اسلام آباد(امت نیوز)پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات پر ازخود نوٹس کیس کی 23 فروری کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا گیا۔
چار جج صاحبان نے اختلافی نوٹ میں سینئر ججز کی بینچ میں عدم شمولیت اور ازخود نوٹس کے دائرہ اختیار پر سوالات اٹھائے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے معاملہ ہائیکورٹس میں زیرسماعت ہونے کی بنیاد پر تینوں درخواستیں مسترد کردیں۔
چار جج صاحبان نے اختلافی نوٹس کےذریعے ، سوموٹو لئے جانے اور بینچ میں سینئر ججوں کو شامل نہ کرنے کے نکات اٹھائے۔ ایک سپریم کورٹ جج اور صدر سپریم کورٹ بار کی آڈیولیکس کا بھی تذکرہ کیا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے قرار دیا ہے سی سی پی پی لاہور کے تبادلے کے جس کیس کی سماعت کے دوران دو جج صاحبان نے سوموٹو کیلئے چیف جسٹس کو نوٹ بھیجا ، اس کا صوبائی انتخابات سے کوئی تعلق بنتا ہے نہ ازخود نوٹس لینے کا کوئی جواز ، ان دو ججز کو بھی بینچ میں شامل کیا گیا جو ریمارکس میں اپنی رائےدے چکے ۔ عابد زبیری کی آڈیو لیک سنگین معاملہ ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا ہے دو جج صاحبان نے پولیس افسر کی ٹرانسفر کے کیس میں غیرضروری طور پر الیکشن کے معاملےمیں دلچسپی دکھائی ، ازخود نوٹس لینے پر تحفظات کے باوجود کیس سنوں گا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ معاملہ ہائیکورٹس میں زیرالتوا ہونے کی وجہ سے سوموٹو نہیں لینا چاہیے تھا ، زیرغور تینوں درخواستیں ناقابل سماعت ہیں ، میرے بینچ میں بیٹھنے یا نہ بیٹھنے کا فیصلہ چیف جسٹس کریں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے جسٹس یحییٰ آفریدی کے اختلافی نوٹ کو اپنایا اور کہا کہ تحریری حکمنامہ چیف جسٹس کے اوپن کورٹ میں آرڈر سے مطابقت نہیں رکھتا۔ انہوں نے پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کی تحلیل درست یا غلط ہونے کے متعلق 3 سوالات بھی اختلافی نوٹ میں شامل کئے ہیں۔