لاہور: پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے تسلیم کر لیا کہ جو چیزیں سامنے آ رہی ہیں اس سے واضح ہوا کہ مجھے نکالنے میں امریکا کا ہاتھ نہیں تھا۔
جنرل (ر) باجوہ کے شہباز شریف کے ساتھ قریبی تعلقات تھے جن کے نتیجے میں رجیم چینج آپریشن کے لیے راہ ہموار ہوئی تاہم نئی عسکری قیادت میں تاثر ہے کہ رجیم چینج آپریشن ناکام ہوچکا ہے۔
ایک انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ فوج کی تمام پالیسیوں کا انحصار صرف ایک فرد کی شخصیت پر ہوتا ہے، ہماری حکومت اور جنرل (ر) باجوہ کے مابین مثبت تعلقات کے نتیجے میں ہمیں پاک فوج کی منظم حمایت حاصل رہی، حکومت اور عسکری ادارے کی مشترکہ کوششوں سے کورونا وائرس کا بہترین انداز میں مقابلہ کیا گیا۔
انہوں ںے کہا کہ جنرل (ر) باجوہ اور ہمارے درمیان مسائل تب پیدا ہوئے جب انہوں نے ملک کے چند بڑے مجرموں کی حمایت کی، جنرل (ر) باجوہ چاہتے تھے کہ ہم ان چوروں کی کرپشن معاف کرکے ان کے ساتھ مل کر کام کریں، جنرل (ر) باجوہ کے شہباز شریف کے ساتھ قریبی تعلقات تھے جن کے نتیجے میں رجیم چینج آپریشن کے لیے راہ ہموار ہوئی۔
عمران خان نے کہا کہ عوام کی منتخب کردہ حکومت کے پاس ذمے داری کے ساتھ ساتھ اختیار بھی ہونا چاہیے ہم ن دونوں کو علیحدہ نہیں رکھا جاسکتا، جب اختیار آرمی چیف کے پاس اور ذمہ داری وزیر اعظم کے پاس ہو تو نظام نہیں چل سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی نئی عسکری قیادت میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ رجیم چینج آپریشن ناکام ہو چکا ہے، پاکستان کی معیشت بری طرح تباہ ہو چکی ہے، اس وقت پاکستان تاریخ کے بدترین معاشی اور سیاسی بحران سے گزر رہا ہے، الیکشن کمیشن کی ساکھ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے اس صورت میں شفاف انتخابات کا انعقاد ناممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں کسی بھی حکومت کے ساتھ پاکستان کے اچھے تعلقات کا ہونا ناگزیر ہے، میں نے اشرف غنی حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ وہ دہشت گردی کی صورت میں ہماری معاونت کرسکیں۔
عمران خان نے کہا کہ ہمارے وزیر خارجہ بلاول نے اپنا سارا وقت بیرونی دوروں پر صرف کیا لیکن افغانستان کا ایک بھی دورہ نہیں کیا۔ ہم اس وقت دہشت گردی کے خلاف ایک اور جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے، جب طالبان نے افغانستان کی حکومت سنبھالی تو 30 سے 40 ہزار مہاجرین کو پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا، ہمارے لیے ان کی دوبارہ آباد کاری ایک بہت بڑا چیلنج تھا ۔
انہوں ںے کہا کہ بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد کسی کی ذاتی انا پر نہیں بلکہ ملکی مفادات پر ہونی چاہیے۔ امریکا ایک سپر پاور ہے اور ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، جو چیزیں سامنے آ رہی ہیں اس سے واضح ہوا کہ مجھے نکالنے میں امریکا کا ہاتھ نہیں تھا، پاکستانی عوام کے مفاد میں امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