سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا عدالت یہ کہہ کر نیب کو بحال کر سکتی ہے کہ احتساب ختم ہوگیا؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا تعزیرات پاکستان ختم ہونے سے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہونگے؟ نیب پبلک پر اپرٹی کے مقدمات بناتا ہے جو عوام کی ملکیت ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بنچ نے سماعت کی، وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی کی جانب سے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہاکہ عدلیہ کے اختیارات کم کرنے کیلیے کی گئی قانون سازی کالعدم ہوسکتی ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیاکہ کیا پھانسی کی سزا ختم کرنا آئینی عمل ہوگا؟اگر پارلیمنٹ نیب کو ہی ختم کردے تو کیا اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے؟۔
مخدوم علی خان نے کہاکہ پارلیمان کو قانون سازی کیساتھ قانون واپس لینے کا بھی اختیار ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا عدالت یہ کہہ کر نیب کو بحال کر سکتی ہے کہ احتساب ختم ہوگیا؟
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا تعزیرات پاکستان ختم ہونے سے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہونگے؟ نیب پبلک پراپرٹی کے مقدمات بناتا ہے جوعوام کی ملکیت ہوتی ہے، وکیل وفاقی حکومت نے کہاکہ برطانیہ میں سزائے موت کسی جرم میں نہیں دی جاتی،سزائے موت کے خاتمے کے قانون کا اطلاق زیرالتوا مقدمات پر بھی ہوا تھا،
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ شرعی قانون میں سزائے موت موجود ہے، کیا شرعی اصولوں کیخلاف قانون سازی کی جا سکتی ہے؟وکیل مخدوم علی خان نے کہاکہ اسلام میں دیت اور قصاص کا تصور بھی موجود ہے، ورثادیت کے عوض جرم معاف کر سکتے ہیں،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ درخواست گزار کے مطابق احتساب اسلام اور آئین کا بنیادی جزو ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ عدالت قوانین کا جائزہ آئین اور بنیادی حقوق کے تناظر میں ہی لے سکتی ہے،کیا عدالت کچھ اور نہ ملنے پر شرعی تناظر میں قوانین کا جائزہ لے سکتی ہے؟
مخدوم علی خان نے کہاکہ شریعت کے تحت قوانین کا جائزہ صرف شرعی عدالت لے سکتی ہے،نیب ترامیم کا جائزہ اسلامی اصولوں کے تناظر میں نہیں لیا جا سکتا،اجماع اور اجتہاد کے اصول ریاستی ادارہ پارلیمان استعمال کر رہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ قرآن پاک میں امانت اور خیانت کے اصول واضح ہیں،خائن کیلیے قرآن کریم میں سخت الفاظ استعمال ہوئے ہیں،عدالت میں بحث جرم کی حیثیت تبدیل کرنے کی ہے،سزا کچھ بھی ہو جرم تو جرم ہی رہتا ہے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ کالعدم کرنے پرعدالت کو بتانا ہوگا نیب ترامیم جیسی قانون سازی کیوں نہیں ہوسکتی، صرف وہی قانون کالعدم ہو سکتا ہے جس کے بنانے پرآئینی ممانعت ہو،عدالت نے کیس کی مزید سماعت 7 فروری تک ملتوی کردی ۔