اسلام آباد ( امّت نیوز) کیا تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان ایک بار پھر لاہور کے زمان پارک سے اسلام آباد کے بنی گالہ میں منتقل ہونے والے ہیں؟ اس حوالے سے صورت حال اگلے 24 گھنٹے میں واضح ہو جائے گی تاہم باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ بنی گالا میں نہ صرف غیر معمولی سیکورٹی انتظامات کیے جا رہے ہیں بلکہ عمران خان کی رہائش کے لیے مخصوص دو کمروں کو بلٹ پروف بھی بنایا جا رہا ہے تاکہ یہاں منتقلی کی صورت میں انہیں کسی قسم کے جانی خطرے سے بچایا جا سکے۔واضح رہے کہ وزیر آباد حملے کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ سیکیورٹی کے حوالے سے حصوصی احتیاط برت رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ میں پیشی کے لیے جانے پر بھی انہوں نے خاصی پس و پیش سے کام لیا اور عدالتی احاطے میں پہنچنے کے باوجود ان کے وکلا کا اصرار تھا کہ کیس کی سماعت کے دوران انہیں گاڑی میں ہی بیٹھنے کی اجازت دی جائے۔
یاد رہے کہ ماضی میں حساس اداروں کی ایڈوائس کے باوجود عمران خان جلسوں کے دوران بھی بلٹ پروف ڈائس استعمال نہیں کرتے تھے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اب عمران خان کو ان کی سیکیورٹی مشیروں نے غیرمعمولی احتیاطی تدابیر کا مشورہ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنی گالہ میں ان کی ممکنہ منتقلی کے پیش نظر غیر معمولی حفاظتی انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد سے منتخب سابق رکن قومی اسمبلی علی نواز اعوان کو سکیورٹی سے متعلق امور سونپے گئے ہیں جبکہ مخصوص کمروں کو بلٹ پروف بنانے کی ذمہ داری تحریک انصاف کے رہنما علی امین گنڈا پورنے اپنے ذمے لی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 28 فروری کو عمران خان کو اسلام آباد کی بنکنگ کورٹ میں پیشی کیلئے طلب کیا گیا ہے جبکہ اگلے روز انہیں توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ علاوہ ازیں اگلے ہفتے مبینہ بیٹی کے کیس میں بھی عدالت میں ان کی پیشی ہے ،جس کے لیے امکانی طور پر عمران خان وفاقی دارالحکومت کا رخ کریں گے۔ چنانچہ بنی گالہ میں ان کے قیام کے لئے خصوصی سیکورٹی انتظامات کی تیاری کی جا رہی ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ وہ عدالت میں پیشی کے بعد کتنے دن یہاں قیام کریں گے ، مستقل یہاں رہیں گے یا زمان پارک کے لئے واپس روانہ ہو جائیں گے۔
دوسری طرف حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ زمان پارک سے نکلنے کے بعد عمران خان کی گرفتاری کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔حکومت کا خیال ہے کہ عمران خان کے خلاف مقدمات کی نوعیت ایسی ہے کہ عدالت ان کی گرفتاری کا حکم دے سکتی ہے، لہذا حکومت عجلت میں کوئی قدم اٹھانے کے بجائے عدالتی فیصلے کا انتظار کرے گی۔