امت رپورٹ :
حکمراں اتحاد میں شامل پارٹیاں پی ٹی آئی کے خلاف عام انتخابات مل کر لڑنے کا پلان رکھتی ہیں، جس کے تحت سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا آپشن اختیار کیا جائے گا۔ تاہم اتحادیوں کی یہ حکمت عملی ضمنی الیکشنوں میں بری طرح ناکام رہی ہے۔
مہنگائی سے تنگ عوام کے غصے کے علاوہ اس ناکامی کا ایک اور بڑا سبب دل سے ایک دوسرے کا ساتھ نہ دینا بھی ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل مختلف پارٹیوں کے رہنماؤں سے آف دی ریکارڈ کی جانے والی گفتگو سے تصدیق ہوتی ہے کہ جسمانی طور پر یہ پارٹیاں ایک اتحاد کا حصہ ضرور ہیں، لیکن دل سے ایک دوسرے کو قبول نہیں کرتیں اور محض ’’مشترکہ سیاسی دشمن‘‘ نے انہیں مجبوری کی زنجیر میں باندھ رکھا ہے۔
اگرچہ ضمنی الیکشنوں سے پہلے ہی اتحادیوں میں یہ فارمولہ طے پا گیا تھا کہ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کے موقع پر جس حلقے میں کسی اتحادی پارٹی کا امیدوار تحریک انصاف کے مقابلے میں رنر اپ رہا ہوگا، وہاں وہی پارٹی اپنا امیدوار کھڑا کرے گی اور دیگر اتحادی پارٹیاں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کے بجائے اسے ووٹ دیں گی۔ تاہم اب تک ہونے والے بیشتر ضمنی انتخابات میں یہ فارمولا ناکامی سے دوچار ہوا ہے۔ یعنی ایک اتحادی پارٹی کے امیدوار کو عموماً دوسری اتحادی پارٹیوں کے ووٹ نہیں پڑے۔ اس کا براہ راست فائدہ پی ٹی آئی کو ہوا اور زیادہ تر ضمنی الیکشن میں اس نے فتح حاصل کی اور اب اگلے عام انتخابات بالخصوص سر پر منڈلاتے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کو یہ ایڈوانٹج ملتا واضح دکھائی دے رہا ہے۔
اس سے قبل گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے انتخابات میں اتحادی ہونے کے باوجود بیشتر حلقوں میں پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے اپنی سیاسی حریف پی ٹی آئی کے امیدوار سے مشترکہ مقابلے کے بجائے اپنے اپنے امیدوار کھڑے کیے اور اس کا خمیازہ شکست کی صورت میں بھگتا۔ اس کی مجبوری بیان کرتے ہوئے نون لیگ آزاد کشمیر کے ایک رہنما کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ماضی میں دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی کٹر سیاسی حریف رہی ہیں۔ دونوں پارٹیوں کے امیدوار ایک دوسرے کے خلاف مہم چلا کر ووٹ مانگتے رہے ہیں۔ لہٰذا ان کے ووٹرز قیادت کی ہدایت پر بھی ایک دوسرے کو ووٹ نہیں ڈالتے۔ یہی وجہ کہ اتحادی ہونے کے باوجود دونوں پارٹیوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوسکی تھی۔ اور دونوں نے اپنے الگ امیدوار میدان میں اتارے تھے۔
یہی صورت حال پنجاب، کے پی کے اور سندھ میں ہونے والے ضمنی الیکشنوں میں بھی نظر آئی۔ گزشتہ برس اکتوبر میں قومی اسمبلی کی 8 سیٹوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن کا ذکر کیا جائے تو حکومتی اتحاد کو شکست دے کر 6 نشستیں عمران خان نے جیتی۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک نون لیگی عہدیدار کے بقول مختلف سیٹوں پر ان کے پارٹی امیدواروں کے حق میں پیپلز پارٹی نے اپنے امیدوار کھڑے نہیں کیے، لیکن پیپلزپارٹی کے ووٹ نون لیگی امیدوار کو پھر بھی نہیں پڑے۔
