اسلام آباد (امت نیوز)عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کے جج ظفر اقبال نےکہا ہےکہ عمران خان اب بھی سرینڈر کردیں تو میں آئی جی کو آرڈر کردیتاہوں کہ ان کوگرفتار نہ کریں۔
ڈ سٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت کی۔ عمران خان کے وکلاء خواجہ حارث، فیصل چوہدری اور بابراعوان عدالت میں پیش ہوئے۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا وارنٹ برقرار رکھنے کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
جج ظفر اقبال نے سوال کیا کہ آپ کو کیا لگتا ہے کیس قابل سماعت سے متعلق الیکشن کمیشن کو نوٹس دینا چاہیئے؟ مسلہ ایک سیکنڈ میں حل ہوسکتا ہے، عمران خان کہاں ہیں؟ عمران خان ذاتی حیثیت میں عدالت کہاں پیش ہوئے ہیں؟ انڈرٹیکنگ کا کا نسیپٹ کہاں پر ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ سیشن عدالت کو موصول نہیں ہوا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کیا ضروری ہے عمران خان کو گرفتار کرکے ہی عدالت لائیں؟۔
جج نے ریمارکس دیے کہ ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان عدالت آجائیں، وہ کیوں نہیں آرہے؟ وجہ کیا ہے؟ قانون کے مطابق عمران خان نے پولیس کو اسسٹ کرنا ہے ریزسٹ نہیں کرنا، عمران خان نے ریزسٹ کرکے سین کو بنایا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ غیرقانونی عمل سے آرڈر اثر انداز نہیں ہونا چاہیئے۔
جج ظفر اقبال نے مزید ریمارکس دیے کہ اگر قابل ضمانت وارنٹ ہوتے تو مسئلہ ہی کچھ نہ ہوتا، عمران خان کے وارنٹ ناقابلِ ضمانت ہیں، آپ جو دلائل بتا رہے وہ قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کے مطابق ہیں، کیس میں شوریٹی تو آئی ہوئی ہے۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کیا یہی سختی رکھنی ہے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری رکھنے ہیں۔ جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ وارنٹ گرفتاری عمران خان کی ذاتی حیثیت میں پیشی کے لئے ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان تو خود کہہ رہے ہیں کہ میں عدالت آنا چاہتا ہوں، وہ استثنیٰ نہیں مانگ رہے، عدالت آنا چاہتے ہیں، کیا اس وقت ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری کے فیصلے کی ضرورت ہے؟ آپ کے پاس 2 آپشنز موجود ہیں، درخواست گزار آنا چاہتے ہیں، پہلا آپشن انڈرٹیکنگ کی درخواست منظور کرکے ناقابلِ ضمانت وارنٹ منسوخ کردیں، دوسرا آپشن شوریٹی لے کر قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کریں، عمران خان انڈر ٹیکنگ دینا چاہتے ہیں کہ 18مارچ کو سیشن عدالت پیش ہوں گے۔
عمران خان کے وکلاء نے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی استدعا کردی۔
جج ظفر اقبال نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو نوٹس بھی دیتے ہیں، جس پر وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ آپ نوٹس دے کرالیکشن کمیشن کوآج ہی بلا لیں۔
جج نے سوال کیا کہ لاہور زمان پارک میں صورتحال خراب کیوں ہے؟ پاکستان کا ہی نہیں دنیا کا سب سے مہنگا وارنٹ عمران خان کا بن گیا ہے، حکومت کے کروڑوں روپے اس وارنٹ پر لگ گئے کیا ایسا ہونا چاہیئے تھا۔
جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اس میں حکومت کا قصور ہے، میں ذاتی حیثیت میں مذمت کررہا ہوں ایسا نہیں ہونا چاہیئے تھا، 3 سے زیادہ پرتشدد واقعات ہوئے، لوگوں پر مقدمات کیے گئے۔
جج ظفر اقبال نے کہا کہ قانون کے مطابق ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری کسی بھی شہر میں قابلِ اطلاق ہوسکتا ہے۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ حکومت سیاسی انتقام بنارہی ہے، گرفتاریاں ہوئی ہیں، زیادتی ہوئی ہے، زمان پارک میں جو ہورہا وہ نہیں ہونا چاہیئے تھا۔
جج نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق عمران خان کو عدالت لانا تھا، عمران خان کو عدالتی پیشی پر حراساں کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔
جج ظفر اقبال نے کہا کہ غریب ملک ہے، کروڑوں روپے وارنٹ پر خرچہ ہوا جس کی ضرورت نہیں تھی، عمران خان اب بھی سرینڈر کردیں تو میں آئی جی کو آرڈر کردیتا ہوں گرفتار نہ کریں، ان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ میں تبدیلی کیا ہوگی۔
جس پر وکیل نے کہا کہ عمران خان انڈر ٹیکنگ دے رہے ہیں، وارنٹ معطل کردیں۔ جج نے ریماریس دیے کہ 12 بجے تک الیکشن کمیشن کو کہیں کہ عدالت پہنچیں۔