احمد خلیل جازم :
پاکستان ریلویز کسی دور میں ریاست کا ایک مضبوط ادارہ تصورکیا جاتا تھا۔ لیکن حال ہی میں وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق ریلویز کا 37 ارب سے خسارہ بڑھ کر 45 ارب سے زائد ہوگیا ہے۔ اس وقت پاکستان ریلوے میں اکثر ٹرینیں پرائیوٹ کردی گئی ہیں، جس سے ریلوے خسارہ پورا کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس وقت ریلوے ملازمین کی تنخواہیں بیس سے پچیس دن لیٹ ہو رہی ہیں۔ جب کہ پینشن پانے والے ریٹائرڈ ملازمین بھی اس خسارے کی وجہ سے ابتر حالات کا شکار ہیں۔ ریلوے مزدور یونین کے بقول، ریلوے اور ملازمین کو بربادی کے اس حال تک پہنچانے میں سب سے بڑا کردار سابق ریلوے منسٹر شیخ رشید احمد نے ادا کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ، پاکستان ریلوے کا خسارہ 1974ء میں شروع ہوا اور اس کے بعد سے ریلوے نے وسائل کے خلا کو پر کرنے کے لیے وفاقی حکومت سے باقاعدگی سے مدد مانگنی شروع کردی، جو آج تک جاری ہے۔ اس دوران مال بردار گاڑیاں جو کراچی پورٹ سے سامان کی ترسیل کے لیے استعمال ہوتی تھی، اب مکمل طور پر بند ہیں۔ اگر کہیں مال گاڑی چلائی جارہی ہے تو صرف لوکل سطح پر ہے۔ حال ہی میں وزارت ریلوے کے اعلان کے مطابق مال گاڑیوں کے ساتھ لگنے والی 70 اسٹیٹ آف دی آرٹ ویگنیں چین سے پاکستان کے لیے روانہ ہو چکی ہیں جو 16 جنوری کو کراچی پہنچیں گی۔ ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ رواں برس مارچ میں ایسی مزید 130 ویگنز ریلوے سسٹم میں شامل ہو جائیں گی۔ موجود ویگنیں ساٹھ ٹن وزن کے ساتھ 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹریک پر چلتی ہیں۔ جب کہ نئی آنے والی ویگنیں ستر ٹن کے ساتھ 100 کلومیٹر کے حساب سے ٹریک پر چلیں گی۔ ان کی وجہ سے ریلوے کو سالانہ ڈیڑھ ارب روپے کا بزنس متوقع ہے۔ لیکن سوال وہی ہے کہ کیا انہیں چلانے کے لیے بھی ریلوے کے پاس رقم موجود ہے؟
منسٹری آف ریلویز کے ذرائع نے اس حوالے سے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ گزشتہ برس کے آخر تک تقریباً 64 ہزار ملازمین کی باقاعدہ تنخواہوں اور تقریباً 125,000 پنشنرز کی ماہانہ پنشن پر خرچ سالانہ 75 ارب روپے سے زائد رہا۔ تنخواہوں، پنشن، ہائی اسپیڈ ڈیزل اور یوٹیلیٹیز پر اخراجات کے علاوہ انجنوں، مسافر بردار گاڑیوں، ویگنوں اور سروس سمیت رہائشی عمارتوں کی مرمت اور دیکھ بھال بھی دستیاب وسائل سے کی جاتی ہے، جو اب موجود نہیں ہیں۔ کیونکہ ریل کا پہیہ اس وقت اس طریقے سے نہیں چل رہا، جس طرح چلنا چاہیے۔
ریلویز کے ملازمین کی تنخواہوں کا بجٹ نہیں نکل رہا، جس کی وجہ سے وفاق کی جانب دیکھنا پڑتا ہے۔ وہاں سے پیسہ ملتا ہے تو ملازمین کو تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ اس وقت ریلوے کے تمام بڑے پرجیکٹوں پر کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ لوکو موٹیو فیکٹری رسالپورمیں کام نہیں ہے اور کیرج فیکٹری سمیت لاہور مغلپورہ ورکشاپس میں بھی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ ریلوے ملازمین ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں، لیکن کام نہیں ہوتا۔ لوکوشیڈز بھی ویران ہونے لگے ہیں، چند ایک ڈیزل انجن کی اورہالنگ اور کوچزکی مرمت کے علاوہ زیادہ کام نہیں ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ یاد رکھیں کہ بجٹ خسارہ ہمیشہ وفاقی حکومت کی طرف سے گرانٹ کی شکل میں فراہم کردہ مالی امداد کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو 2021-22 کے دوران 47 ارب اور 2022-23 کے دوران 45 ارب روپے زیادہ خسارے ہوا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ تو سیلاب ہے جو اگست کے دوران 36 دنوں کے لیے ٹرینوں کا آپریشن معطل ہونے کی صورت میں ریل کو برداشت کرنا پڑا۔ ریونیو کے مقابلے میں پاکستان ریلوے کا خسارہ 2017-18 میں 73.87 فیصد سے بڑھ کر2020-21 میں 97.68 فیصد ہو گیاتھا۔ جب کہ 30 جون 2018-19-20-21 کی آمدنی کے مقابلے میں خسارے کا فیصد بالترتیب 73.87 فیصد، 60.11 فیصد 105.39 فیصد اور 97.68 فیصد رہا۔ پاکستان ریلوے کی آمدنی 2017-18 میں 49.576 بلین روپے، 2018-19 میں 54.514 بلین روپے، 2019-20 میں 47.588 بلین روپے اور 2020-21 میں 48.652 بلین روپے رہی۔