نون لیگی امیدوار کو صرف اپنی پارٹی کے ووٹوں پر ا نحصار کرنا پڑا اور یوں شکست کے ساتھ پی ٹی آئی کا یہ طعنہ بھی سننا پڑا کہ عمران خان نے 9 پارٹیوں کو اکیلے شکست دے دی۔ عہدیدار کے بقول اس سلسلے میں فیصل آباد کے حلقے این اے ایک سو آٹھ کی مثال واضح ہے۔ ضمنی الیکشن میں یہاں پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے نون لیگی امیدوار عابد شیر علی کے حق میں اپنے امیدوار کھڑے نہیں کیے تھے۔ عابد شیر علی کو پچھتر ہزار دوسو چھیاسٹھ ووٹ پڑے جو صرف نون لیگ کے تھے۔
دونوں اتحادی پارٹیوں کے ووٹرز گھروں سے نہیں نکلے۔ عمران خان ننانوے ہزار آٹھ سو اکتالیس ووٹ لے کر چوبیس ہزار چارسو اکہتر ووٹوں کے مارجن سے جیت گئے۔ یہی کچھ ننکانہ صاحب کی سیٹ پر ہوا۔ حال ہی میں راجن پور کے ضمنی الیکشن میں نون لیگ اور پیپلزپارٹی نے اپنے الگ امیدوار کھڑے کیے۔ یہ سیٹ بھی پی ٹی آئی کے حصے میں آئی۔ کراچی میں اتحادی پارٹی کے ووٹروں کی اس ستم ظریفی کا شکار ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار کو بننا پڑا۔
یہاں جے یو آئی نے ایم کیو ایم کے امیدوار کے حق میں اپنا امیدوار دستبردار کرلیا تھا۔ لیکن جے یو آئی کے ووٹرز نے ووٹنگ میں عدم دلچسپی دکھائی۔ رہی سہی کسر پیپلز پارٹی نے اپنا امیدوار کھڑا کرکے پوری کردی۔ اس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کے امیدوار سید نیر رضا کو بدترین شکست ہوئی اور وہ محض اٹھارہ ہزار ووٹ لے سکے۔ عمران خان کو پچاس ہزار سے زائد ووٹ ملے۔ یہی حال چارسدہ اور پشاور میں اے این پی کے امیدواروں کا ہوا۔ چارسدہ میں ایمل ولی خان اور پشاور میں غلام احمد بلور کے حق میں جے یو آئی اور پیپلز پارٹی نے اپنے امیدوار کھڑے نہیں کیے تھے اس کے باوجود عمران خان سے ایمل ولی خان دس ہزار ووٹوں اور غلام احمد بلور بڑے بھاری مارجن سے ہارگئے۔
جے یو آئی کے ایک رہنما سے جب اس پر بات ہوئی تو انہوں نے اعتراف کیا کہ اتحادی پارٹیوں کے ووٹرز کا ایک دوسرے کوووٹ نہ دینا دردسر بنا ہوا ہے۔ مذکورہ رہنما کا کہنا تھا ’’ایمل ولی خان نے حلقے میں اپنی پارٹی ووٹرز کو متحرک کرنے کے لیے خود بھی محنت نہیں کی تھی۔ سچی بات ہے کہ ہم نے بھی محنت نہیں کی۔ پھر یہ کہ جے یو آئی کے ووٹرز نے جب دیکھا کہ ان کی اپنی پارٹی میدان میں نہیں ہے تو وہ ووٹ کے لیے گھروں سے نہیں نکلے۔
چنانچہ چارسدہ اور پشاور کے ضمنی انتخابات میں اے این پی کے امیدواروں کی شکست کا سبب جہاں ان کا زیادہ محنت نہ کرنا تھا، وہیں حمایت کے اعلان کے باوجود جے یو آئی کے ووٹرز و سپورٹرز کا اے این پی کے امیدواروں کو ووٹ نہ دینا بھی ایک بڑا فیکٹر بنا۔ ورنہ کم از کم چارسدہ کی سیٹ اے این پی کی جیتی ہوئی تھی۔‘‘
اب پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات کے علاوہ قومی انتخابات میں بھی اگرچہ اتحادیوں نے مل کر الیکشن لڑنے کا ذہن بنا رکھا ہے۔ لیکن ضمنی انتخابات میں ہونے والے تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے آگے چل کر بھی اس حکمت عملی کے زیادہ حوصلہ افزا نتائج کا امکان دکھائی نہیں دے رہا، یوں قومی ا نتخابات میں اتحادیوں کو دوہرے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک یہ کہ مہنگائی سے ستائے عوام کا غصہ ان کے ووٹ بینک پر کاری ضرب لگا سکتا ہے اور دوسرا یہ کہ ٹیبل پر ایک ساتھ بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنے والی اتحادی قیادت عملاً ایک دوسرے کے لیے فراخدلی کا مظاہرہ نہیں کررہی ہے۔
چنانچہ کم از کم اتحادیوں کو ایک دوسرے کے لیے دل بڑا کرنا ہوگا، تاکہ الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے اصل ثمرات ایک دوسرے کوووٹ دینے کی شکل میں برآمد ہو سکیں۔ یہ دونوں چیلنج آسان نہیں۔