اسلام آباد: پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت میں چار بجے تک وقفہ کر دیا گیا۔سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کو اپنے قائدین سے مشاورت اور ہدایات لینے کیلیے وقت دیدیا،
چیف جسٹس نے کہا کہ اتفاق رائے سے الیکشن کی تاریخ طے کرلیں،سیاسی قائدین مشورہ کرکے الیکشن کی متوقع تاریخ سے عدالت کو آگاہ کر دیں۔
ن لیگ ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ایف کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ سے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے معاملے پر فل بینچ تشکیل دینے کی درخواست واپس لے لی ۔
سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت ہوئی جس دوران فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے مشترکہ ہدایت کی ہے کہ فل کورٹ کی درخواست نہیں چلائیں ، چیف جسٹس نے پانچ رکنی جو بینچ بنایا ہے وہی درخواست سنے ۔
سپریم کورٹ نے حکومت اور پی ٹی آئی کو مشاورت سے ایک تاریخ دینے کا مشورہ دیاہے ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم فیصلہ کر بھی دیں تو مقدمہ بازی چلتی رہے گی ،مقدمہ بازی عوام اور سیاستی جماعتوں کیلئے مہنگی ہو گی ،کوئی بھی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا، عدالت کے علاوہ کسی کو انتخابی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں ہے ،ٹھوس وجوہات کاجائزہ لے کر ہی عدالت حکم دے سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ معاشی مشکلات کا ذکر 1988 کے صدارتی ریفرنس میں بھی تھا ،آرٹیکل 254 وقت میں تاخیر پر پردہ ڈالتا ہے ،قدرتی آفات یا جنگ ہو تو آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جا سکتاہے ،الیکشن بروقت نہ ہوئے تو استحکام نہیں آئے گا، حکومت کی نیک نیتی پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہے ، پہلی بار ایسی صورتحال ہے کہ کنٹینر پر کھڑے ہیں لیکن زرمبادلہ نہیں ،آج صرف تاریخ طے کرنے کا معاملہ دیکھنا ہے، اگر 90 روز سے تاخیر والی تاریخ آئی تو کوئی چیلنج کر دے گا ،جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت گورنر نے بنائی تو الیکشن کی تاریخ کیوں نہیں دینی
الیکشن کمیشن وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کے تحت کام کرناہے الیکشن کمیشن تین طرز کی تاریخ دے سکتاہے ، الیکشن کمیشن سینیٹ، صدارتی اور ضمنی الیکشن کی تاریخ دے سکتاہے ، ہم صرف پنجاب اور خیبر پختون خوا کے الیکشن کی بات کر رہے ہیں، ہمارا پہلے دن سے موقف ہے تاریخ کا اعلان گورنر نے کرناہے ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیراعلیٰ کی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس کا اپنا اثر ہے.
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پنجاب کے گورنر کہتے ہیں میں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی ، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا وہ آج تک اس موقف پر قائم ہیں ؟وکیل نے کہا کہ ہم نے گورنر کو نو سے 13 اپریل تک الیکشن تاریخ کیلئے خط لکھا ، چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر آنکھیں بند کرکے تاریخ دیتے ہیں یا مشاورت سے ؟گورنر کو الیکشن کمیشن کے شیڈول کا کیا علم ؟گورنر نے مشاورت کیلئے آپ کو بلایا یا نہیں ؟وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ گورنر کی الیکشن کمیشن سے مشاورت تقاضا نہیںہے.
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ گورنر کی ذمہ داری ہے اسمبلی تحلیل کرے یا نہ کرے ، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ گورنر کہتے ہیں اسمبلی تحلیل نہیں کی تو تاریخ کیوں دوں ، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ شیڈول کو مد نظر رکھ رہی گورنر کو تاریخیں تجویز کی گئی تھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا گورنر نے مشاورت کیلیے الیکشن کمیشن کو بلایا تھا ؟وکیل نے کہا کہ گورنر نے مشاورت کیلیے انہیں بلایا ،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر نے مشاورت کی بجائے انٹراکورٹ اپیل دائر کر دی ،ہائیکورٹ نے مشاورت کر کے تےاریخ دینے کا حکم دیا تھا۔
وکیل نے کہا کہ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن نے گورنر سے ملاقات کی ،گورنر کے پی کے کو یادہانی کا خط بھی لکھا تھا ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ پشاور ہائیکورٹ بھی نوٹس نوٹس ہی کر رہی ہے ،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ تمام ادارے انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں ،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ گورنر کے پی کے نے مشاورت کیلیے تاریخ نہیں دی ،گورنر نے دیگر اداروں کے ساتھ رجوع کرنے کا کہا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر خیبر پختون خوا کے مطابق دیگر اداروں سے رجوع کرکے تاریخ کا تعین کیا جائے گا ،انتخابات پر متحرک ہونا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ،الیکشن کمیشن کا کام تھا مکمل تیاری کے ساتھ دوبارہ گورنر ز سے رجوع کرتا ،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن مشاورت سے کیوں کترا رہا ہے ؟آپ نے انٹرا کورٹ اپیل کیوں دائر کی ؟وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ انٹر اکورٹ اپیل قانونی وجوہات کی بنیاد پر دائر کی ۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا گورنر سے مشاورت کیلئے آپ کو عدالتی حکم ضروری ہے ، کیا الیکشن کمیشن خود سے گورنر کے پاس نہیں جا سکتا ،وکیل نے کہا کچھ رکاوٹیں بھی ہیں جن کا عدالت کو بتایا گیا ،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ آپ نے خود مشاورت کرنی ہے ، جو کرناہے کریں ، الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل ختم کر دیے ۔ عدالت نے سماعت میں وقفہ کر دیا،اب چار بجے دوبارہ کیس سنا جائے گا۔