ندیم محمود :
کامیاب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو گھر بھیجنے کے بعد فوری الیکشن کے بجائے حکومت چلانے کا فیصلہ اگرچہ اپوزیشن اتحاد نے مل کر کیا تھا۔ تاہم اس فیصلے کی سب سے بھاری سیاسی قیمت بلاشبہ نون لیگ کو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ کیونکہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے وزارت عظمی کا بھاری پتھر چومنا پڑا۔
اتحادیوں کی جانب سے اقتدار میں رہنے کے فیصلے کے پیچھے دراصل مبینہ دس سالہ منصوبے کا خوف بھی تھا۔ جس کی بازگشت میڈیا میں ہوتی رہی ہے۔ اس مبینہ منصوبے سے منسوب تھیوری یہ تھی کہ جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد اگلے آرمی چیف جنرل فیض حمید ہوں گے۔ یوں ان کی زیر نگرانی آئندہ انتخابات بھی جیت کر تحریک انصاف مزید پانچ برس کے لئے اقتدار میں آجائے گی۔ اس مبینہ دس سالہ منصوبے میں کتنی حقیقت تھی اور کتنا فسانہ۔ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن یہ درست ہے کہ نون لیگ سمیت اس وقت کی اپوزیشن کو یہ خوف لاحق تھا۔ اس کا آف دی ریکارڈ اظہار اپوزیشن کے ایک سے زائد رہنماؤں نے اس نمائندے سے بھی کیا تھا۔ بعد میں یہی خوف فوری الیکشن کے بجائے حکومت سنبھالنے کے فیصلے کا سبب بنا۔ اس کے پیچھے دیگر عوامل اور مجبوریاں بھی تھیں۔ تاہم بڑی وجہ متذکرہ خوف تھا۔
جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ اقتدار میں رہنے کا فیصلہ مشترکہ تھا۔ تاہم اپنے اتحادیوں کے اصرار پر وزارت عظمی قبول کر کے نون لیگ جال میں پھنس گئی۔ ایسا نہیں کہ اسے علم نہیں تھا کہ موجودہ حالات میں وزارت عظمیٰ کا قلمدان، کانٹوں بھری سیج کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اسے ادراک تھا کہ محض سوا برس کے اقتدار میں عوامی امنگوں پر اترنا آسان نہیں ہوگا۔ لہٰذا قیادت سنبھالنے والی پارٹی کو بدترین سیاسی خسارے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں نون لیگ کی کوشش تھی کہ وہ وزارت عظمیٰ کا منصب نہ لے۔ ان دنوں راقم سے ٹیلی فون پر خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نون لیگ کے پارلیمانی لیڈر اور سینئر رہنما خواجہ آصف نے اسی نوعیت کا عندیہ دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جانے پر پیپلز پارٹی اپنا وزیر اعظم لانا چاہے تو ان کی پارٹی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ دراصل اس فراخ دلی کے پیچھے جذبہ خیرسگالی نہیں۔ بلکہ سیاسی قیمت چکانے کا خوف تھا۔
خواجہ آصف کا یہ انٹرویو تین دسمبر دو ہزار اکیس کو ’’امت‘‘ کے ان ہی صفحات پر شائع ہوا تھا اور اب بھی ای پیپر کے آرکائیوز میں موجود ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ابھی عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا آپشن استعمال کرنے پر اپوزیشن پارٹیوں کے مابین اتفاق رائے نہیں ہوا تھا۔ تاہم مشاورت چل رہی تھی۔ تب نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن ان ہاؤس تبدیلی کے بجائے اجتماعی استعفوں اور لانگ مارچ کے ذریعے عمران خان کو گھر بھیجنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ تاہم پیپلز پارٹی بلکہ آصف زرداری کا اصرار تھا کہ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے آئینی طریقے سے معزول کیا جائے۔
دلچسپ امر ہے کہ شہباز شریف اور خواجہ آصف سمیت نون لیگ کے دیگر اہم رہنما بھی آصف زرداری کی اس تجویز سے اتفاق کرتے تھے۔ اور ان کا خیال تھا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے کے لئے موزوں ترین وقت آچکا ہے۔ اس کا اظہار آف دی ریکارڈ ایک اہم نون لیگی رہنمانے راقم سے بھی کیا تھا۔ کیونکہ ایک ماہ قبل نومبر دو ہزار اکیس میں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کا تبادلہ کر کے انہیں کور کمانڈر پشاور مقرر کیا جاچکا تھا۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ نواز شریف تحریک عدم اعتماد پر راضی نہیں تھے اور پھر یہ کہ اس پر مولانا فضل الرحمن بھی ان کے ہمنوا تھے۔
آخرکار فروری دو ہزار بائیس کے اواخر میں نواز شریف عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر آمادہ ہوگئے۔ پی ڈی ایم ذرائع کے مطابق یہ ٹاسک آصف زرداری نے مولانا فضل الرحمن کے ذریعے پورا کیا۔ زرداری نے پہلے اس پر مولانا فضل الرحمن کو منایا اور پھر انہیں نواز شریف کو قائل کرنے کا کہا۔ یوں اپوزیشن اتحاد نے اتفاق رائے سے اپریل کے دوسرے ہفتے میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کر دیا۔
اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کا اس قدر یقین تھا کہ پہلے ہی یہ طے کر لیا گیا کہ عمران کو فارغ کرنے کے بعد اگلے وزیر اعظم شہباز شریف ہوں گے۔ تاہم نواز شریف کو ادراک تھاکہ وزارت عظمی قبول کرنا پارٹی کے لئے نقصان دہ ہوگا۔ لہذا ان کی خواہش تھی کہ وزارت عظمیٰ پیپلز پارٹی کو دے دی جائے۔ لیکن پیپلز پارٹی پہلو بچا گئی۔ جہاں تک جے یو آئی کا تعلق ہے تو وہ ابتدا میں وزارتیں لینے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ مرکزی دھارے کی بڑی پارٹیاں وزارت عظمی کی کرسی پر بیٹھنے سے کترا رہی تھیں۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ مختصر اقتدار میں کارکردگی دکھانے کے امکانات معدوم ہیں۔ اور جو بھی پارٹی یہ بوجھ اٹھائے گی۔ اسے اس کی سیاسی قیمت آئندہ عام انتخابات میں چکانی پڑے گی۔
پیپلز پارٹی نے یہ لچھے دار دلیل دے کر کہ اپوزیشن کی بڑی پارٹی ہونے کے ناطے وزارت عظمیٰ کی کرسی نون لیگ کا حق ہے۔ کسی نہ کسی طرح شہباز شریف کو کانٹوں کی سیج پر بٹھا دیا۔ اس مرحلے کے بعد اپوزیشن میں یہ بحث چلی کہ اسمبلیوں کی مدت پوری کی جائے یا نہیں۔ نواز شریف کا اصرار تھا کہ دو تین ماہ میں چند اہم اصلاحات کراکے نئے الیکشن کا اعلان کر دیا جائے۔ انہوں نے بھانپ لیا تھا کہ مطلوبہ کارکردگی نہ دکھائے جانے پر سب سے زیادہ سیاسی نقصان نون لیگ کو ہوگا۔ کیونکہ حکومت کی کمان ان کے پاس ہے۔ لہذا وہ اقتدار کو طول دینے کے بجائے نئے الیکشن کے اعلان پر زور دے رہے تھے۔ اس بار بھی مولانا فضل الرحمن ان کے ہمنوا تھے۔
جے یو آئی کے ایک رہنما کے بقول پی ڈی ایم کے قیام سے پہلے ان کی جماعت نے انفرادی طور پر ملک بھر میں عمران حکومت کے خلاف پے درپے جو جلسے اور پھر آزادی مارچ کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں بالخصوص صوبہ خیبر پختون اور بلوچستان میں جے یو آئی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تھا۔ اور وہ اپنی اس مقبولیت کو برقرار رکھنا چاہتی تھی۔ تاکہ عام انتخابات میں اسے کیش کرایا جا سکے۔ تاہم اس کا انحصار اتحادی حکومت کی کامیابی پر تھا۔ ناکامی کے اثرات نون لیگ کے بعد سب سے زیادہ اسی پر آنے تھے۔ اس کے بر عکس پیپلز پارٹی کو بظاہر اتنا فرق نہیں پڑنا تھا کہ کم از کم صوبہ سندھ اب بھی اس کا محفوظ سیاسی قلعہ ہے۔
جے یو آئی رہنما کے بقول اس سوچ کو لے کر مولانا فضل الرحمن بھی اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے الیکشن میں جانے سے متعلق نواز شریف کی تجویز کی تائید کر رہے تھے۔ تاہم قبل از وقت انتخابات میں جانے کا فیصلہ پیپلز پارٹی کے لئے گھاٹے کا سودا تھا کہ نون لیگ اور جے یو آئی کے برعکس وہ ایک صوبے کی حکمراں ہے۔
قصہ مختصر، آصف زرداری کا جادو آخرکار پھر چل گیا۔ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن دونوں الیکشن کے بجائے مخلوط حکومت کے اقتدار کو طول دینے پر آمادہ ہوگئے۔ اس فیصلے کو اپوزیشن پارٹیوں کی اکثریتی رائے تسلیم کرنے سے تعبیر کیا گیا۔ یہ سوچ بھی غالب تھی کہ اقتدار میں رہ کر مبینہ دس سالہ منصوبے کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ یوں مخلوط حکومت کو برقرار رکھا گیا اور پھر وہی ہوا، جس کا خطرہ محسوس کیا جارہا تھا۔ آج لگ بھگ نو ماہ گزر جانے کے باوجود مخلوط حکومت عوام کی امیدوں پر پورا اترنے میں ناکام ہے۔ اس کا سب سے زیادہ سیاسی نقصان نون لیگ کو ہو رہا ہے۔ سب کی انگلیاں اس کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ اس دھچکے کو جے یو آئی بھی محسوس کر رہی ہے۔ اس کا نون لیگ پر شدید دباؤ ہے کہ ہر صورت مہنگائی کو کم کیا جائے تاکہ الیکشن میں کامیابی کا راستہ ہموار ہو۔ یہ دباؤ بڑھانے میں پی ڈی ایم کی دیگر چھوٹی پارٹیاں بھی جے یو آئی کے ساتھ ہیں۔
نون لیگ حیران و پریشان ہے کہ ’’جائے تو جائے کہاں؟‘‘۔ نون لیگ جو کل تک فوری الیکشن میں جانے کی خواہش مند تھی۔ اب انتخابات کو آگے بڑھانے کا سوچ رہی ہے۔ جے یو آئی بھی کسی حد تک اس کی اس سوچ کے ساتھ ہے۔ دونوں کا خیال ہے کہ مزید ایک برس الیکشن آگے بڑھانے کے نتیجے میں شاید مخلوط حکومت عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب ہو جائے اور یوں سرخرو ہو کر انتخابی میدان میں اترا جائے۔ لیکن پیپلز پارٹی نے یہ اعلان کرکے اس مجوزہ پلان کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے کہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت بڑھانے کے عمل کی وہ کھل کر مخالفت کرے گی۔