احمد خلیل جازم :
چند روز قبل گوجرانوالہ کے علاقہ فرید ٹائون میں ایک بارہ سالہ بچے ساون نے اپنی ماں کو غیرت کے نام پر قتل کردیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق ملزم بچے اور اس کے والدین کے درمیان تنسیخ نکاح کا کیس چل رہا تھا۔ اس تناظر میں دو بیٹے اور ایک بیٹی سمیت یہ بچے باپ کے پاس رہ رہے تھے۔ بارہ سالہ بچے نے باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ برقع اوڑھ کر ماں کا پیچھا کیا اور موقع پا کر اس پر تین گولیاں داغیں، جن میں سے ایک گولی اس کے سینے میں اور دوسری سر پر لگی۔ اس دوران ایک اور عورت کے زخمی ہونے کی اطلاع بھی ہے جسے سول اسپتال میں پہنچا دیا گیا۔ پولیس نے بچے کو گرفتارکرلیا ہے اور مجسٹریٹ نے بچے کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے۔ پولیس بچے سے تفتیش کر رہی ہے کہ آیا اتنا چھوٹا بچہ اتنی پلاننگ سے کیسے قتل کرسکتا ہے؟۔
گوجرانوالہ سے مقامی صحافی زوہیب نے بتایا کہ ’’یہ واقعہ گوجرانوالہ کے علاقے سٹیلائیٹ ٹائون سے متصل فرید ٹائون میں گزشتہ بدھ کو پیش آیا تھا، جس میں ایک بارہ سالہ بچے نے اپنی ماں کو قتل کیا۔ لیکن بعد میں اس بارہ سالہ بچے نے خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔ پولیس نے بچے کا ریمانڈ لے لیا ہے اور مزید تفتیش جاری ہے۔
ذرائع کہتے ہیں کہ اس بچے کو اس کے باپ نے اس کام پر اکسایا، ورنہ اتنا کم عمر بچہ ایسا کام نہیں کرسکتا۔ محلے داروں میں بعض کا کہنا ہے کہ بچے کا دماغی توازن درست نہیں۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ بچے نے جس طرح ماں کا باقاعدہ پیچھا کیا اور اسے للکار کر مارا۔ یہ باقاعدہ پلاننگ لگتی ہے۔
فرید ٹائون کی ایک گلی میں یہ عورت ایک اور خاتون کے ساتھ جارہی تھی کہ بچہ پیچھے چادر نما برقعہ پہنے آیا۔ اس کے ماں نے شک کی بنیاد پر پیچھے دیکھا تو اس نے فوری طور پرپستول نکال لیا۔ ماں نے دوسری عورت کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی۔ لیکن بچ نہ سکی۔ پہلا فائر جو ماں کے سینے پر لگا، اس سے وہ نیچے گر گئی۔ جب کہ اس کے بعد بچے نے فلمی انداز میں ماں کی گردن پر پائوں رکھ کر اس کے سر میں گولی مار دی، جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگئی۔ یہاں پولیس ان لائنوں پر بھی تفتیش کررہی ہے کہ اتنے چھوٹے بچے کو پستول چلانے کی اتنی ٹریننگ کیسے ملی اور سب سے اہم بات یہ کہ اسے وہ پستول کس نے دیا؟
کچھ لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ماں کو مارنے کے بعد بھاگنے کی کوشش کررہا تھا اور اس نے پولیس پر بھی فائرنگ کی، لیکن یہ اطلاعات کنفرم نہیں ہیں۔‘‘ زوہیب نے مزید بتایا کہ ’’دراصل مقتولہ کے شوہر کو شک تھا کہ اہلیہ کا کردار درست نہیں ہے۔ ہم نے جب اپنے طور پر وہاں لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔ اس عورت کے بارے ایسے کچھ شواہد موجود تھے، لیکن چونکہ اب وہ اس دنیا میں نہیں اور اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے، اس لیے کھل کر اس پر کسی نے بات کرنے سے گریزکیا۔ لیکن یہ بات درست ہے کہ اس کے شوہر اور اس کے درمیان یہی جھگڑا تھا کہ شوہر اسے دیگر لوگوں سے تعلقات رکھنے سے منع کرتا تھا۔ اس کے باوجود وہ باز نہیں آرہی تھی جس وجہ سے وہ لڑجھگڑ کر شوہر سے علیحدہ رہنے لگی۔بعد میں اس نے شوہر سے تنسیخ نکاح کا مطالبہ کیا اور اس حوالے سے عدالت سے بھی رجوع کرلیا۔
پولیس نے اس حوالے سے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ابھی بچے نے یہ قبول نہیں کیا کہ اس نے کس کی ایما پر ماں کومارا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ کام اس نے اپنے طور پر انجام دیاہے۔ بچے کے دماغی توازن کے بارے پولیس نے ابھی تک کنفرم نہیں کیا، بلکہ یہ کہا ہے کہ بچہ اپنی عمر سے بڑی باتیں کر رہا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اس نے باقاعدہ پلاننگ اور ریکی کرکے یہ کام کیا ہے۔ پستول کے حوالے سے بچے نے پولیس کو بتایا کہ اسے یہ پسٹل اس کے ایک دوست نے دیا ہے۔ پولیس ان لائنوں پر بھی تفتیش کر رہی کہ اس کم عمر بچے کا ایسا کون سا دوست ہے جس کی رسائی پستول تک ہے۔ کیا یہ پستول اس بچے کے دوست نے اپنے باپ یا گھر میں کسی بڑے کا چرا کر اسے دیا یا پھر یہ گن اسے اپنے باپ سے ملی؟
ملزم بچے نے جس دوست کا نام بتایا ہے، وہ بھی غلط ہے۔ کیونکہ ایسا کوئی دوست اس کے بتائے گئے پتے پر موجود نہیں ہے۔ پولیس مقتولہ کے اور اس کے شوہر کے موبائل کا بھی فرانزک کرا رہی ہے۔ پولیس حکام کو امید ہے کہ جلد وہ اس کیس کو سلجھا لیں گے۔ دوسری جانب فرید ٹائون کے علاقے میں لوگوں کو اس قتل نے کافی خوفزدہ کردیا ہے اور خاص طور پر دیگر بچوں کے ذہن پراس کے بہت مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ لوگوں کے بچے، ماں باپ سے ایسے سوالات کررہے ہیں جن کے بارے ان کے ماں باپ کے پاس بھی جوابات نہیں ہیں۔ علاقہ مکینوں نے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس کو جلد اصل مجرموں تک پہنچ کر اسے منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔‘‘