سید نبیل اختر :
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ )کی ناقص پالیسی کے سبب 500 فیصد مہنگی دوائیں فروخت ہورہی ہیں۔ ایک ہی ’’مالیکیول‘‘ (فارمولا) کی قیمت میں کئی سو گنا فرق ہونے سے سیکڑوں دوا ساز کمپنیوں نے پروڈکشن بند کر دی ہے۔ حکومت نے شہریوں کو ملٹی نیشنل دوا ساز اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
پاکستان میں دوا کی قیمت کے حوالے سے جو قانون رائج ہے وہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے یکسر مختلف ہے۔ دنیا بھر میں ایک مالیکیول کی ایک قیمت مقرر ہے، اگر کسی ملک میں ڈائی کلوفینک پوٹاشیم کی قیمت ایک ڈالر مقرر ہے تو اس مالیکیول سے دوا تیار کرنے والی تمام کمپنیاں پابند ہیں کہ وہ ایک ڈالر سے کم میں ہی دوا فروخت کریں گے۔ تاہم پاکستان میں ایسا نہیں۔ یہاں لیڈر برانڈ کی قیمتیں انتہائی زیادہ ہیں اور 20 سال کے بعد اسی دوا کی رجسٹریشن حاصل کرنے والی دوسری کمپنی کو برانڈ لیڈر کے مقابلے میں 30 سے 40 فیصد کم قیمت پر فروخت کی اجازت دی جاتی ہے۔
دوا کی قیمت کے اس فرق سے ماضی میں محض دوا ساز کمپنیاں فائدے اور نقصان اٹھاتی تھیں، لیکن اب را میٹریل مہنگا ہونے کے سبب مقامی دواساز کمپنیاں پروڈکشن بند کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ اور نتیجتاً پاکستانی شہری مہنگی ترین ادویات خریدنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں دوا کی قیمت کا تعین کرنے والا ادارہ ڈریپ (ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان) ہے۔ جہاں دوا ساز کمپنیاں اپنی پروڈکٹ کے حوالے سے رجسٹریشن کی منظوری حاصل کرتے وقت بتاتی ہیں کہ ان کی پروڈکٹ فلاں مالیکیول (فارمولے) سے متعلق ہے جس کی را میٹریل کی خریداری بمع لیبر چارجز کی مد میں دوا کی قیمت اتنے روپے پڑے گی اور کمپنی اس پر اتنے فیصد منافع لینے پر اسے فلاں قیمت پر فروخت کرے گی۔ درخواست ڈریپ کے شعبہ ڈرگ پرائسنگ کمیٹی کے پاس جاتی ہے جہاں اس درخواست گزار کی بھیجی گئی درخواست کی جانچ کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اسے کتنی قیمت پر دوا فروخت کرنے کی اجازت دی جائے؟ بعدازاں دوا کی قیمت کا تعین کر کے ڈریپ کے سربراہ کی منظوری کے لیے بھیجا جاتا ہے جہاں سے منظوری ملنے پر دوا ساز کمپنی کو اس کی پروڈکشن کی اجازت دی جاتی ہے۔ تاہم اب قانون میں تبدیلی کر کے دوا کی قیمت کا تعین ای سی سی کی منظوری سے مشروط کر دیا گیا ہے۔
ماضی میں ڈریپ نے دوا کی قیمت کے حوالے سے دوا ساز کمپنیوں کو من مانی قیمتیں الاٹ کیں جس کے نتیجے میں برانڈ لیڈرز کو فائدہ پہنچا اور مقامی دوا ساز اداروں کو نقصان کا سامنا رہا۔ لیکن دوا کی فروخت کا والیوم (حجم) زیادہ ہونے کی وجہ سے مقامی دوا ساز کمپنیاں کسی صورت اپنے کاروبار کو چلانے میں کامیاب رہیں۔ دنیا بھر میں ادویات کی را میٹریل کی خریداری مہنگی ہونے کے سبب ڈریپ کے پاس پرائس کے حوالے سے سیکڑوں شکایات درج ہوتی گئیں۔ لیکن پرائس کمیٹی کی جانب سے دوا کی قیمت نہ بڑھانے کے باعث پاکستان میں دوا سازی کے سیکڑوں کارخانے بند ہوگئے۔
