سندھ میں سیلاب سے تباہ سکولوں پر کتنے اخراجات ہوں گے؟

  • کلاس روم تعمیر کیلئے ساڑھے 27 لاکھ کے انو کھے تخمینے پر ماہرین بھی حیران۔

  • قرضے کیلئے عالمی بینکوں سے رابطے-متاثرین کیلئے فی گھر 3 لاکھ مختص کرنے پر سوالیہ نشان لگ گیا

کراچی (رپورٹ: ارشاد کھوکھر) حکومت سندھ کی جانب سے سیلاب سے تباہ ہونے والے فی گھر کی تعمیر کا تخمینہ 3 لاکھ روپے لگایا گیا ہے جبکہ سیلاب سے متاثر ہونے والے سرکاری اسکولوں کے صرف ایک کلاس روم کی مرمت کا تخمینہ 17 لاکھ روپے اور فی کلاس روم کی ازسرنو تعمیر 27 لاکھ 50 ہزار روپے میں ہونے کا انوکھا تخمینہ لگایا ہے۔

حالیہ بارشوں کے دوران سندھ میں 19 ہزار 808 سے زائد (49 فیصد) اسکولوں کی عمارتیں تباہ اور جزوی طور پر متاثر ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ ان عمارتوں کی تعمیر و مرمت پر صوبائی حکومت نے حیرت انگیز طور پر تقریباً 140 ارب روپے خرچ ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ جس سے تعمیرات کے شعبے سے وابستہ کئی ماہرین بھی حیرت میں پڑ گئے ہیں۔

سیلاب سے متاثرہ گھروں، سڑکوں اور دیگر انفرا اسٹرکچر کے لیے صوبائی حکومت عالمی بینک سے پہلے ہی 456 ارب روپے قرضہ لینے کا معاہدہ کر چکی ہے جبکہ اسکولوں کے منصوبے کے لیے مطلوبہ فنڈز کی تلاش شروع کر دی گئی ہے۔ اس حوالے سے بھی عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے بات چیت کا سلسلہ بڑھا دیا گیا ہے۔

جزوی طور پر متاثر ہونے والے فی کلاس روم کی مرمت کا تخمینہ بھی 17 لاکھ روپے لگایا گیا ہے۔ اسکولوں کی تعمیر و مرمت کا عمل مکمل ہونے تک متعلقہ متاثرہ اسکولوں میں تدریسی عمل کی بحالی کے لیے ٹینٹ لگا کر اسکول چلانے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے جس کے لیے صرف ٹینٹ کی خریداری کے لیے بھی محکمہ خزانہ سے 3 ارب روپے مانگے گئے ہیں۔

سیلاب سے کتنے سکول متاثر ہوئے؟

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ میں حالیہ بارشوں سے ہونے والی تباہ کاری کے متعلق جو رپورٹس تیار کی گئی ہیں ان میں سے محکمہ اسکول ایجوکیشن کی جانب سے تیار کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صوبے بھر کے تمام تقریباً 40 ہزار 253 اسکولوں کی عمارتوں میں سے تقریباً 19 ہزار 808 عمارتیں متاثر ہوئی ہیں جن میں سے تقریباً 7 ہزار 503 عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں اور 12 ہزار 305 عمارتیں جزوی طور پر متاثر ہوئی ہیں۔ یعنی صوبے میں 2 میں سے 1 سکول کسی حد تک سیلاب سے متاثر ہوا ہے۔

ان اسکولوں کی عمارتوں کے متاثر ہونے سے صوبے بھر کے اسکولوں میں زیرتعلیم 43 لاکھ 71 ہزار بچوں میں سے تقریباً 23 لاکھ (یعنے ادھے سے زیادہ) بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے جن میں سے مکمل تباہ ہونے والے اسکولوں میں جو بچے زیرتعلیم تھے ان کی تعداد 6 لاکھ 30 ہزار ہے جبکہ جزوی طور پر جن اسکولوں کی عمارتیں متاثر ہوئی ہیں ان میں تقریباً 17 لاکھ بچے زیرتعلیم رہے ہیں۔

سندھ میں اسکولوں کی تباہی کا خلاصہ

3 لاکھ کا گھر، 27 لاکھ کا کلاس روم

ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ اسکولوں کی بحالی کے لیے محکمہ اسکول ایجوکیشن کے افسران نے جو رپورٹ تیار کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ مکمل طور پر جو 7 ہزار 503 اسکولوں کی عمارتیں تباہ ہوئی ہیں ان کی ازسرنو تعمیر پر تقریباً 52 ارب روپے اور جزوی طور پر متاثر ہونے والے اسکولوں کی مرمت کے لیے تقریباً 64 ارب 70 کروڑ روپے خرچ ہوں گے جبکہ اسکولوں کی مکمل بحالی کے لیے دیگر اخراجات بھی ہوں گے۔ اس طرح مذکورہ منصوبے کی مجموعی لاگت کا تخمینہ تقریباً 139 ارب 98 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ اسکولوں کے لیے تقریباً 55 ہزار 866 کلاس رومز بنیں گے جن میں سے مکمل طور پر تباہ ہونے والے اسکولوں کے لیے 18 ہزار 869 کلاس رومز ازسرنو تعمیر ہوں گے اور جزوی طور پر جن اسکولوں کی عمارتیں متاثر ہوئی ہیں ان کے تقریباً 37 ہزار 7 کلاس رومز کی مرمت کی جائے گی۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جو کلاس روم ازسرنو تعمیر ہوں گے ان میں سے فی کلاس روم کی تعمیر کا تخمینہ 27 لاکھ 50 ہزار روپے لگایا گیا ہے اور جن کلاس رومز کی صرف مرمت ہو گی ان میں سے فی کلاس روم کی مرمت کا تخمینہ 17 لاکھ روپے لگایا گیا ہے۔

