے 9744 اور ملتان سے کراچی جانے والی پرواز پی کے 331 منسوخ کر دی گئی۔ جدہ سے کراچی پہنچنے والی پرواز پی کے 372 ایک گھنٹہ تاخیر کا شکار ہوئی۔ پی آئی اے کی کوئٹہ سے لاہور جانے والی پرواز پی کے 323 پینتالیس منٹ تاخیر کا شکار ہوئی۔ ابو ظہبی سے شام کو لاہور آنے والی پرواز کو اسلام آباد ایئرپورٹ منتقل کیا گیا۔
اسی طرح دبئی سے فیصل آباد پہنچنے والی پرواز 3 گھنٹے، شارجہ سے فیصل آباد پہنچنے والی پرواز 2 گھنٹے، دبئی سے ملتان پہنچنے والی دونوں پروازیں 4 گھنٹے تاخیر کا شکار ہوئیں۔ دبئی سے ملتان پہنچنے والی پرواز پی اے 811 تین گھنٹے اور جدہ سے ملتان پہنچنے والی پرواز پی اے 871 بھی تین گھنٹے تاخیر کا شکار ہوئی۔ 30 دسمبر 2022ء کو ترجمان سول ایوی ایشن اتھارٹی نے ڈائورٹ فلائیٹ رپورٹ جاری کی۔ جس میں بتایا گیا کہ یہ فلائٹس صبح 8 سے رات 8 بجے کے درمیان اسلام آباد پہنچیں۔ ان فلائٹس کو دوسرے ایئرپورٹس پر دھند کے باعث اسلام آباد ڈائیورٹ کیا گیا۔
تفصیل بتاتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ کویت سے آنے والی پی کے 240 کو سیالکوٹ سے اسلام آباد ڈائیورٹ کیا گیا۔ دوحہ سے آنے والی پی کے 286 کو پشاور سے اسلام آباد ڈائیورٹ کیا گیا۔ جدہ سے آنے والی پی کے 760 کو لاہور سے اسلام آباد ڈائیورٹ کیا گیا۔ پروازوں کی منسوخی، اپ گریڈیشن نہ ہونے سے متعلق سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان نے مؤقف میں کہا کہ دھند اور موسم کی خرابی سے پروازوں کی تاخیر یا منسوخی کا معاملہ فضائی کمپنی کا ہے۔ اس سے سول ایوی ایشن اتھارٹی کا کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد اور لاہور کے ہوائی اڈے آئی ایل ایس کیٹگری تھری، جبکہ کراچی اور دیگر بڑے ہوائی اڈے آئی ایل ایس کیٹ ون کے تحت کام کر رہے ہیں۔
ترجمان کے مطابق کوئٹہ ایئرپورٹ کو اپ گریڈ کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ جو پہلے آئی ایل ایس کیٹگری ون پر آپریٹ کیا جارہا تھا۔ منصوبہ مکمل ہونے پر کوئٹہ کا ہوائی اڈہ کیٹگری ٹو پر آپریشن کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہوائی اڈوں کی اپ گریڈیشن کے ساتھ ساتھ فضائی کمپنیوں کے سسٹم اپ گریڈ کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستانی فضائی کمپنیوں کے جہاز اپ گریڈ نہ ہوں تو وہ آئی ایل ایس کیٹ تھری پر بھی فلائٹ آپریشن نہیں کرتے۔ اسی رن وے پر دھند کے باوجود غیر ملکی فضائی کمپنی کا طیارہ لینڈ اور ٹیک آف کرلیتا ہے۔