نواز طاہر :
تحریکِ انصاف کے باغی دیرینہ رہنمائوں نے مرکزی اور صوبائی سطح پر سیاسی کردار کیلئے حکمتِ عملی تبدیل کرلی ہے۔ فوری طور پر نئی الگ جماعت بنانے اور اعلان کرنے کا عمل موخر کر کے گروپ کو مضبوط بنانے اور اس کا نیا نام گروپ کی اجتماعی مشاورت اور رائے سے تجویز کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ایک ہفتے سے تحریکِ انصاف کے اہم رہنمائوں خاص طور پر جہانگیر ترین، چودھری سرور اور علیم خان کے حوالے سے پی ٹی آئی کے دیرینہ ساتھیوں کو ملا کر نئی پارٹی بنانے کی اطلاعات عام تھیں۔ لیکن ان رہنمائوں کی طرف سے ان اطلاعات کو درست قرار نہیں دیا گیا۔ اس ضمن میں جہانگیر ترین گروپ کی جانب سے واضح کیا گیا کہ یہ گروپ پی ڈی ایم کی حکومت کا حصہ ہے۔ نئی جماعت نہیں بنائی جارہی۔ اس گروپ کے رہنما عون چودھری نے کہا ہے کہ جہانگیر ترین، علیم خان یا چوہدری سرور کوئی نئی جماعت نہیں بنا رہے۔ وہ اس وقت حکومت کا حصہ ہیں اور حکومت کے ساتھ ہی کھڑے ہیں۔ اتوار کو پنجاب کے سابق سینئر وزیر علیم خان نے واضح کیا کہ وہ نئی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہو رہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ سابق گورنر چودھری سرور اور سابق وزیر جہانگیر ترین سے ان کے گہرے اور خوشگوار تعلقات اور رابطے برقرار ہیں۔ لیکن سیاسی عمل میں جس طرح غیر فعال دکھائی دے رہے ہیں۔ اسی طرح غیر فعال اور دیگر امور میں مصروف ہیں۔
خیال رہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی بزدار حکومت ختم کرانے میں اہم کردار ادا کرنے کے بعد سے علیم خان فعال سیاسی سرگرمیوں سے زیادہ اپنے کاروباری امور میں مصروف ہیں۔ پنجاب کی صوبائی حکومت کی طرف سے ان کے خلاف سخت ترین اقدامات بھی اٹھائے گئے۔ لیکن انہوں نے پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے حوالے سے اپنا سیاسی موقف برقرار رکھا۔ جبکہ انہیں منانے اور عمران خان کے ساتھ دوبارہ ہاتھ ملانے کی تمام کوشیں ناکام چکی ہیں۔
ایسی کوششیں حال ہی میں جہانگیر ترین اور عمران خان کو دوبارہ قریب لانے کیلئے بھی کی جانے کی اطلاعات سامنے آئیں۔ لیکن بتایا جارہا ہے کہ یہ کوششیں بھی ناکام ہوگئی ہیں۔ اس گروپ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کی پالیسیوں کے باعث ان سے علیحدگی اختیار کرنے والے جہانگیر ترین، علیم خان اور چودھری سرور کے ساتھ ساتھ سابق ارکان اسمبلی سیاسی سرگرمیوں میں انتہائی سرگرم ہیں۔ البتہ علیم خان کھل کر سیاسی منظر پر سامنے نہیں آرہے اور یہ گروپ طاقت پکڑ رہا ہے۔ سابق گورنر چودھری محمد سرور کے قریبی ذرائع کے مطابق نئی پارٹی بنانے کی خبریں میڈیا کے ذریعے ہی سامنے آئی ہیں۔ جبکہ عملی طور پر تو گرائونڈ میں تاحال کچھ نہیں ہے۔
دوسری جانب ’’امت‘‘ کو باوثوق ذرائع نے بتایا ہے کہ پی ٹی آئی کے گروپ نے جن سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ان کے ساتھ اپنی نئی جماعت بنانے کے حوالے سے کوئی عندیہ نہیں دیا گیا۔ بلکہ سیاسی عمل میں مل کر چلنے پر ہی بات کی گئی اور اتفاق کیا گیا ہے۔
ان ذرائع کے مطابق سیاسی ملاقات میں سیاست دان اپنے پتے شو نہیں کرتے اور اس گروپ نے ابھی اپنے تمام پتے شو نہیں کیے۔ البتہ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ پی ٹی آئی کے بیس سے زائد اراکین اس گروپ کے ساتھ رابطے اور اعتماد میں ہیں۔ جو موجودہ سیاسی سیٹ اپ اور صورتحال میں بھی اہم کردار ادا کریں گے اور اگلے الیکشن میں بھی ان کاکلیدی کردار ہوگا۔ ان ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کا اصولوں کی بنیاد پر ساتھ دینے والوں کو عمران خان اور ان کے کلوز ڈور سرکل کی وجہ سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور یہ کہ جن امور کی وہ عمران خان سے نشاندہی کرتے رہے، لیکن عمران خان انہیں نظر نداز کرتے رہے۔ اب عران خان انہی کی وجہ سے پریشان ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ عمران خان کو سب سے زیادہ فرح گوگی کی وجہ سے پریشانی کا سامنا ہے۔ جن کے نیٹ ورک میں رہنے والے تین سے چار افراد بہت سی تفصیلات فراہم کرچکے ہیں۔ عمران خان ان دنوں اسی وجہ سے تلملا رہے ہیں اور انہیں اپنے مزید تنہا ہونے کا احساس بڑھ گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے دیرینہ اور ناراض رہنما پارٹی ضرور بنائیں گے اور ان کی پارٹی کا منشور بھی پی ٹی آئی کا اولین منشور ہی ہوگا اور نام میں بھی انصاف کا لفظ شامل ہوگا۔
پی ٹی آئی کے ان ناراض اور سینئر دیرینہ رہنمائوں کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی اگلے کچھ ہی روز میں بہت کچھ نمایاں ہونے والا ہے اور اہم رہنما متحرک ہونے والے ہیں۔ یہ گروپ کھل کر سامنے آجائے گا اور اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا۔ صرف پنجاب اور خیبرپختون ہی میں نہیں۔ سندھ میں بھی اس گروپ کی صف مضبوط ہو رہی ہے۔ ابھی تو اس گروپ کے لوگوں کی توجہ جنوبی پنجاب پر ہے۔ جب وسطی پنجاب سے بھی چہرے سامنے آئیں گے توعمران خان اور ان کے مفاد پرست ٹولے کی آنکھیں پھٹی رہ جائیں گی۔
ذرائع کے اس دعوے کی تائید کرتے ہوئے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک سابق رکن اسمبلی کا کہنا ہے کہ ’’ہم لنگوٹ کس چکے ہیں اور میدان میں اترنے والے ہیں۔ قوم تبدیلی دیکھنے کیلئے تیار رہے‘‘۔