محکمہ اسکول ایجوکیشن کی انتظامیہ نے کلاس رومز کی مرمت و ازسرنو تعمیر کا جو تخمینہ لگایا گیا ہے اس سے تعمیراتی شعبے کے ماہرین بھی حیرت میں پڑ گئے ہیں کہ ایسا کیا بنے گا کہ اتنے زیادہ اخراجات ہوں گے جبکہ دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ نے سیلاب سے تباہ و متاثر ہونے والے 18 لاکھ سے زائد گھروں میں سے جو گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں ان میں سے فی گھر فی تعمیر کے لیے متعلقہ متاثرین کو فی کس مرحلہ وار 3 لاکھ روپے امداد دینے کا منصوبہ شروع کیا ہے۔ دوسری جانب اسکول کے ایک کمرے کی تعمیر کا تخمینہ 27 لاکھ روپے لگانے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ 3 لاکھ روپے میں متاثرین کا گھر کیسے بنے گا؟ اور فی کلاس روم پر 27 لاکھ روپے کے اخراجات کے مقاصد کیا ہو سکتے ہیں۔

بیرونی امداد کی امیدیں

اسکول ایجوکیشن کے ذمہ دار ذرائع یہ دلیل پیش کررہے ہیں کہ فی کلاس روم کے اخراجات پر زیادہ رقم اس لیے خرچ ہو گی کیونکہ اس کے لیے عالمی بینک یا ایشیائی ترقیاتی بینک سے قرضہ لیا جائے گا اس لیے عالمی مالیاتی اداروں کی فنڈنگ سے جو تعمیرات ہوں گی اس کا معیار بھی عالمی سطح کا رکھا جائے گا جس میں نئی تعمیر ہونے والی عمارتیں نہ صرف زلزلے سے محفوظ رہیں بلکہ سیلاب کی اگر ایسی دوبارہ صورت حال پیدا ہوتی ہے تو اس سے متاثر نہ ہوں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں محکمہ اسکول ایجوکیشن کی انتظامیہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو بریفنگ بھی دے چکی ہے جس کے بعد مذکورہ منصوبے کی فنڈنگ کے لیے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے صوبائی حکام نے رابطے شروع کر دیے ہیں۔

اس حوالے سے صوبائی محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کے ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ اسکول ایجوکیشن کی انتظامیہ نے اسکولوں کی تعمیر و مرمت کا صرف ورکنگ پیپر تیار کیا گیا ہے اس سلسلے میں منصوبے کو حتمی شکل دینے سے قبل پی سی ون وغیرہ تیار ہو گی جس میں دیکھا جائے گا جس میں اصل مناسب اخراجات کا تخمینہ سامنے آجائے گا۔

ٹینٹ اسکول: ایک عارضی حل

دریں اثنا ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ مذکورہ اسکولوں کی تعمیر و مرمت کا کام مکمل ہونے تک متعلقہ متاثرہ اسکولوں میں تدریسی عمل شروع کرنے کے لیے محکمہ اسکول ایجوکیشن کی انتظامیہ نے متعلقہ علاقوں میں ٹینٹ اسکول قائم کرنے کا منصوبہ تیار کر کے اپنا ورکنگ پیپر صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی انتظامیہ کو ارسال کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان اسکولوں کے لیے انہیں تقریباً 20 ہزار ٹینٹس فراہم کیے جائیں اور ان ٹینٹس کی قیمت کا تخمینہ بھی تقریباً 3 ارب روپے لگایا گیا تھا جس سے فی ٹینٹ کی قیمت تقریباً پونے 2 لاکھ روپے کا تخمینہ تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ اس سلسلے میں پی ڈی ایم اے کی انتظامیہ نے ایک سمری تیار کر کے صوبائی محکمہ خزانہ کو ارسال کی تھی جس پر صوبائی محکمہ خزانہ کی انتظامیہ نے شدید اعتراضات کر دیے ہیں اور یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اس حوالے سے ٹینٹس کی قیمت کا جو تخمینہ لگایا گیا ہے وہ زیادہ ہے جس پر نظرثانی کی جائے اور اس بات پر بھی غور کیا جائے کہ جہاں زیادہ ضرورت ہو وہاں ٹینٹ کے ذریعے اسکول قائم کیے جائیں اور اسکولوں کے صرف عارضی انتظامات کے لیے اتنی خطیر رقم خرچ کرنے کے بجائے اس سلسلے میں اسکولوں کے لیے مستقل انتظامات کیے جائیں تاکہ عارضی طور کے زیادہ اخراجات سے بچا جاسکے۔

علاوہ ازیں ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ حکومت سندھ پہلے ہی سیلاب سے متاثرہ گھروں، محکمہ آبپاشی، محکمہ زراعت کے نظام کی بحالی اور سڑکوں سمیت دیگر انفرااسٹرکچر کی بحالی کے لیے عالمی بینک سے ایک ارب 69 کروڑ ڈالر کا قرضہ لینے کا معاہدہ کر چکی ہے۔

عالمی بینک سے جب قرضہ حاصل کرنے کے لیے بات چیت کی جارہی تھی اس وقت فی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کا تخمینہ 220 روپے لگایا گیا تھا اس حساب سے اس وقت وہ رقم 371 ارب روپے بن رہی تھی لیکن اب ڈالر 270 روپے تک پہنچ جانے کے بعد وہ رقم بڑھ کر 456 ارب روپے تک ہو گئی ہے اس صورت حال میں اسکولوں کی تعمیر و مرمت کے لیے مزید تقریباً 140 ارب روپے کا قرضہ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