جمعہ کو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے پیراسیٹامول سمیت 20 ادویات کی قیمت بڑھانے کی منظوری دے دی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں پیراسیٹامول سادہ گولی 500 ملی گرام کی قیمت میں 2.67 اور پیراسیٹامول ایکسٹرا 500 ملی گرام کی قیمت 3.22 روپے مقرر کرنے کی منظوری دے دی۔ تاہم اس طرح کے اضافے کے بعد ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پروڈکٹس مزید مہنگی ہو گئیں۔ لیکن مقامی دوا ساز ادارے مذکورہ اضافے کے باوجود اپنی پروڈکشن بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
’’امت‘‘ کو کراچی کی ایک معروف دوا ساز کمپنی کے مالک نے بتایا کہ برانڈ لیڈر کی دوا کی قیمت کے تحفظ کرنے میں حکومت کے ساتھ ہیں۔ لیکن مقامی دوا ساز اداروں کو جو پرائس ملی ہوئی ہیں، اس کی نسبت را میٹریل کئی گنا مہنگا ہو چکا ہے، جس کی بنا پر ہم مزید پروڈکشن نہیں کر سکتے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے واضح کیا کہ ڈائیکلفینک پوٹاشیم 50 ملی گرام ٹیبلیٹ بنانے والی ملکی و غیر ملکی 107 کمنپیاں ہیں۔ لیکن ڈریپ نے ایک ہی پروڈکٹ کو مختلف قیمتیں الاٹ کر رکھی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’نوارٹس‘ یہ دوا کیفلام کے نام سے بنا رہی ہے جسے 281 روپے میں فروخت کی اجازت ہے۔ یہی پروڈکٹ ہلٹن فارما، میکسٹ کے نام سے بنا رہی ہے جسے 225 روپے میں فروخت کی اجازت ہے۔ وہی پروڈکٹ انڈس فارما، ڈائیکلوپی کے نام سے 223 روپے میں فروخت کرتی ہے۔ جبکہ یہی پروڈکٹ 100 سے زائد کمپنیاں بنا رہی ہیں، جنہیں ڈریپ نے 101 روپے بیالیس پیسے میں فروخت کی اجازت دے رکھی ہے۔ تاہم مذکورہ پروڈکٹ کی لاگت ایک سو پچاس روپے آرہی ہے تو 101 روپے میں دوا بنانے والی 100 فیکٹریاں لاگت سے کم پر کس طرح پروڈکشن کر سکتی ہیں؟ نتیجتاً شہری ان 100 کمپنیوں کی پروڈکشن بند ہونے کی وجہ سے 281 اور 225 روپے میں دوا خریدنے پر مجبورں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ بیشتر دوائیں 400 سے 500 فیصد مہنگی ہو جائیں گی۔ لیکن ڈریپ مقامی دوا ساز کمپنیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے عوام کو ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہتی ہے۔
’’امت‘‘ کو ذرائع سے پاکستان میں بہت زیادہ فروخت ہونے والے 12 مالیکیول کے مختلف پروڈکٹس کے حوالے سے قیمتوں کے اعداد و شمار موصول ہوئے جو انتہائی بھیانک منظر پیش کررہے ہیں۔
ڈریپ نے بلڈ پریشر کی دوا (AMLODIPINE) 10 ملی گرام ٹیبلیٹ کی قیمت 609 روپے سے لے کر 226 روپے تک مقرر کر رکھی ہے۔ فائزر یہ پروڈکٹ (NORVASC) کے نام سے بنا رہی ہے، جسے 609 روپے 80 پیسے کی قیمت میں فروخت کی اجازت ہے۔ یہی پروڈکٹ ماس فارما (AMODIP) کے نام سے 611.76 روپے، ہیمانٹ CARDIOSIL کے نام سے 416.71 روپے۔ ولسنز یہی پروڈکٹ (SOFRASC) کے نام سے 408.19 روپے۔ بیرٹ ہڈسن یہی پروڈکٹ (AMPRESS) کے نام سے 408.16 روپے۔ فارماٹیک یہی دوا AMLOCARD کے نام سے 408.17 روپے۔ نوارٹس یہی دوا QUVASC کے نام سے 408.17 روپے اور سپلائف یہی دوا ایم لو (M-LOW) کے نام سے 408.16 روپے میں فروخت کر سکتی ہے۔ جبکہ اسی پروڈکٹ کے لیے 100 سے زائد دوا ساز کمپنیوں کو 226.83 روپے میں فروخت کی اجازت دی گئی ہے۔