وفاقی حکومت کی پالیسی کے مطابق پاکستان ریلوے نے پبلک پرائیویٹ پالیسی (پی پی پی) کے تحت اپنی کچھ ٹرینوں کو آؤٹ سورسی یعنی پرائیوٹ کنٹریکٹر کو دے دیا۔ وزارت ریلوے کی جانب سے دیے گئے پالیسی فیصلے کے مطابق ریلوے کی آمدنی سے زیادہ بولیاں قبول کی جائیں گی۔ یہ فیصلہ آمدنی اور اخراجات کے درمیان فرق کو ختم کرکے پاکستان ریلوے کے نقصان کو کم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس پالیسی کے تحت پاکستان ریلویز نے مسافروں اور مال بردار ٹرینوں، سامان سمیت بریک وین، ڈائننگ کاروں وغیرہ کے کمرشل مینجمنٹ کی آؤٹ سورسنگ متعارف کرائی، لیکن اس سے بھی صورت حال میں بہتری کے بجائے ابتری آئی۔
ریلوے کے خسارہ کی وجوہات جہاں مس مینجمنٹ ہے وہیں افسر شاہی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ یہ باتیں ریلوے مزدور یونین کے ایک لیڈر اکمل خان نے ’’امت‘‘ سے دوران گفتگو بتائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’آج کل ریلوے مزدور بہت کسمپرسی کی حالت میں ہے۔ افسران نے اس ادارے کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ رہی سہی کسر سیاسی مخاصمت اور سیاست دانوں نے پوری کردی ہے۔ مزدور طبقہ کم اور افسران زیادہ ہیں۔ پہلے ریل گیارہ ہزار کلومیٹر چلتی ہے جو اب کم ہوکر سات سے آٹھ ہزار رہ گی ہے۔
گزشتہ دور حکومت میں جب شیخ رشید سے ہم مزدور لیڈرز کی میٹنگ ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ریل کو افسر کھا گئے ہیں۔ یہ ان کے منہ کی بات ہے۔ ہم نے انہیں کہا تھا کہ اگر آپ سے ریل نہیں چلتی تو مزدورں کے حوالے کردیں۔ اگرہم ریل کو منافع میں نہ چلا سکے تو ہمیں چوک میں الٹا لٹکا دیجیے گا۔ اس پر وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ریل میں جو موجودہ سسٹم ہے وہ ناکارہ ہے۔ پھر انہوں نے ریل پرائیوٹ کرنا شروع کردی، یعنی وہی بات جو ہم نے کہی تھی۔
گزشتہ دنوں ہم نے چیئرمین ریلویز سے میٹنگ کی، وہ حالات کا رونا روتے رہے کہ قوموں پر مشکل وقت آتے ہیں۔ ریل مزدور احتجاج مت کریں، ٹرینیں چلتی رہیںگی تو آپ کی تنخواہیں ٹائم پر ہوں گی۔ اب مزدور کی تنخواہیں پچیس دن لیٹ ہورہی ہیں۔ یہ کیوں ہے؟ اس کی وجہ شیخ رشید ہیں۔ انہوں نے بطور وزیر ریلوے نے ملازمین پر یہ ظلم کیا کہ پہلے ریلوے کو تنخواہیں اور پینشن فنانس ڈویژن دیتا تھا، شیخ رشید نے انہیں کہا کہ ریلوے ایک خود مختار ادارہ ہے، ہم خود تنخواہیں دیں گے۔ اب ریل تنخواہیں دینے کے قابل نہیں ہے۔ ہم نے شیخ رشید، سواتی اور موجودہ منسٹر تک کو یہ آپشن دیا ہے کہ ریل مزدور کے حوالے کردیں۔ لیکن انہوں نے پرائیویٹ کنٹریکٹرز کو دے دیں جو ریلوے کو مزید تباہ کررہے ہیں۔
ریلوے کو آج بھی مخلص لوگ مل جائیں تو یہ بہت منافع بخش ادارہ بن سکتا ہے۔ اس پر یہ ظلم ہوتا ہے کہ جو اس کا منسٹر آتاہے وہ نان ٹیکنیکل ہوتا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ انجن کتنا چلے تو کس قدر آئل خرچ کرے گا۔ ٹریک کتنے کلومیٹر قابل استعمال ہے اور کتنے فیصد نہیں۔ اگر نہیں تو کیوں نہیں ہے؟ انجنوں کی بات چلی تو بتاتا چلوں کہ مشرف دور میں ایک ریٹائرڈ جرنیل جب منسٹر تھے تو انہوں نے چین سے69 انجن منگوائے تھے پھر 130انجنوں کا پراجیکٹ بھی رہا۔ آج آپ لوکو شیڈ راولپنڈی میں دیکھیں وہ سب خراب کھڑے زنگ آلود ہورہے ہیں، وہ بالکل ناکارہ ہوگئے ہیں۔ ریلویز کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے میں ہر حکومت نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ صرف ذاتی مفادات پر ریل کے مفاد کو ترجیح دی گئی ہے۔ افسران عیاشیاں کررہے ہیں اور مزدور کے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں۔ موجودہ منسٹر صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ ہمارے پاس کچھ باقی نہیں رہا۔ یعنی ریل چلانا ان کے بس کی بات بھی نہیں رہی۔‘‘