اسلام آباد : عوام کو مشتعل کرنے کے الزام میں گرفتار معروف دفاعی و سیاسی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کو اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیش کردیا گیا۔
تھانہ رمنا کے تفتیشی افسر، پراسیکیوٹر اور امجد شعیب کی لیگل ٹیم بھی جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ کی عدالت میں پیش ہوئی۔ پراسیکیوشن کی جانب سے عدالت سے امجد شعیب کے 7 روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے بتایا گیا کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا فوٹو گرامیٹرک ٹیسٹ لاہور سے کروانا ہے۔
عدالت میں پراسیکیوٹر عدنان نے امجد شعیب کے خلاف مقدمے کا متن پڑھا اور عدالت کو بتایا کہ نجی ٹیلی ویژن پر امجد شعیب بطور مہمان موجود تھے، ان کے بیان سے حکومت کے خلاف نفرت پھیلائی گئی، بیان سے حکومت، اپوزیشن اور سرکاری ملازمین کے درمیان نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی، اپوزیشن کو حکومت کے خلاف مزید سخت حکمتِ عملی کے لیے اکسایا گیا، امجد شعیب کے بیان سے 3 گروہوں کے درمیان نفرت پھیلائی گئی، ان پر لگی دفعات کے تحت 5 اور 7 سال کی سزا ہو سکتی۔
امجد شعیب کے وکیل نے اپنے مؤکل کے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کر دی اور انہیں کیس سے ڈسچارج کرنے کی استدعا بھی کی گئی۔
وکیلِ صفائی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ امجد شعیب نے کوئی جرم کیا بھی ہے یا نہیں، اگر مجسٹریٹ کو لگتا ہے کہ کوئی جرم نہیں کیا تو کیس ڈسچارج کیا جا سکتا ہے، ان پر مقدمے میں لگائی گئی دفعات بنتی ہی نہیں، امجد شعیب نے ایک مخصوص صورتِ حال سے متعلق صرف مثال دی، انہوں نے ایسی کیا بات کر دی جس پر قانون نے کوئی پابندی لگائی ہو؟
انہوں نے ایسی بات آج تک نہیں کی جس سے ملک کو نقصان پہنچے، امجد شعیب کے خلاف صرف سیاسی بنیادوں پر مقدمہ دائر کیا گیا ہے، وہ تقریباً 80 سال کے ہیں، انہوں نے مثبت تنقید کی، انہیں کافی عرصے سے ہراساں کیا جا رہا ہے، ایک گھنٹے کے اندر مقدمہ درج کر کے امجد شعیب کو سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا، جائز تنقید کرنا اگر غلط ہے تو اپوزیشن کو تو سسٹم سے نکال دیں۔
اس کے ساتھ ہی امجد شعیب کے وکیل کے دلائل مکمل ہو گئے جس کے بعد صدر اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن قیصر امام نے ملزم کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ امجد شعیب اپنے بیان کا اقرار کر رہے ہیں کہ وہی ٹیلی ویژن پر بیٹھے ہوئے تھے، اگر بیان اور اپنی موجودگی کا اقرار کر لیا تو فوٹو گرامیٹرک اور وائس میچنگ ٹیسٹ کیوں کرانے چاہئیں؟
پراسیکیوٹر نے کہا کہ ٹرائل کے لیے وائس میچنگ اور فوٹو گرامیٹرک ٹیسٹ کا ثبوت ضروی ہوتا ہے۔
پراسیکیوٹر نے امجد شعیب کو کیس سے ڈسچارج کرنے کی درخواست کی مخالفت کر دی۔
وکیلِ صفائی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2 اداروں کے افسران کی گرفتاری رہ گئی تھی، ہو سکتا ہے کہ اگلی گرفتاری عدلیہ کے کسی افسر کی ہو۔