"موجودہ ملکی حالات بیرونی عناصر اور ان کے مقامی ایجنٹوں نے پیدا کئے”

اسلام آباد(امت نیوز) ملک بھر کی نامور سیاسی ،سماجی و مذہبی  شخصیات، ماہرین تعلیم  ، آئینی و قانونی ماہرین اور سول سوسائٹی کا کہناہے کہ پاکستان کو کثیرالجہتی  معاشی، سماجی، سیاسی چیلنجز کا سامناہے،جسے بڑی حد تک بیرونی عناصراوران کے مقامی ایجنٹوں نے پیدا کیا جو ملک کو اندرونی اور بیرونی طور پر کمزور کرنا چاہتے ہیں اور صورتحال کی خرابی کو بڑھا چڑھا کر پیش کر کے بحرانی صورتحال  پیدا کر رہے ہیں۔

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی  نیشنل اکیڈمک کونسل کے ایک غیر معمولی اجلاس سے خطاب میں ان رہنماؤں نے کہا کہ عوام کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کی اپنی طاقت اور قومی اعتماد کے عناصر ہیں جو پائیدار بہتری لا سکتے ہیں۔ حالات کو مایوسی کی طرف نہیں لے جانا چاہیے۔ اس کے بجائے، تبدیلی اور حل کے وژن کے ساتھ خود اعتمادی، اور ہر ممکن سطح پر مسلسل کوششیں ہونی چاہئیں۔

اجلاس کے شرکا نے موجودہ صورتحال کی بنیادی وجہ اخلاقی بحران، بدعنوانی اور ادارہ جاتی تنزلی  کو قرار دیتے ہوئے ملک میں  جاری  سیاسی، اقتصادی اور آئینی   بحران کے خاتمے کے لیے ایک مضبوط، اورملک گیر جدوجہد شروع کرنے کا مشورہ دیا۔  ماہرین نے ’گورننس ایمرجنسی‘ لگانے کی سفارش کی، جو ان کے بقول اقتصادی یا سیکیورٹی ایمرجنسی سے زیادہ اہم ہے۔

مقررین نے نوجوانوں اور نئی نسل کو  با مقصد، محب وطن شہری بنانے کے لیے ان کی مناسب تعلیم کی اہمیت پر بھی زور دیا اور کہا کہ مسلسل بگڑتا ہوا سیاسی بحران جامع جمہوری، انتخابی اور معاشرتی  اصلاحات کا متقاضی ہے۔ اس کے علاوہ، قابل اعتماد اور قابل قیادت کو فروغ دینے کے لیے آئینی دائرے میں رہتے ہوئے حقیقت پسندانہ اور عملی بنیادوں پر ایک جدید ترین سیاسی نظام وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔

آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمان نے پاکستان کی مقامی سول سوسائٹی کو متحرک کرنے پر زور دیا ۔ انہوں نے ملک میں نمائندہ جمہوریت اور گڈ گورننس کو یقینی بنانے کے لیے متناسب انتخابی نمائندگی کے نظام  کی تجویز پیش کی جو دنیا بھر میں حقیقی جمہوریت اور گڈ گورننس  کے لیے ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے۔  ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہدہ وزارت نے کہا کہ پاکستان نے طویل عرصے سے معاشی اور انتظامی ضروریات کے لیے بیرونی اداروں، خاص طور پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر انحصار کیا ہے، جنہوں نے پھر ملک کی پالیسیاں مرتب کیں اور ملک میں صارفی ذہنیت کو فروغ دیا۔

انہوں نے کہاکہ معاشی بحران کو حل کرنے کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ غیر ملکی معاشی مینیجرز کو مقامی حل کے حق میں فارغ کیا جائے اور آئی ایم ایف کے متبادل تلاش کیے جائیں۔

مفتی عبدالرحیم، سربراہ جامعۃ الرشید کراچی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں اتفاق رائے قائم کرنا، حقائق  کے ذریعے اداروں پر تعمیری تنقید کرنا،میڈیا کا مثبت کردار ادا کرنا اورقومی  یکجہتی کے ذریعے امید کے پیغام کوفروغ دینا انتشار کے خاتمے کے لیے ضروری ہے۔

سابق وفاقی وزیر اور دانشور سینیٹر (ر) جاوید جبار نے زور دیا کہ جمہوری، انتخابی اور گورننس اصلاحات تمام ریاستی اداروں کی فعالیت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں۔

اجلاس سے ڈاکٹر قبلہ ایاز چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل، احمد بلال محبوب ،بانی صدر ، پلڈاٹ، مفتی منیب الرحمان،  صدر تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان ، محمد اکرم شیخ، ممتاز قانون دان، ڈاکٹر سید عرفان حیدر وائس چانسلر ضیاالدین یونیورسٹی، سید ابو احمد عاکف ، سابق وفاقی  سیکرٹری، ،ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی،  سابق وائس چانسلر ،یونیورسٹی آف ہری پور، ڈاکٹر جنید احمد زیدی ، سابق ریکٹر،  کامسیٹس، ڈاکٹر سید طاہر حجازی، سابق ممبر گورننس، پلاننگ کمیشن آف پاکستان، ڈاکٹر وقار مسعود خان، سابق وفاقی سیکرٹری (فنانس)، مرزا حامد حسن، سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی، سابق سفیر  سید ابرار حسین، وائس چیئرمین، آئی پی ایس، پروفیسر جلیل عالی، ممتاز دانشور اور سابق سربراہ، شعبہ اردو، ایف جی۔ سرسید کالج، ڈاکٹر نوید بٹ، فزیشن، فیڈرل گورنمنٹ سروسز ہسپتال، نذیر احمد مہر، گورننس اسپیشلسٹ اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر، دی ریسرچ انیشیٹو، ڈاکٹر فخر الاسلام، ڈائریکٹر پاکستان سٹڈی سنٹر، پشاور یونیورسٹی، بریگیڈیئر ریٹائرڈ طغرل یامین، سینیر ریسرچ فیلو ، آئی پی ایس ، ڈاکٹر مسعود محمود خان،  کرٹن یونیورسٹی، آسٹریلیا، ڈاکٹر نورین سحر، ایسوسی ایٹ پروفیسر/ چیئرپرسن،شعبہ بشریات، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی،  اور ڈاکٹر شہزاد اقبال شام، ، سینئیر ریسرچ فیلو، آئ پی ایس نے بھی خطاب کیا۔ اجلا س کے شرکا نے جنوبی افریقہ کے ماڈل کی طرز پر، ایک ‘سچائی اور مفاہمتی فورم’ کے قیام کا مطالبہ کیا