لاہور ( نواز طاہر/نمائندہ امت ) پنجاب اسمبلی میں جمہوری و آئینی معاملات اسمبلی میں گھونسوں کے بعد اسمبلی کے باہر جوتوں اورتھپڑوں تک پہنچ گئے۔ اسمبلی کے اندر منگل کو حکومت کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ آئندہ دنوں میں اپوزیشن اتحاد انے اپنے اراکین اور عدلیہ پر انحصارکرنے کا اعلان کیا ہے لیکن حکومتی اتحاد کے بارے میں عدلیہ کے حوالے سے سخت موقف اختیار کرنے کے اشارے بھی دیئے ہیں ۔
منگل کو اپوزیشن اتحاد کو ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ اپوزیشن کوپر اشتعال انداز میں ایوان سے باہر بھیج کر ایوان میں موجود حکومتی اراکین کی گنتی کرائی جائے اوران سے وزیراعلیٰ پر مکمل اعتماد کا اظہار کرانے کے بعد آج بدھ کو عدالت کو بتایا جائے کہ ایوان میں اکثریت نے وزیراعلیٰ پر اعتماد کا اظہار کردیا ہے اور اب گورنر کی طرف سے وزیراعلیٰ کو اعتماد ووٹ لینے کے آئینی احکامت پر عملدرآمد کی ضرورت نہیں رہی ، ان اطلاعات کے پیش نظر اپوزیشن اتحاد کے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اجلاس کے آغاز سے اختتام تک تک ہر صورت ایوان کے اندر رہنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے اہم اراکین اسمبلی نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ ایسا اعتماد کا ووٹ آئینی تقاضے پورے نہیں کرتا لیکن ہماری اطلاعات تھیں کہ حکومتی اتحاد ایسا ہی کرسکتاہے جس پر حکمت عملی وضع کی گئی تھی ۔ ان اراکین کے مطابق منگل کے اجلاس میں اپوزیشن کے ایک سے انہتر اور حکومتی اتحاد کےایک سو چونسٹھ اراکین ایوان میں موجود تھے ار اپوزیشن کو پانچ اراکین کی برتری تھی جس کی وجہ سے حکومت اپنی حکمت عملی پر عملدارآمد نہیں کرسکی
دوسری طرف پی ٹی آئی کے اراکین کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی ،ہم گورنر کے حکم کو درست ہی نہیں مانتے تو اعتمادکے ووٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، وزیر آبپاشی کا کہنا ہے کہ ایوان کے معاملات ایوان میں ہی نمٹائے جانے چاہئیں ، ضروری نہیں کہ اسمبلی کا ہر معاملہ عدالت نے طے کرنا اور قانون سازی بھی عدالت نے ہی کرنا ہے ، پی ٹی آئی کے ذرائع نے بتایا کہ عدالت کا فیصلہ بھی درست ہونے پر تسلیم کیا جائے گا ورنہ اسمبلی آئینی ادارہ ہے اور اس پر عدالت کو ہی سارے اختیارات کس طرح دیئے جاسکتے ہیں ، عدلیہ ہمیں انصاف فراہم نہیں کررہی ۔
واضح رہے کہ بدھ کو اجلاس کے آغاز ہی میں اپوزیشن نے گزشتہ روز کی طرح نعرہ بازی کی جس کی وجہ سے ایجنڈے کی کارروائی چلانا ممکن نہ ہوسکی اور اسپیکر نے مغرب کی نماز کے لئے چھ بجے کارروائی روک دی ۔ اسمبلی کی مسجد میں مقامی وقت کے مطابق سوا پانچ بجے جماعت ہوچکی تھی اور اس وقت اجلاس بھی جاری رکھا گیا تھا کچھ دیر تک صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے ایوان میں آکر اجلاس آج بدھ کی سہ پہر تین بجےتک ملتوی کرنے کا اعلان کردیا
جیسے ہی اجلاس ختم ہوا اور اراکین اسمبلی چیمبرز سے باہر نکلے تو مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی میں شرکت کیلئے آنے والے وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ خان اسمبلی سے روانہ ہونے لگے جس پر ایک کارکن نے ان کی سرکاری گاڑی پر جوتا پھینکا جو ونڈ اسکرین پر لگا، اس کے چند ہی لمحوں بعد اسی کارکن نے پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ کے مرکزی داخلی دروازے پر وہاں سے باہر نکلنے والے مسلم لیگ ن کے اراکین کو دیکھ کر ’چور اورڈاکو‘ کے نعرے لگانے شروع کردیے جسے لیگی اراکین اسمبلی نے دبوچ لیا ابتدائی پوچھ گچھ پر اس نے خود کو اسمبلی کا ملازم ظاہر کرنے کی کوشش اور اپنی شناخت چھپانے کی کوشش کی جب اسمبلی سیکیورٹی نے اس کے عملے کارکن ہونے کی تردید کی تو اس شخص نے مزید شناخت بدلنے کی کوشش کی جس پر لیگی اراکین اسمبلی نے اسے تھپڑ بھی مارے تاہم ساتھی اراکین نے اسمبلی سیکیورٹی اسٹاف کی مدد سے پکڑ کر سیکیورٹی کے حوالے کردیا
اسی دوران ڈپٹی اسپیکربھی مرکزی دروازے کے قریب پہنچے تو انہون نے غیر متعلقہ شخص کی اسمبلی کے مرکزی دروازے تک رسائی پر برہمی اور اس صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا ، انہوں نے اپوزیشن اراکین اسمبلی سے اس واقعے پر یکجہتی اور معذرت کااظہار کیا
ڈپٹی اسپیکر کو بتایا گیا کہ پکڑا جانے والا شخص سیکیورٹی اسٹاف کے پاس ہے تو ڈپٹی اسپیکر چیف سیکیورٹی افسر کے کمرے میں خود پہنچ گئے جہاں اس شخص کی شناخت صوبائی وزیر خواندگی راجہ راشد حفیظ کے ذاتی ڈرائیور کی حیثیت سے ہوئی۔ اس مرحلے پر مسلم لیگی اراکین نے اس معاملے سے پولیس کو تحریری طورپر آگاہ کرنے کا مشورہ دیا تاہم فوری طورپر اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ۔ لیگی اراکین نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ حالات خراب کرنے کا منصوبہ بھی ہوسکتا ہے ، یہاں یہ امرقابلِ ذکر ہے کہ پی ٹی آئی کے بعض اراکین وفاقی وزیرداخلہ پر جوتے پھینکنے کے عمل کی تعریف بھی کرتے رہے ۔ اس سے قبل دوپہر کو جب وزیراعظم کے معاون ِ خصوصی عطا اللہ تارڑ مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کےاجلاس میں شرکت کیلئے پنجاب اسمبلی آئے تو ان کے اسکواڈ کومین گیٹ پر روکا گیا تھا اور یہاں بھی نعرہ بای ہوئی تھی