کراچی (امت نیوز)ملک کی کمزور معاشی صورت حل اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی نے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو بھی شدید متاثر کرنا شروع کردیا ہے ۔آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو سرمائے کی قلت کا سامنا ہے جس نے آئل سیکٹر کے کاروبار کو خطرے میں ڈال دیا ہے
اس حوالے سے آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل نے ہنگامی مراسلے کے ذریعے وزارت توانائی اور اوگرا سے مدد مانگ لی۔ آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ فوری طور پر آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ریفائنریز کی ٹریڈ فنانس کی حد میں اضافہ کیا جائے بصورت دیگر پیٹرولیم مصنوعات کی ترسیل جاری رکھنا دشوار ہوگا۔
آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل نے وزارت توانائی اور چیئرمین اوگرا کے نام ایک ہنگامی مراسلہ میں آئل انڈسٹری کو درپیش سنگین بحرانی کیفیت سے آگاہ کرتے ہوئے فوری طور پر اجلاس بلانے اور سرمائے کی شدید قلت کا شکار آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ریفائنریز کی ٹریڈن فنانس کی حد بڑھانے کی اپیل کی ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ روپے کی قدر میں یک دم بڑی گراوٹ نے انڈسٹری کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جس کے لیٹر آف کریڈٹ ابھی موجودہ شرح مبادلہ کے لحاظ سے سیٹل ہونے ہیں جبکہ درآمد کی گئی مصنوعات فروخت کی جاچکی ہیں۔
اس نقصان سے نہ صرف پہلے سے دباؤ کا شکار آئل انڈسٹری کے منافع پر اثر پڑے گا بلکہ سیکٹر کی بقا بھی خطرے میں پڑ جائے گی کیونکہ کچھ کیسز میں نقصان کا حجم پورے سال کے منافع سے بھی زیادہ ہونے کا خدشہ ہے۔ او سی اے سی نے حکام سے اپیل کی ہے کہ آئل انڈسٹری کو بحران سے نکالنے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جائیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ آئل انڈسٹری کو 60روز کی مد میں ایل سی پر شرح مبادلہ کے فرق کے نقصان کی تلافی کے مکینزم کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے یکم اپریل 2020کو منظوری دی گئی تاہم یہ تلافی پی ایس او کو بینچ مارک بناکر دی جاتی ہے او سی اے سی کے اراکین پی ایس او کے امپورٹ کے حجم کے مقابلے میں اپنے پورے نقصانات ریکور نہیں کرسکتے اس لیے ضروری ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر شرح مبادلہ کے فرق کے نقصانات کی تلافی کے اس مکینزم کو تبدیل کیا جائے اور نجی مارکیٹنگ کمپنیوں کے مکمل نقصانات کی تلافی کی جائے تاکہ انڈسٹری کو جاری رکھتے ہوئے خوردہ سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی دستیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین میں اوگرا شرح مبادلہ کے فرق کو مکمل طور پر منتقل کرنے سے اجتناب کرتی ہے اور اس فرق کا بوجھ آئل سیکٹر پر ڈالا جاتا ہے۔ آئل سیکٹر پہلے ہی شرح مبادلہ کے دھچکے کو برداشت نہ کرسکا ہے اور اب ایک اور بڑے دھچکے کا سامنا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اوگرا شرح مبادلہ کے فرق کو قیمتوں میں ایک وقت میں مکمل منتقل کرے۔
اوسی اے سی نے کہا کہ گزشتہ 18 ماہ کے دوران روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ کی وجہ سے آئل انڈسٹری کے لیے بینکنگ سیکٹر سے حاصل ٹریڈ فنانس کی حد ناکافی ہوچکی ہے۔ روپے کی قدر میں حالیہ کمی کی لہر سے ایل سی کی مالیت کی حد میں یک دم 15 سے 20 فیصد تک کمی آچکی ہے۔
خط میں کہا گیا کہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی طلب پوری کرنے کے لیے درآمدات کے تسلسل کو جاری رکھنا ہے تو ضروری ہے کہ ایل سی کے لیے ٹریڈ فنانس کی حد میں عالمی مارکیٹ کی موجودہ قیمتوں کے مطابق بڑھا جائے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان ہر کمپنی کی ضروریات اور سرمائے کی قلت کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ٹریڈ فنانس کی حد پر فوری نظر ثانی کرے۔