لاہور ہائیکورٹ نے گورنر کے نوٹیفکیشن کی معطلی میں کل تک توسیع کردی ،وزیراعلیٰ کی جانب سے اسمبلی نہ توڑنے کی یقین دہانی پرکل تک عملدرآمد کی ہدایت کردی۔
لاہور ہائیکورٹ میں وزیراعلیٰ کو ہٹانے کے خلاف درخواست پر دوبارہ سماعت پر ہوئی،پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ تحریک عدم اعتماد کیلیے تیار تھے، اپوزیشن نے اپنے نمبرشو کرنا تھے،اعتماد کے ووٹ میں وزیراعلیٰ نے اپنی اکثریت شوکرنا ہوتی ہے۔
اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنے کیلیے پورا طریقہ کار موجود ہے،یہ ممکن نہیں گورنر اچانک صبح اٹھ کر کہے اعتماد کا ووٹ لیں ،5 ماہ قبل وزیراعلیٰ نے اسمبلی میں اکثریت دکھائی تھی ،آئین میں اسمبلی توڑنے کااختیار منتخب نمائندے یعنی وزیراعلیٰ کو دیا گیا ہے ۔
جسٹس عاصم حفیظ نے کہاکہ موجودہ کیس میں گورنر نے 19 دسمبر کو اعتماد کا ووٹ لینے کاکہا، جسٹس عابد شیخ نے استفسارکیا اگر گورنر 10 دن میں اعتماد کا ووٹ لینے کاکہتے تو پھر کیا ہوتا،وکیل پرویز الٰہی نے کہاکہ 19 دسمبر کو پہلے تحریک عدم اعتماد آئی، 20 منٹ بعد گورنر نے اپنا حکم جاری کیا،اس ساری کہانی کا مقصد اسمبلی کی تحلیل روکنا تھا،بیرسٹرعلی ظفر نے کہاکہ 23 دسمبر کو عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لی گئی۔
لاہور ہائیکورٹ نے گورنر کے نوٹیفکیشن کی معطلی میں کل تک توسیع کردی ،وزیراعلیٰ کی جانب سے اسمبلی نہ توڑنے کی یقین دہانی پر کل تک عملدرآمد کی ہدایت کردی۔
اہور ہائیکورٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے کیس کی سماعت ہوئی ،جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے درخواست پر سماعت کی،
عدالت میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ ،معاون خصوصی عطا تارڑ،لیگی رہنما رانا مشہود، خلیل طاہر سندھوپیش ہوئے،
وزیراعلیٰ کی جانب سے وکیل بیرسٹر علی ظفر ،گورنر پنجاب کے وکیل خالد اسحاق منصور عثمان اعوان عدالت میں پیش ہوئے ، وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے ،عدالت نے پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن آج تک معطل کر رکھا ہے ۔
کیل گورنر پنجاب نے کہاکہ درخواست میں کہاگیاہے خط سپیکر کو لکھاگیا، وزیراعلیٰ کو نہیں ، جسٹس عابدعزیز شیخ نے استفسار کیا معاملہ حل نہیں ہوا؟وکیل گورنر پنجاب نے کہایہ اعتماد کا ووٹ لیں گے تو حل ہوگا،
عدالت نے گورنر پنجاب کے وکیل سے استفسار کیا بتائیں کیا افر ہے آپ کے پاس؟وکیل گورنر پنجاب نے کہاکہ ہم نے آفردی تھی دو سے تین روز میں اعتماد کاووٹ لیں، انہوں نے ہماری آفر نظرانداز کردی،کافی وقت گزر گیالیکن اعتماد کا ووٹ نہیں لیاگیا،یہ ان کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے ۔
وکیل گورنر پنجاب نے کہاکہ عدالت اعتماد کاووٹ لینے کا وقت مقرر فرما دے ، جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ درخواست گزار کو یہ لائن کراس کرنا پڑے گی،عدالت نے کہا کہ منظور وٹو کیس میں بھی 2 دن کا وقت دیا گیا تھا جو مناسب نہیں تھا،اب تو17 روز گرز چکے اور کتنا مناسب وقت چاہئے؟کوئی تاریخ فکس کرکے گورنر کا آرڈر موڈیفائی کر دیتے ہیں۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہاکہ گورنر کے وکیل نے آفر دی ہے کہ اعتماد کا ووٹ لیں، پرویز اعلیٰ کے وکیل سے استفسار کیا اعتماد کے ووٹ کیلئے کتنا وقت مناسب ہوگا؟پرویز الٰہی کے وکیل نے کہا اس حوالے سے کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں ، گورنر پنجاب نے اعتماد کے ووٹ کیلئے سپیکر کو خط لکھا،گورنر نے خط میں لکھا وزیراعلیٰ اعتماد کا ووٹ کھو چکے ہیں ، گورنر کے حکم کے جواب میں سپیکر نے رولنگ دی ، سپیکر کی رولنگ کو تاحال چیلنج نہیں کیاگیا۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسارکیا کیا آپ اعتماد کا ووٹ لینے کی آفر قبول نہیں کررہے ہیں؟آپ کا اعتراض تھا اعتماد کے ووٹ کیلئے مناسب وقت نہیں دیاگیا،اس میں شک نہیں کہ وزیراعلیٰ کو 24 گھنٹے اکثریت کا اعتماد حاصل ہونا چاہئے،پھر ہم اس درخواست کا میرٹ پر فیصلہ کر دیتے ہیں ،پرویز الٰہی کے وکیل گورنر پنجاب کی طرف سے اعتماد کا ووٹ لینے کی آفرمستردکردی۔
عدالت نے کہاکہ ہمارا خیال تھا آپ آفر قبول کرکے اعتماد کا ووٹ لے لیں گے بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ ہم گورنر کی آفر پر بعد میں آئیں گے،عدالت نے کہاکہ اعتماد کا ووٹ لیں تو گورنر نوٹیفکیشن واپس لینے کو تیار ہیں ، معاملے پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہو رہا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کل سے اپنے دلائل کا آغاز کروں گا،عدالت نے کہا کل سے نہیں ، آپ اپنے دلائل شروع کریں۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہاکہ کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سنیں گے،اٹارنی جنرل نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھا دیا،اٹارنی جنرل نے کہ گورنر کو کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وجوہات دینا ضروری نہیں ، جسٹس عاصم حفیظ نے کہاکہ سیاسی گشیدگی جاری ہے، عدالت نے کہاکہ سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں جو پہلے کال کرکے وہ پھنسے ،
وکیل نے کہاکہ اٹارنی جنرل نے اعتماد کے ووٹ کیلئے تحریری پیشکش نہیں کی ،جسٹس عابد عزیز نے کہاکہ گورنر پنجاب وزیراعلیٰ کو اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتا ہے ، جسٹس عاصم نے کہاکہ آپ کے پاس اتنے دن تھے، اعتماد کاووٹ لے سکتے تھے ۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ گورنر کو وزیراعلیٰ پر اعتماد نہ رہے تب اپنے اختیارات استعمال کرتا ہے،رات کی تاریکی میں نوٹیفکیشن جاری کرکے کہا گیا کل اعتماد کاووٹ لیں،اکثریتی ممبران کہیں تب گورنر کو حق ہے کہ اعتماد کے ووٹ کا کہیں ، گورنر نے اعتماد کے ووٹ کیلئے مناسب وجوہات نہیں دیں ۔