افغانستان(اُمت نیوز) موسم سرما کی تعطیلات کے بعد افغانستان میں یونیورسٹیاں دوبارہ کھول دی گئی ہیں ۔ لیکن خواتین پر پابندی اب بھی عائد ہے۔
تفصیلات کے مطابق طالبان حکومت نے یہ پابندی خواتین طالبات پر لباس کے سخت ضابطوں کو نظر انداز کرنے اور کیمپس میں آنے، جانے کے لیے مرد رشتہ دار کے ساتھ جانے کی شرط کی خلاف ورزی کے بعد لگائی ہے۔
زیادہ تر یونیورسٹیوں نے پہلے ہی صنفی طور پر الگ الگ داخلے اور کلاس رومز متعارف کرائے تھے اور صرف خواتین پروفیسرز یا بوڑھے مردوں کو خواتین کو پڑھانے کی اجازت دی گئی تھی۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد سے طالبان حکام نے خواتین کو کئی سرکاری ملازمتوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اور بعض جگہ ان کی سابقہ تنخواہ میں کمی کر دی گئی ہے تاکہ وہ گھر بیٹھ جائیں۔انہیں پارکوں، میلوں، اور جم میں جانے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ عوامی مقامات پر پردہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان پابندیوں کی مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ نے اسے "صنفی بنیادوں پر نسل پرستی” قرار دیا ہے۔
وسطی صوبے غور سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ راحیلہ بھی اپنی تعلیم ادھوری رہ جانے پر پریشان ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مردوں کو یونیورسٹی جاتے دیکھنا دل دہلا دینے والا ہے جب کہ ہمیں گھر میں رہنا پڑتا ہے۔
یہ لڑکیوں کے ساتھ صنفی امتیاز ہے ۔ چونکہ اسلام ہمیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ہمیں سیکھنے سے کسی کو نہیں روکنا چاہیے۔
واضح رہے کہ اب تک کسی ملک نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