اسلام آباد: سپریم کورٹ نے صحافی ارشد شریف قتل پر از خود نوٹس کی سماعت تین ہفتوں کیلیے ملتوی کردی، دوران سماعت ارشد شریف کی والدہ نے عدالتی کارروائی پراعتراض کر دیا ، وکیل نے کہا کہ صحافی کی والدہ اندراج مقدمہ کیلیے رجوع کر ناچاہتی ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہم یہاں کسی کو سزا یا بری نہیں کر رہے ،ہم صرف تحقیقات میں سہولت فراہم کر رہے ہیں۔
ارشد شریف کی والدہ کا کہناتھا کہ سپریم کورٹ کی کارروائی پر تحفظات ہیں، وکیل نے کہا کہ ارشد شریف کی والدہ اپنے موقف کے مطابق مقدمہ درج کروانا چاہتی ہیں ،قانون کے مطابق سپریم کورٹ ارشد شریف کیس کی تحقیقات کی نگرانی نہیں کر سکتی ،ارشدشریف کی والدہ اندراج مقدمہ کیلئے عدالت سے رجوع کرنا چاہتی ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے ساڑھے پانچ ہفتے انتظار کے بعد از خود نوٹس لیا، وکیل نے کہا کہ ہماری استدعا ہے ارشد شریف کیس میں گناہ گاروں کو سزا ملے.
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہم یہاں کسی کو سزا یا بری نہیں کر رہے ،ہم صرف تحقیقات میں سہولت فراہم کر رہے ہیں، صحافی برادری کے خدشات پر از خود نوٹس لیا گیا تھا ،عدالت سوموٹو میں کسی کو سزا دینے نہیں بیٹھی ،جے آئی ٹی کے کام میں سپریم کورٹ کوئی مداخلت نہیں کر رہی ،عدالت صرف حکومتی اداروں کو سہولیات فراہم کر رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بہت دکھ ہے کیس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی دفتر خارجہ دو ممالک سے مدد لینے میں ناکام رہا ، وکیل نے کہا کہ ارشد شریف کی والدہ روزانہ جیتی اور مرتی ہیں ،ارشد شریف کی والدہ مرضی کے مطابق ایف آئی آر در ج نہیں کروا سکتیں ،اگر ہماری ایف آئی آرغلط ہوئی تو بے شک خارج کر دیں.
چیف جسٹس نے کہا کہ ارشد شریف قتل کیس میں ابھی تک کوئی پیشر فت نہیں ہو سکی ،بیرون ملک سے کوئی تعاون نہیں مل رہاہے ،عدالت کسی کو تحفظ دینا چاہتی ہے نہ کسی کو مجرم قرار دینا مقصد ہے ،کوئی دلچسپی نہیں لے گا تو کارروائی مزید تاخیر کا شکار ہو گی ،عدالت نے سوموٹو کارروائی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھانا ،صحافیوں کا عدالت بہت احترام کر تی ہے ،صحافی ہمیں کچھ بھی کہیں کبھی توہین عدالت کی کارروائی نہیں کی ،صحافی کو قتل کر دیا گیا جو دوسروں کیلئے سبق ہو سکتا ہے ،ارشد شریف صحافی اور اس ملک کا شہری تھا ،صحافیوں کے بنیادی حقوق اور تحفظ کیلiے عدالت نے سوموٹو لیا ہے ،عدالت نے سماعت تین ہفتے کیلیے ملتوی کر دی۔