اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پولیس افسران کی ٹرانسفر پوسٹنگ کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ پنجاب اور سندھ حکومتوں کی جانب سے ٹرانسفر پوسٹنگ پر تفصیلی رپورٹ جمع کروادیں گئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پنجاب کی رپورٹ کے مطابق 2018 سے ابھی تک کوئی بھی آئی جی نے ایک سال کی مدت مکمل نہیں کی ، کچھ آئی جی صاحبان تو ایک ماہ بھی آئی جی رہے، مؤثر قیادت کیلئے ہی آئی جی کے عہدے کی مدت رکھی گئی ہے۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ 2017 میں پنجاب کابینہ نے پولیس آرڈر میں تبدیلی کا فیصلہ کیا، تاہم آج تک آئی جی کی جانب سے تبدیلی پر بریفننگ ہی نہیں دی جا سکی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 6 سال سے بریفنگ نہ ہونے کہ وجہ کیا سیاسی رکاوٹیں ہیں ؟ پنجاب پولیس میں سیاسی مداخلت ہے، جان بوجھ کر پولیس کو ٹریننگ اور اختیارات کے بغیر رکھا گیا ہے، 6 سال سے مغوی بچیوں کی بازیابی کیلئے ایجنیسوں کی مدد لینا پڑی پولیس کو ٹریننگ کی ضرورت ہے۔
جسٹس اطہر نے کہا کہ پنجاب کی رپورٹ میں آئی جی صاحبان کو عہدوں سے ہٹانے کی وجوہات نہیں بتائی گئیں، ٹرانسفر کرنا ایگزیکٹو کا اختیار ہے وہی عوام کو جوابدہ ہیں، اگر کارکردگی پر ٹرانسفرز کی گئیں ہیں تو کیا کسی کے خلاف کارروائی ہوئی۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ مجھے پنجاب اور سندھ کی رپورٹس کا جائزہ لینے کیلئے مہلت دی جائے، چیرمین نیب کی طرز ہر آئی جی کا بھی عہدہ بھی ہونا چاہیے۔دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور چیف جسٹس کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ کیس کو انتخابات کے بعد مئی میں رکھا جائے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ الیکشن کرانا چاہتے؟۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ آئین کے مطابق تو 90 دنوں میں انتخابات ہونا ہیں۔عدالت نے پولیس ٹرانسفرز سے متعلق کیس کی سماعت مارچ کے اخری ہفتے تک ملتوی کردی۔
عدالت نے پنجاب کے سابق چیف سیکریٹری کامران افضل کی بحالی کی درخواست خارج کرتے ہوئے کہا کہ چیف سیکریٹری کاکیس انفرادی نوعیت کا ہے اس کیس کی پولیس کیس سے مماثلت نہیں بنتی، کامران افضل اپنی شکایت کے تدارک کیلئے ہائیکورٹ میں جا سکتے ہیں۔