اسٹیٹ بینک میں خلاف ضابطہ بھرتیاں ،3معذور افراد ملازمت سے برطرف

کراچی (رپورٹ : سید نبیل اختر) اسٹیٹ بینک میں خلاف ضابطہ بھرتیوں کا سلسلہ تھم نہ سکا ۔ مرکزی بنک کے ذیلی ادارے سیکورٹی پرنٹنگ پریس اور ناظم آباد دفتر میں کنٹریکٹ بھرتیاں جاری ہیں ۔ادارے میں کوٹہ ہونے کے باوجود 3 معذور افراد کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا ۔ کنٹریکٹ پر تعینات اعلیٰ افسران گزشتہ چند ماہ میں 45 ملازمین کو فارغ کرچکے ہیں ۔ اہم ذرائع نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک میں خلاف ضابطہ بھرتیاں جاری ہیں ، یہ بھرتیاں مرکزی بینک کے بینکنگ سروسز کارپوریشن اور سیکورٹی پرنٹنگ پریس میں کی گئی ہیں جس کیلئے مرکزی بینک کے سروس رولز کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے ، معلوم ہوا ہے کہ ایگزیکٹیو ہیومن ریسورس افسر قاسم نواز اور منیجنگ ڈائریکٹر اشرف خان کی سفارش پر ڈائریکٹر ایچ آر نے ریٹائرڈ ملازم شفیق اللہ کو کنٹریکٹ پر اسپورٹس افسر بھرتی کرلیا ۔ اسی طرح ایم ڈی کے مسینجر عبدالغنی کو بھی کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا ہے ، وہاں سیکورٹی پرنٹنگ پریس میں صبغت اللہ عرف سیف اللہ نے ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر ملازمت حاصل کی ، جس پر اعتراض سامنے آنے پر اسے تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ پر بھرتی کرلیا گیا ، ذرائع کا کہنا ہے کہ سیف اللہ افسران افسران کے کام بھی کمیشن لے کر کرتا ہے تاہم اعلیٰ عہدے پر فائز افسران اس کی خدمات سے خوش ہیں جس کی وجہ سے اسے تھرڈ پارٹی ملازمت دے کر ادارے میں خدمات جاری رکھنے کے احکامات دیئے گئے ۔ دوسری جانب سیکورٹی پرنٹنگ پریس میں ملازمت کرنے والے 3 معذور افراد کو ملازمت سے برطرف کردیا ہے جن کے ساتھ برسوں سے ادارے میں خدمات انجام دینے والے ستر سالہ بزرگ کو بھی فارغ کیا گیا ہے تاہم ادارے کے افسران کو خوش رکھنے والے افسران کی کنٹریکٹ پر بھرتیاں دھڑلے سے جاری ہیں ، ذرائع نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک انتظامیہ نے یونین سے چارٹر آف ڈیمانڈ کے مطابق بھرتیاں کرنے کی حامی بھری تھی تاہم موجودہ انتظامیہ نے اس ضمن میں کوئی اقدام نہیں اٹھایا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک مذکورہ غیر قانونی اقدامات کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہے جس سے ادارے میں موجود اہل افسران کی ترقیاں نہیں ہورہی ہیں ، نتجتا ً ادارے کے ملازمین میں بھرتیوں کے معاملے پر شدید بے چینی پھیلی ہوئی ہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ 20 فروری کو سینیٹر مظفر حسین شاہ، سینیٹر ہدایت اللہ، سینیٹر ذیشان خانزادہ اور سینیٹر دلاور خان نے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی دوبارہ ملازمت پر پابندی کا بل سینیٹ میں پیش کیا ہے ۔بل میں کہا گیا ہے کہ ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو وفاقی حکومت دوبارہ ملازمت پر بھرتی نہیں کرے گی، ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو ملازمت میں توسیع، دوبارہ ملازمت دینے، کنٹریکٹ پر ملازمت نہیں دی جائے گی۔بل کے متن کے مطابق ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو ہنگامی بنیاد پر عارضی ملازمت، کنسلٹینسی، ایڈ ہاک یا عارضی طور پر دوبارہ ملازمت نہیں دی جائے گی، ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو پروجیکٹ، خصوصی ایم پی اسکیل نوکری پر دوبارہ ملازمت نہیں دی جائے گی۔ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو خود مختار اور نیم خود مختار اداروں میں دوبارہ بھرتی نہیں کیا جائے گا، اس کو کارپوریشن، کمپنیز ، اتھارٹی، میں دوبارہ ملازمت نہیں دی جائے گی۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو اتھارٹی کی منظوری کے ساتھ طے شدہ یا بغیر طے شدہ طریقہ کار پر بھی دوبارہ ملازمت پر نہیں رکھا جائے گا۔بل کے اغراض و مقاصد میں کہا گیا ہے کہ سول سرونٹ کی دوبارہ بھرتی قانون نہیں بننا چاہیے، حاضر سروس سول سرونٹ کی اعلیٰ گریڈ پر ترقی کی خواہش ہوتی ہے، ریٹائرڈ ملازم کی دوبارہ بھرتی کے باعث حاضر سروس ترقی سے محروم ہو جاتا ہے۔ بل کے متن کے مطابق ریٹائرڈ ملازم محکمے کے امور میں بے قاعدگی پیدا کرتا ہے، ریٹائرڈ سرکاری ملازم کی دوبارہ بھرتی سے سیاسی مداخلت ہوتی ہے اور اکثر کیسز میں سیاسی تعلقات کی بنیاد پر دوبارہ ملازمت دی جاتی ہے، ان کیلئے سیاسی دباؤ کی مزاحمت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بل وفاقی اداروں میں کرپشن ، اقربا پروری اور ناانصافی کا راستہ روکنے کیلئے پیش کیا گیا ہے تاہم اسٹیٹ بنک کے گورنر کے چہیتے کنٹریکٹ پر تعینات اعلیٰ افسران معذوروں سمیت 45 ملازمین کو اب تک ملازمتوں سے برطرف کرچکے ہیں اور من پسند افراد کو نوازنے میں مصروف ہیں ۔ اسٹیٹ بینک کے متاثرہ ملازمین نے وزارت خزانہ اور سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی سے مذکورہ بے ضابطگیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے ۔