لاہور: گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے اعتماد کے ووٹ کا نتیجہ گورنر پنجاب نے مان لیا جس کے بعد وزیراعلیٰ پرویزالٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم واپس لے لیا،عدالت نے گورنر پنجاب کی جانب سے وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم معطل کردیا۔
لاہور ہائیکورٹ میں پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ سے ہٹانے کیخلاف درخواست پر دوبارہ سماعت کے دوران وکیل گورنر پنجاب نے کہاکہ گورنر سے رابطہ ہو گیا، گورنر نے اعتماد کے ووٹ کی تصدیق کردی ،گورنر نے وزیراعلیٰ پرویز اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم واپس لے لیا،جسٹس عابد عزیز نے کہاکہ گورنر نے اپنا نوٹیفکیشن واپس لے لیا ہے تو معاملہ ہی ختم ہو گیا ۔
لاہور ہائیکورٹ میں پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ سے ہٹانے کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی ،جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے درخواست پر سماعت کی،وزیراعلیٰ کی جانب سے وکیل بیرسٹر علی ظفر ،گورنر پنجاب کے وکیل خالد اسحاق منصور عثمان اعوان عدالت میں پیش ہوئے ۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہاکہ اعتما کا ووٹ تو آپ نے لیا ہے،یہ ہو سکتا ہے ہم کہہ دیتے ہیں گورنر کا نوٹیفکیشن درست نہیں تھا،پھر آپ اسمبلی جا کر جو کرنا چاہیں وہ کریں،عدالت نے کہاکہ آپ نے جو کاپی پیش کی اس کے مطابق آرٹیکل 137 کے تحت ووٹ لیا گیا،اگر گورنر کا نوٹیفکیشن کالعدم ہو گا تو آپ کے ووٹ لینے کا معاملہ کالعدم ہو جائے گا،آپ نے عدالت کو مطمئن کرنے کیلئے نہیں، آرٹیکل 137 کے تحت ووٹ لیا۔
عدالت نے کہاکہ فریقین رضا مندی ظاہر کرتے ہیں تو گورنر کا نوٹیفکیشن کالعدم کرنے کا حکم جاری کر دیتے ہیں ،فریقین رضا مندی ظاہر کرتے ہیں تو حکم جاری کر دیتے ہیں کہ اعتماد کا ووٹ لینے کا ٹیسٹ ہو گیا۔
وکیل گورنرپنجاب نے کہاکہ اس میں کسی اتفاق رائے کی ضرورت نہیں، عدالت آرڈر کر سکتی ہے ، عدالت نے کہاکہ یہ بھی دیکھنا ہے کہ گورنر نے اعتماد کے ووٹ کیلئے جو وقت دیا تھا وہ مناسب تھا یا نہیں ،بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس حوالے سے ماضی کے تین عدالتی فیصلے آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ۔
عدالت نے کہاکہ سوال یہ ہے کہ اگر گورنر ہر ہفتے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں تو کیا ہو گا ،جسٹس عاصم حفیظ نے کہاکہ ایسے میں اس کے نتائج کیا ہوں گے،عدالت نے کہاکہ ایک وزیراعلیٰ فلور ٹیسٹ پاس کر لے اگلے دن گورنر پھر اعتماد کے ووٹ کا کہہ دے تو کیا ہوگا،جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہاکہ پھر یہ سلسلہ رکے گا کب، اس پر کچھ ہدایات ہونی چاہئیں۔
عدالت نے استفسار کیاکیا اسمبلی کے ہر سیشن پر گورنر کا اعتماد ہونا ضروری ہے؟اعتماد کے ووٹ کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد کیا گورنر اگلے ہفتے یہی عمل دہرا سکتا ہے،بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ گورنر اجلاس بلانے کیلیے اسپیکر کو کہہ سکتا ہے،تاریخ اور وقت کا تعین اسپیکر کرتا ہے ،عدالت نے کہاکہ ہم گورنر کے آرڈر پر رائے نہیں صرف جوڈیشل فیصلہ دے سکتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ گورنر کے ایسے اقدامات روکنے کیلیے عدم اعتماد کیلیے کتنے دن ہونے چاہئیں،بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ کم از کم 14 روز ہونے چاہئیں،جسٹس عابد عزیز نے کہاکہ یہاں گورنر نے پرویز الٰہی کو صرف2 روز دیے جو مناسب وقت نہ تھا،بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ گورنر پابند ہیں کم از کم 7 روز کا نوٹس دیں ،جسٹس عاصم نے استفسار کیا اسمبلی سیشن چھٹی والے روز بھی ہو سکتا ہے؟جسٹس عابد عزیز نے کہاکہ منظور وٹو کیس میں عدالت نے وقت کا تعین نہیں کیا تھا۔
عدالت نے بیرسٹر علی ظفر کو ہدایت دیتے ہوئے کہاکہ مناسب وقت اور تاریخ پر دلائل مکمل کریں ، جلد دلائل مکمل کریں کہ اعتماد کے ووٹ کیلیے مناسب وقت کتنا ہونا چاہیے ۔
ایڈووکیٹ منصور اعوان نے کہا کہ گورنر کو آئین اجازت دیتا ہے وہ اجلاس بلائیں،پرویز الٰہی گورنر کی ایڈوائس پر عمل نہیں کر رہے،بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ گورنروقت اور تاریخ کا تعین نہیں کر سکتا،جسٹس عاصم حفیظ نے کہاکہ گورنر کے اختیارات میں ہے کہ وہ تاریخ دے سکیں،بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ گورنر کا وقت اور تاریخ کا تعین کرنا غیرقانونی ہوگا۔
لاہور ہائیکورٹ میں پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ سے ہٹانے کیخلاف درخواست پر دوبارہ سماعت کے دوران وکیل گورنر پنجاب نے کہاکہ گورنر سے رابطہ ہو گیا، گورنر نے اعتماد کے ووٹ کی تصدیق کردی ،گورنر نے وزیراعلیٰ پرویز اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم واپس لے لیا،جسٹس عابد عزیز نے کہاکہ گورنر نے اپنا نوٹیفکیشن واپس لے لیا ہے تو معاملہ ہی ختم ہو گیا ۔
عدالت نے گورنر پنجاب کی جانب سے وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم معطل کردیا،عدالت نے کہاکہ پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ نے 12 جنوری کو اعتماد کا ووٹ حاصل کیا،وزیراعلیٰ پنجاب نے آرٹیکل 137 کے تحت اعتماد کا ووٹ حاصل کیا،جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہاکہ اعتماد کے ووٹ کا نتیجہ گورنر پنجاب نے مان لیا ہے،گورنر کے وکیل نے اسٹیٹمنٹ عدالت میں دی۔عدالت نے پرویز الٰہی کی درخواست نمٹا دی۔