اسلام آباد ہائیکورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے اس لئے ہر کوئی اپنی تشریح کررہاہے،چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہاکہ کوئی اسے الیکشن کمیشن کاآرڈر کہہ رہا ہے اور کوئی رپورٹ،جہاں تک میری رائے ہے یہ آرڈرنہیں رپورٹ ہے ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں 3 رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی ۔
پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے کہاکہ عمران خان چارٹر اکاﺅنٹنٹ نہیں ،انہوں نے صرف دستخط کیے،ہر پارٹی کے اکاﺅنٹس مینجمنٹ کیلیے الگ لوگ ہوتے ہیں ،عدالت نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے عمران خان کے صادق اورامین نہ ہونے کا کوئی ڈیکلریش تو نہیں دیا۔
چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے صرف ایک نتیجہ اخذ کیا ہے ، وکیل پی ٹی آئی نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے دراصل ڈیکلریشن ہی دیا ہے،الیکشن کمیشن کااختیار نہیں تھا کہ ایسا ڈیکلریشن دے،عدالت نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے جو کہا وہ محض آبزرویشن ہے،انور منصور نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے”ہولڈ“ کا لفظ استعمال کیا ہے ، عدالت نے کہاکہ آپ کو شوکاز دیئے بغیر وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟
عدالت نے کہا کہ آپ کو خدشہ ہے عمران خان کو اس معاملے پر نااہل کر دیا جائے گا؟وکیل نے کہاکہ مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے آئی کے کو نوٹس ہی نہیں کیا،چیف جسٹس نے استفسار کیا آئی کے کا کیا مطلب ہے؟انور منصور نے کہاکہ میری مراد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ہیں ۔
چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ کے ان کیساتھ اچھے تعلقات ہوں گے، ہمارے لیے تو وہ درخواست گزار ہی ہیں ،انور منصور نے عمران خان کیلئے آئی کے کی اصلاح استعمال کرنے پر معذرت کرلی ۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست پرفیصلہ محفوظ کرلیا،اسلام آباد ہائیکورٹ کے تین رکنی لارجر بنچ نے فیصلہ محفوظ کیا۔