کام بڑھتے ہی بورنگ والوں نے اجرت دگنی کر دی۔فائل فوٹو
کام بڑھتے ہی بورنگ والوں نے اجرت دگنی کر دی۔فائل فوٹو

 طبی ماہرین نے بورنگ کا پانی مضر قرار دیدیا

اقبال اعوان :
کراچی میں گرمی بڑھتے ہی پانی کا بحران بڑھ گیا۔ پریشان حال شہری بڑے پیمانے پر بورنگ کرانے لگے ہیں۔ کام بڑھتے ہی بورنگ والوں نے اجرت دگنی کر دی۔ جبکہ پلاسٹک و فائبر کی پانی کی ٹنکیوں اور پائپ سمیت فٹنگ آئٹمز کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئیں۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بورنگ کا پانی پینے میں استعمال کرنے والے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ جبکہ شہر میں پانی کی عدم دستیابی اور بعض علاقوں میں جان بوجھ کر مصنوعی بحران پیدا کرنے والوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ شاہ فیصل کالونی، کورنگی، لانڈھی، ملیر اور دیگر علاقوں میں ڈبوں کے ذریعے پانی کی فروخت کا سلسلہ بڑھ گیا ہے۔

واضح رہے کہ گرمی کی شدت میں اضافے ہوتا جارہا ہے۔ جبکہ موسم تبدیل ہونے کے بعد پانی کی کھپت بڑھ گئی ہے اور واٹر بورڈ کا عملہ کچی آبادیوں اور دیگر جگہوں پر پانی فروخت کرنے والوں کے ساتھ سیٹنگ کر کے علاقوں میں کم پانی کھول رہا ہے۔ شہری رات بھر پانی بھرنے کے لیے جاگ جاگ کر بیمار ہورہے ہیں اور بجلی کی موٹریں چلانے سے بل خاصا زیادہ آرہا ہے۔ رمضان بھی سر پر آچکا ہے اور شہری پانی، بجلی، گیس کے حوالے سے پریشان ہیں کہ مہنگائی کے دور میں متبادل کام کرنا مشکل ہورہا ہے۔ کراچی کے ساتوں اضلاع میں دھابیجی اور حب ریور سے پانی کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے۔

بجلی کے آئے روز بریک ڈائون سے دھابیجی پمپ ہائوس پر لائنیں پھٹ جاتی ہیں اور اس طرح ضلع ایسٹ، کورنگی، ملیر والے پانی کی بوند کو ترس جاتے ہیں۔ کبھی حب ریور میں مرمت یا خرابی کا معاملہ بتا کر پانی بند کر دیا جاتا ہے تو ضلع ویسٹ، سینٹرل، کیماڑی، سائوتھ میں پانی کا بحران پیدا کر دیا جاتا ہے۔ شہری شاہ فیصل کالونی، نیپا، کورنگی، لانڈھی، ملیر، لیاقت آباد، گارڈن، نیوکراچی، بلدیہ، کیماڑی، اولڈ ایریا، ناظم آباد، سرجانی اور دیگر علاقوں میں سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ علاقوں میں واقع پمپس ہائوسز میں موٹریں خراب ہونے کا کہہ کر کم چلائی جاتی ہیں اور پانی فروخت کرنے والے نیٹ ورک کو پانی شہر میں بندش کے باوجود ملتا رہتا ہے۔

اسی طرح پلاسٹک کے ڈبوں سے پانی فروخت کرنے والے پانی فروخت کررہے ہیں جو لائن کا پانی لگ بھگ دو سے تین روپے لیٹر کے حساب سے فروخت کرتے ہیں۔ شاہ فیصل کالونی نمبر 4 میں تین میں سے ایک موٹر چلائی جاتی ہے اور زیادہ تر ان لائنوں میں پانی دیا جاتا ہے جو مکینوں کے علاوہ فروخت کرنے والوں کی جگہ تک جارہی ہیں۔ علاقوں میں آر او پلانٹس یا پانی ڈبوں میں بھر کر فروخت کرنے والوں کی چاندی ہورہی ہے۔

گلشن اقبال بلاک 10/A میں نیپا پمپ اسٹیشن پر بھی موٹریں کم چلائی جاتی ہیں۔ اس طرح شہر میں جان بوجھ کر مصنوعی بحران پیدا کر کے شہریوں سے مختلف بہانوں سے رقم وصول کی جارہی ہے۔ بعض علاقے والوں کا کہنا ہے کہ پمپ والوں سے ماہانہ رقم کی یعنی بھتے کی سیٹنگ کرلو اور علاقے والے رقم اکٹھی کر کے وال مین کو دے دو تو ان کے علاقے میں پانی آتا رہے گا۔ غریب اور متوسط طبقہ زیادہ پریشان ہے رات بھر موٹریں چلاتے ہیں اور بھاری بل ادا کرتے ہیں۔ کراچی میں گزشتہ مون سون میں اچھی خاصی بارشیں ہوئی تھیں اس کے باوجود زمین کے نیچے پانی کی کمی ہورہی ہے کہ بورنگ کا سلسلہ بہت بڑھ گیا ہے۔

رہائشی کمرشل عمارتوں، دفاتر، فیکٹریون، گلی کوچوں، ہر جگہ پانی کی کمی کے بعد بورنگ کا سلسلہ بڑھ گیا ہے۔ اب مختلف علاقے والے 110 سے 200 فٹ تک بورنگ کررہے ہیں، اس سے کم میں پانی نہیں آتا ہے۔ چند ماہ قبل علاقوں میں بورنگ کی اجرت 150 فٹ تک 60 ہزار روپے تک تھی اب ایک لاکھ 40 ہزار روپے تک کررہے ہیں۔ جبکہ بورنگ کے پانی کے باعث لوہے کے پائپ کی فٹنگ، سیمنٹ یا لوہے کی ٹنکیاں خراب ہو جاتی ہیں۔ بورنگ بڑھنے سے پلاسٹک کی ٹنکیاں زیادہ استعمال ہونے پر زیادہ فروخت ہورہی ہیں اور ان کی قیمتیں دگنی ہو چکی ہیں۔ پائپ اور دیگر فٹنگ کا سامان بھی مہنگا ہو چکا ہے۔ شہریوں کے لیے ماہ رمضان سے قبل ہی پانی کا حصول مشکل بنا دیا گیا ہے۔

غریب طبقہ تو بورنگ کا آلودہ پانی پینے پر مجبور ہے اور کھانے پکانے میں بھی استعمال کرتا ہے جس سے گردوں، معدے، جگر، پیٹ کی بیماریاں اور جلدی امراض لگ رہے ہیں۔ جبکہ شہر میں گلی گلی میں قائم آر او (RO) پلانٹ کسی بھی طرح مناسب طریقے سے نہیں چل رہے ہیں۔ بورنگ کے پانی میں کیمیکل ملا کر شہریوں کو پانی پینے کے لیے فروخت کیا جاتا ہے۔ کوالٹی کنٹرول یا صحت کا کوئی ادارہ چیک نہیں کرتا ہے، یہ منافع بخش دھندا دھڑلے سے جاری ہے۔