اسی طرح درد کے لیے استعمال ہونے والی دوا ڈائیکلوفینک سوڈیم 50 ملی گرام ٹیبلیٹ کی قیمتیں 232 سے 105 روپے تک مقرر کر رکھی ہیں۔ ڈریپ نے او بی ایس نامی کمپنی کو مذکورہ دوا MAGNOFENAC کے نام سے فروخت کرنے کے لیے 232.51 روپے کا ریٹ مقرر کیا ہے۔ یہی پروڈکٹ نوارٹس کو 196.47 روپے میں، VOTTROY کے نام سے فروخت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ سامی فارما کو ڈائیکلورن کے نام سے 189.79 روپے میں فروخت کرنے کی اجازت ہے۔ ATCO فارما PENFEN کے نام سے 173.17 روپے، جبکہ 100 سے زائد دوا ساز کمپنیوں کو یہی پروڈکٹ فروخت کرنے کے لیے 105.01 روپے کا ریٹ مقرر کیا گیا ہے۔
بیکٹیریا مارنے کی صلاحیت رکھنے والی دوا CEFTRIAXONE ایک گرام کے انجکشن کے حوالے سے ڈریپ نے کمپنیوں کو 1091 روپے سے 502 روپے میں فروخت کی اجازت دے رکھی ہے۔ مارٹن ڈائو یہ پروڈکٹ ROCEPHIN کے نام سے 1091.34 روپے۔ سامی فارما OXIDIL کے نام سے 641.38 روپے۔ مارٹن ڈائو یہی پروڈکٹ MERECTEX کے نام سے 605.24 روپے۔ بیرٹ ہڈسن یہی پروڈکٹ INOCEF کے نام سے 601.23 روپے۔ گلوبل فارما ACZON کے نام سے 582.96 روپے جبکہ 100 سے زائد کمپنیوں کو یہ پروڈکٹ فروخت کرنے کے لیے 502.15 روپے کا ریٹ مقرر کر رکھا ہے۔
معدے کی تیزابیت ختم کرنے والی دوا پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دوا میں شامل ہے۔ یہ دوا (OMEPRAZOLE) 40 ملی گرام کی GETZ PHPRMA، رائزیک RISEK کے نام سے بناتی ہے۔ جسے 1256.18 روپے میں فروخت کی اجازت دے رکھی ہے۔ جبکہ یہی پروڈکٹ بنانے والی 100 سے زائد کمپنیوں کو 291.08 روپے میں فروخت کی اجازت ہے۔ OMEPARAZOLE، 20 ملی گرام کیپسول کی قیمت 750 روپے سے لے کر 225 روپے تک مقرر ہے، جس میں GETZ PHARMA کو رائزیک 750.12 روپے۔ میکڈ فارما کو JANTE کے نام سے 750.74 روپے۔ آئی سی آئی کو ETIPRO کے نام سے 750.72 روپے۔ سی سی ایل کو FAAST کے نام سے 750.74 روپے۔ فارماٹیک کو PRAZOL کے نام سے 750.74 روپے۔ فیروز سنز کو OMEGACAPS کے نام سے 714.04 روپے۔ ایلن فارما، BENZIM کے نام سے 714.04 روپے۔ پلاٹینم فارما کو OMCAP کے نام سے 641.38 روپے، جبکہ 200 سے زائد دوا ساز کمپنیوں کو 225.27 روپے کا ریٹ الاٹ کیا گیا ہے۔
ذیابیطس کے مریض، امراض اعصاب کے لیے استعمال ہونے والی دوا پری گیبلن PREGABLIN، 75 ملی گرام کی دوا کے ریٹ 1718 سے 397 روپے تک مقرر کر رکھے ہیں، جس میں فائزر کو LYRICA کو 1718.28 روپے میں فروخت کی اجازت دی گئی ہے۔ ہائی نون فارما کو HILIN کے نام سے 1424.96 روپے۔ ہلٹن فارما کو ZEEGAP کے نام سے 1019.57 روپے۔ ATCO کو SYNGAB کے نام سے 859.58 روپے۔ GEZT PHARMA کو GABICA کے نام سے 841.97 روپے۔ سامی فارما کو PREGY کے نام سے 841.94 روپے۔ مارٹن ڈائو کو PRELIN کے نام سے 841.96 روپے۔ شائیگن فارما کو PEGALIN کے نام سے 841.96 روپے۔ او بی ایس فارما کو NERGAB کے نام سے 841.86 روپے۔ امارینٹ فارما کو REGAB کے نام سے 830.47 روپے۔ سی سی ایل کو GABLIN کے نام سے 818.13 روپے، جبکہ 100 سے زائد یگر دوا ساز کمپنیوں کو مذکورہ پروڈکٹ کی فروخت کے لیے 397.46 روپے کا ریٹ الاٹ کیا گیا ہے۔
ڈپریشن کی دوا FLUOXETINE، 20 ملی گرام کیپسول کی قیمت ڈریپ نے 607 روپے سے لے کر 101.69 روپے مقرر کر رکھی ہے۔ مذکورہ پروڈکٹ ELILILLY فارما کو PROZAC کے نام سے 607.14 روپے میں فروخت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہی پروڈکٹ اسٹینڈ فارم VONDER کے نام سے 528.70 روپے۔ ہلٹن فارما FLUX کے نام سے 527.25 روپے۔ ویرک فارما RIZE کے نام سے 520.74 روپے۔ بن قاسم فارما DEPRICAP کے نام سے 383.19 روپے۔ فارماٹیک OXETIN کے نام سے 296.74 روپے۔ جبکہ یہی پروڈکٹ 100 سے زائد کمپنیوں کو 101.69 روپے میں فروخت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسے سینکڑوں مالیکیولز ہیں، جن کی مختلف کمپنیوں کو مختلف قیمت میں فروخت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن کم قیمت میں دوا بنانے والی کمپنیوں نے را میٹریل مہنگا ہونے کے بعد نئی قیمتوں کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے پروڈکشن بند کر دی ہے جس سے اب مارکیٹ میں صرف ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پروڈکٹس دستیاب ہیں جو مہنگی ہیں۔ قیمتوں میں اضافے کے باوجود سستی دوا بنانے والی کمپنیوں نے پروڈکشن شروع نہیں کی ہے، جس سے دوا کا بدترین بحران پیدا ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ بیشتر دوا ساز کمپنیاں ایک مالیکیول کی ایک ہی قیمت کے مقرر ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ قیمتوں کے درست تعین نہ ہونے کی وجہ سے سیکڑوں دوا ساز کمپنیوں کو تالے لگ چکے ہیں اور ہزاروں ملازمین کمپنی بند ہونے سے بے روزگار ہو گئے ہیں۔
ایک مالکیول کی ایک قیمت مقرر کی جائے- غلام نورانی
پاکستان کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن سندھ زون کے چیئرمین غلام ہاشم نورانی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ دوائوں کے متوقع بحران کے خدشے کے پیش نظر ایک مالکیول کی ایک ہی قیمت مقرر کی جائے۔ انہوں نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہا کہ دوا کا خام مال جس حساب سے مہنگا ہورہا ہے، مقامی دوا ساز کمپنیاں اسی حساب سے بندش کی طرف جارہی ہیں۔ ایسا محض اس لیے ہورہا ہے کہ ڈریپ نے دوا کی قیمتیں مختلف کمپنیوں کو مختلف الاٹ کی ہیں۔ پہلے شہریوں کو مقامی دوا ساز کمپنیوں کی سستی ادویات اس لیے میسر آجاتی تھیں کہ ان کے مقررہ ریٹ میں ان کی تیاری ممکن تھی اور کم مارجن کے ساتھ بھی وہ با آسانی دوا فروخت کرپاتے تھے۔ لیکن اب پاکستانی دوا ساز کمپنیوں کی پروڈکٹس کی متعین قیمتیں لاگت سے کہیں کم ہیں، جس کی وجہ سے بیشتر کمپنیوں نے پروڈکشن روک دی ہے۔ نتیجتاً عوام سستی اور معیاری دوا سے محروم ہوجائیں گے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری قائم ہوگی جو من مانی قیمتوں (زائد قیمت) پر دوا فروخت کریں گی۔ پی سی ڈی اے، وفاقی وزیر صحت سے اپیل کرتی ہے کہ وہ دوا کی مالکیول کی ایک قیمت مقرر کردیں۔ تاکہ عوام کو سستی دوا میسر آسکے اور بلیک مارکیٹنگ کا خاتمہ ممکن ہو۔